تکریمِ نسواں لازم ہے

حوا کی بیٹی اگر شادی کے بعد خوش نہ ہو تو اس کا ساتھ دینے کے بجائے اس کو مجبور کیا جاتا ہے کہ کوئی فیصلہ مت کرنا‘ صبر کرو‘ اب شوہر کے گھر سے تمہارا جنازہ ہی اٹھنا چاہیے۔ کبھی وہ الفاظ کے تیر سہتی ہے تو کبھی مارپیٹ کا سامنا کرتی ہے۔ گالیاں کھا کر مسکرانے کا فن صرف عورت کو آتا ہے۔ مار کھا کر دوپٹے سے اپنے آنسو اور میک اپ سے اپنے زخم چھپاتی ہے۔ کچھ خواتین تو اپنی سہلیوں اور بہنوں کو اپنی اذیت بتا کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی ہیں اور کچھ پوری زندگی چپ چاپ ظلم سہتی رہتی ہیں۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں اکثر و بیشتر مردوں کو دانستہ و غیر دانستہ یہ سکھایا جاتا ہے کہ تم مرد ہو‘ تمہیں ہر چیز کی اجازت ہے‘ تم برتر ہو۔ نتیجتاً وہ اس احساسِ برتری کو بیوی پر تشدد کر کے ظاہر کرتا ہے۔ وجہ چھوٹی ہو یا کوئی بھی وجہ نہ ہو‘ جو مرد عورت پر ہاتھ اٹھانے کا عادی ہے‘ وہ مارنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ضرور تلاش کر لے گا۔ بظاہر بہت مہذب نظر آنے والے افراد بھی گھر میں بیویوں سے مارپیٹ اور گالم گلوچ کرتے ہیں۔ زیادہ تر خواتین صرف خاندان کی عزت اور بچوں کی خاطر شادی کا رشتہ چلاتی رہتی ہیں۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں طلاق کو ایک کلنک کی طرح عورت پر چپکا دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ کیا طلاق صرف عورت کی ہوتی ہے؟ مرد طلاق یافتہ نہیں ہوتا؟ کیوں طلاق کا سارا بوجھ اکیلی عورت پر ڈال دیا جاتا ہے؟
جس وقت عورت اپنے شوہر کے گھر میں تشدد کا شکار ہوتی ہے‘ اس کو صبر کرنے کا کہا جاتا ہے۔ سب یہی کہتے ہیں کہ ایک چپ‘ سو سکھ، حالانکہ اس روش سے شوہر مزید بگڑ جاتے ہیں، پھر ایک دن اطلاع آتی ہے کہ اس عورت نے خودکشی کر لی ہے یا اس کو قتل کر دیا گیا ہے۔ تب پورا خاندان اکٹھا ہو جاتا ہے کہ شوہر کو سزا دی جائے لیکن تشدد کی شکار عورت کی زندگی میں اس کی مدد نہیں کی جاتی‘ اس کو مار کھانے کیلئے اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جب وہ عورت مر جاتی ہے تو سارا خاندان بلکہ پورا معاشرہ اس کے حقوق کی جنگ لڑنے کا عزم ظاہر کرنے لگتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ٹویٹس شیئر ہوتے ہیں‘ خبریں شائع و نشر کی جاتی ہیں، سب اس کے لئے انصاف کی آواز بلند کرتے ہیں۔ میرا یہاں پر سوال ہے کہ جو عورت ساری زندگی سسکتی رہتی ہے‘ اس کی زندگی میں سب اس کے لئے آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟
اسی طرح بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جہیز کی کمی پر بھی عورت کو مارا پیٹا جاتا ہے‘ کئی کیسز میں تو خواتین کو آگ لگا کر زندہ جلا دیا جاتا ہے لیکن ان کے لئے کوئی آواز نہیں بلند کرتا‘ کوئی تو ہو جو جہیز پر پابندی لگوائے‘ یہاں شادی والے دن شادی ٹوٹ جاتی ہے اگر دلہے کو گاڑی‘ پلاٹ یا طلائی گھڑی نہ دی جائے۔ داغ اس لڑکی پر لگ جاتا ہے، حالانکہ ذمہ دار تو اس لالچی لڑکے اور اس کے والدین کو ٹھہرانا چاہیے جو اپنے بیٹے کو بازار کی جنس کے طور پر بیچ رہے ہوتے ہیں۔ جہیز کے نام پر جب کوئی لڑکی زندہ درگور کر دی جاتی ہے تو سب چپ رہتے ہیں لیکن اگر اس کو شادی کے بعد اسے مار دیا جائے تو سب اس کی آواز بن جاتے ہیں۔ ہم زندہ لوگوں کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ کیوں ہم صرف مرے ہوئے انسان کو اچھا کہتے ہیں؟
یہاں قدم قدم پر عورتوں کے لئے بے شمار مشکلات ہیں‘ جن میں سے ایک مسئلہ ہراسانی کا بھی ہے۔ کوئی بھی عورت جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو ہوس بھری نظریں اس کا پیچھا شروع کر دیتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اُس عمر کی بچی کو بھی جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا جس عمر میں ابھی ٹھیک طرح سے بولنا بھی نہیں آتا۔ یہ چیز وبا کی طرح پھیل رہی ہے، اللہ ہمارے معاشرے پر رحم کرے‘ یہاں برائیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ گھر سے باہر نکلنے والی ہر لڑکی‘ ہر خاتون ہوس کی تسکین کا سامان نہیں بلکہ وہ اپنی کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلی ہے۔ میں ایک روز گھر میں ٹیرس پر کھڑی تھی کہ دیکھا سامنے سٹرک پر موٹر سائیکل پر سوار ایک اوباش لڑکا راہ چلتی باپردہ بچی کو زور سے ہاتھ مار کر گیا۔ میں چیخ پڑی‘ کوشش تھی کہ وہ پکڑا جائے لیکن وہ فرار ہو گیا۔ میں نے اس بچی کو پانی پلایا‘ اسے تسلی دی۔ وہ مسلسل رو رہی تھی کہ میں باپردہ تھی‘ پھر بھی اس نے یہ حرکت کی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ یہ پردے یا لباس کا نہیں غلیظ ذہنیت کا مسئلہ ہے، ایسے لوگ نہیں سدھر سکتے۔ ہمارے ہاں خواتین اب سڑکوں پر بھی محفوظ نہیں ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ کسی کو ہراساں کرنے کا محرک اس کی شکل یا لباس نہیں بلکہ اس کا ذمہ دار وہ شخص ہوتا ہے جس کی سوچ اور ذہنیت گند سے بھری ہوئی ہے۔ خواتین کو بازاروں‘ ٹرانسپورٹ‘ دفاتر اور پبلک مقامات‘ غرض ہر جگہ پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان پر جملے کسے جاتے ہیں، مسلسل گھور کر تنگ کیا جاتا ہے اور کچھ لوگ انہیں چھونے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ کسی شخص کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی دوسرے کو چھو سکے‘ اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو اس کو سختی سے روکیں اور اردگرد موجود لوگوں کو آگاہ کریں۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب ایک خاتون کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو کچھ کہنے کے قابل نہیں رہتی اور دکھ‘ شرمندگی اور خوف کے باعث ٹھنڈی برف ہو جاتی ہے۔ ایسے موقع پر ڈر لگنا ایک فطری عمل ہے لیکن شرمندہ صرف اسے ہونا چاہیے جس نے یہ قبیح حرکت کی۔
سوشل میڈیا پر اسلام آباد کے ایک نجی بینک کی وڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک بینک ملازم اپنی ساتھی خاتون ورکر کو ہراساں کر رہا ہے، شاید شرمندگی اور خوف کے سبب وہ کچھ کہہ بھی نہیں پائی کیونکہ اگر وہ آواز اٹھاتی تو کہا جاتا ثبوت لائو۔ ہراسانی کا ثبوت کہاں سے لایا جاتا ہے؟ کیا بتائے وہ کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ عام طور پر خواتین اس معاملے پر نہیں بول پاتیں۔ یہ تو بینک میں کسی نے اس کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی اور مجرم قانونی گرفت میں آ گیا مگر ایسے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں جو شریف النفس خواتین کو تنگ کرتے ہیں، ان کا سڑکوں‘ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں جینا حرام کر دیتے ہیں۔ اکثر افراد صرف اس لئے شیر بن جاتے ہیں کیونکہ خواتین بدنامی کے ڈر سے خاموش رہتی ہیں۔ حالانکہ اگر اس سارے معاملے میں بدنامی کا کوئی حق دار ہے تو صرف وہ‘ جو خواتین کو ہراساں کر رہا ہے۔
اس معاملے پر معاشرے اور اداروں کو ''زیرو ٹالرنس‘‘ یعنی صفر برداشت پالیسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ ایسے افراد‘ جو خواتین کو ستاتے ہیں‘ کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ باقی سب کو عبرت ہو۔ تکریمِ نسواں سب پر لازم ہے‘ یہ دنیا مرد و عورت‘ دونوں کے لئے بنی ہے اس لئے دونوں کو یہاں رہتے ہوئے ایک دوسرے کو احترام دینے کی ضرورت ہے۔ عورت ہر رشتے میں مقدس ہے اور اس کا احترام سب پر فرض ہے۔ ہر عورت جو گھر سے باہر نکل رہی ہے وہ صرف شوق کی خاطر یا کیریئر بنانے کے لیے نہیں نکلی‘ اس کی معاشی مجبوریاں بھی اس کو ہوس بھرے جنگل میں دھکیلتی ہیں۔ کسی کے سر پر باپ کا سایہ نہیں تو کسی کا باپ بستر پر پڑا ہے، کوئی چھوٹے بہن‘ بھائیوں کو اکیلے پال رہی ہے تو کسی کے کاندھوں پر بچوں کی ذمہ داریاں ہیں۔ خدارا! ان خواتین کی مجبوریوں سے مت کھیلیں‘ ان کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیں‘ یہ اپنے گھروں کی کفیل ہیں‘ ان کو عزت دیں۔
میں نے بہت سی خواتین کو یتیمی‘ بیوگی یا طلاق کے بعد محنت کرتے دیکھا ہے‘ انہیں کبھی تقدیر پر شکوہ کناں نہیں دیکھا۔ وہ خوش ہیں کہ وہ رزقِ حلال کما رہی ہیں لیکن جب نکاح کے بجائے کوئی انہیں غلط راستے پر چلنے کا پیغام دیتا ہے تو وہ بہت رنجیدہ ہوتی ہیں کہ معاشرے کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔ ورکنگ خواتین کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر انہیں ہراساں نہ کیا جائے‘ وہ کام کرنے کے لیے گھر سے نکلی ہیں‘ انہیں کام کرنے دیں اور اپنی نظریں نیچی رکھیں، ماحول کافی حد تک ٹھیک ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں