کورونا وائرس اور پاکستانی سیاست

کورونا وائرس نے ہماری زندگیاں ہی بدل کر رکھ دی ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں کورونا کی دوسری لہر کے وار پوری شدت سے جاری ہیں۔ بار بار حکومت، مقامی انتظامیہ اور این سی او سی کی طرف سے معلوماتی پیغامات نشر کئے جا رہے ہیں کہ گھر پر رہیں، ماسک لازمی پہنیں، بار بار ہاتھ دھوئیں، تقریبات میں جانے سے پرہیز کریں اور ایک دوسرے سے چھ فٹ کا سماجی فاصلہ اختیار کریں۔ دنیا بھر میں اب تک 5 کروڑ 66 لاکھ سے زائد افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک اَن دیکھا وائرس ہے جو کسی کو بھی لگ جاتا ہے جس کی زندگی لکھی ہوتی ہے‘ وہ بچ جاتا ہے اور جس کا وقت پورا ہو گیا، وہ دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اس بیماری کا خوف پھیلا ہوا ہے ؛ تاہم پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اپنی ہی دنیا میں مگن اپنے سیاسی مفادات کے لیے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کو نعرہ لگا کر عوام کو جلسوں‘ دھرنوں میں اکٹھا کرکے کورونا کو مزید پھیلانے کا سبب بن رہی ہے۔ گلگت‘ بلتستان میں الیکشن کی مجبوری سمجھ آتی تھی کہ انتخابی مہم چلانا ضروری تھی‘ لیکن اب الیکشن کے بعد جلسے جلوسوں کی کیا وجہ ہے؟
مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری اپنی طرف سے حکومت کو دھمکانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دیکھو ہمارے جلسے کتنے کامیاب ہیں لیکن یہ لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان پر‘ اپنی اور اپنے خاندان والوں کی کرپشن کے بھاری الزامات کا بوجھ ہے‘ جب تک وہ ان الزامات کو عوام کے سامنے کلیئر نہیں کرتے‘ ووٹ کو عزت دو اور جمہوریت کھپے کے نعرے کھوکھلے رہیں گے۔ اقتدار میں آنے کے لئے عوام کی جان خطرے میں ڈالنا کہاں کی دانش مندی ہے۔بدھ کے روز ‘نون لیگ نے مانسہرہ میں پاور شو کیا ‘بلاشبہ جلسے میں عوام کی بڑی تعداد شامل تھی مگر عوام کو کورونا سے بچانے کے لئے شاید ہی ایس او پیز کا کوئی خیال رکھا گیا ہو۔ دوسری طرف چوبیس گھنٹے میں 37 قیمتی جانیں کورونا نے نگل لیں اور اس وقت ملک بھر میں 32ہزار سے زائد ایکٹو کورونا کیسز ہیں۔ یہ وہ تعداد ہے جو سرکاری ریکارڈ میں ہے‘ حقیقی کیس اس سے بھی زیادہ ہیں‘ بہت سے وہ لوگ‘ جو ہسپتال افورڈ نہیں کر سکتے‘ وہ گھر میں سسکتے رہتے ہیں اور بہت سے لوگ افورڈ کرنے کے باوجود خوف یا دوسری وجوہ کی بنا پر گھروں میں ہی مقیم ہیں‘ وہ ہسپتالوں کا رخ نہیں کر رہے۔ جب انہیں سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے‘ اس وقت ہسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ این سی او سی کے مطابق اس وقت کورونا ٹیسٹ کی مثبت آنے کی شرح 2سے 7 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں کیسز کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور اسلام آباد میں بھی صورتحال تسلی بخش نہیں۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے وائرس کی آڑ میں پابندی قبول نہیں‘ جلسے ہر صورت ہوں گے۔ سیاسی اشرافیہ اپنی حفاظت تو پوری طرح کر لے گی، عوام کا کیا ہے‘ وہ جانیں اور وائرس جانے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جلسے کرنا اپوزیشن نے اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ کل مانسہرہ میں جلسہ ہوا اور سینکڑوں لوگ پنڈال میں اکٹھے ہوئے‘ یہ جمہوریت نہیں‘ کورونا وائرس کی خدمت کی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مانسہرہ کی لوکل انتظامیہ نے جلسے کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا لیکن پھر بھی نون لیگ کے لئے جلسہ کرنا ضروری تھا۔ حکومت نے کے پی میں اپنا 21 نومبر کا جلسہ ملتوی کر دیا ہے‘ اب اپوزیشن کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلسوں جلوسوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اعلان کیا ہے کہ 30 نومبر کو ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہر حال ہوگا۔ دوسری جانب بختاور بھٹو زرداری کی منگنی کے دعوت نامے‘ جو سوشل میڈیا پر وائرل ہے، پر صاف لکھا ہے کہ تقریب میں آنے والے پہلے اپنا کورونا ٹیسٹ کرائیں گے اور رپورٹ ای میل کریں گے‘ ٹیسٹ منفی آنے کے بعد ہی انہیں تقریب میں شرکت کرنے کی اجازت ہو گی۔ اگر ایسے ہی ایس او پیز جلسوں میں بھی اپنائے جائیں گے تو پنڈال خالی ہی نظر آئیں گے۔ ایک لسانی جماعت نے بھی گزشتہ دنوں جلسہ کیا‘ وہاں بھی ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ وہاں آپ کو ملک اور اداروں کے خلاف زہر آلود تقاریر سننے کو ملیں۔ میں نے جلسے کی فوٹیج کو بار بار دیکھا، لیکن کہیں بھی سبز ہلالی پرچم نظر نہیں آیا۔ ریاست اس سب کی اجازت کیوں دی رہی ہے‘ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے۔ 
ملک بھر میں ہوٹل‘ ریستوران‘ شادی ہالز اور بازار وغیرہ کھلے ہیں، تقریبات جاری ہیں اور کورونا پھیل رہا ہے، تعلیمی اداروں میں بھی سرگرمیاں جاری ہیں جبکہ اس وقت عوام کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کی بھی بہت بڑی تعداد کورونا کا شکار ہو چکی ہے۔ کیپٹن (ر) صفدر، عامر لیاقت حسین اور شرجیل میمن کورونا سے نبردآزما ہیں، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی کورونا کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل جام کمال، سعید غنی، اسد قیصر، نہال ہاشمی، شاہد خاقان عباسی، عمران اسماعیل اور شہریار آفریدی کورونا کا شکار ہوئے تھے۔ پی پی کے رہنما جام مدد علی اور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار سیٹھ کورونا کے سبب انتقال کر گئے۔پہلے تو پاکستانی ماننے کو ہی تیار نہ تھے کہ کورونا نام کی کوئی چیز موجود ہے، اس کو غیر ملکی سازش اور نجانے کیا کچھ قرار دیا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ جب کیسز بڑھنا شروع ہوئے تو سب کو کافی حد تک یقین آ گیا۔ اب جبکہ ملک میں لاک ڈائون بھی نہیں، عوام کورونا وائرس کے حوالے ہیں۔ ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور طبی عملے پر شدید بوجھ ہے‘ پہلے وہ شدید گرمی میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے‘ اور سخت سردی میں بھی کام کر رہے ہیں۔ 
میری ایک سہیلی ڈاکٹر ہے‘ اس کی ڈیوٹی کورونا وارڈ میں رہی۔ جب چھ ماہ بعد‘ گزشتہ ہفتے میری اس سے ملاقات ہوئی تو میں اس کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس کے ہاتھوں پر شدید الرجی ہو چکی ہے اور چہرے پر ماسک کا مستقل نشان پڑ گیا ہے۔ وہ مجھے کہنے لگی کہ میں نے اپنی آنکھوں سے بہت سے زندگیاں ختم ہوتے دیکھیں اور بہت سے لوگوں کو موت کے منہ سے واپس آتے بھی دیکھا، تم سب کو کہو کہ ماسک لازمی پہنیں، پانچ وقت کی نماز پڑھیں اور غیر ضروری تقریبات میں مت جائیں۔ میں نے کہا: یہاں تو سیاست دانوں کو جلسوں سے ہی فرصت نہیں۔ وہ بولی: یہ لوگوں کی تکلیف اور مسائل سے آگاہ نہیں۔ میں اور دیگر ڈاکٹر سخت گرمی میں فل پروٹیکٹو کیئر میں کس طرح کام کرتے رہے‘ یہ ہمیں ہی معلوم ہے۔ کورونا وارڈ میں لواحقین کی اجازت نہیں‘ لوگ تڑپتے تھے کہ ان کو اپنے مریض کی ایک جھلک نظر آ جائے۔ وہ بتا رہی تھی کہ ایک بزرگ خاتون وارڈ میں تھیں‘ وہ روز کہتی تھیں کہ میرے فون سے میرے بچوں کو کال ملا دو، انہیں کال ملانا نہیں آتی تھی۔ وہ انہیں کال ملا دیتی اور وہ بچوں سے بات چیت کر لیتیں۔ بظاہر محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ٹھیک ہو جائیں گی لیکن ایک ہفتے بعد وہ کورونا سے جنگ ہار گئیں، جب ان کو دفنایا گیا تب بھی لواحقین کورونا کی وجہ سے ان کا آخری دیدار نہیں کر سکے، صرف ایک بیٹا ہی ان کی تدفین میں شریک ہو سکا۔ اس درد بھری کہانی پر ہم دونوں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہ کہنے لگی: میرے بچے ضدی ہوگئے ہیں‘ میں ان کو اس سال وقت نہیں دے سکی‘ مجھے ڈر ہوتا ہے کہ مجھ سے جراثیم کسی اور کو نہ لگ جائیں لہٰذا میں اپنے بچوں سے دور ہی رہتی ہوں لیکن یہاں سیاست دانوں کو کچھ احساس ہی نہیں، ان لوگوں کو بھی احساس نہیں جو شادیوں پر سینکڑوں لوگوں کو بلاکر کروڑوں روپے اڑا دیتے ہیں۔ یہی پیسے مریضوں کے علاج اور ہسپتالوں میں چندہ کیوں نہیں کر دیتے؟ میں نے کہا: یہاں تو سیاست دان جن کو عوامی نمائندہ کہا جاتا ہے‘ اقتدار میں آنے کیلئے جلسے کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے کیونکہ یہ صرف نام کے عوامی نمائندے ہیں‘ ان کو عوام سے کوئی غرض نہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ میرے جاننے والوں میں بہت سے لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں اور ایک سینئر صحافی ارشد وحید گزشتہ دنوں اس مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کرگئے‘ اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے، ساری صحافی برادری ان کے انتقال پر غمگین ہوگئی ہے۔ اس کے بعد ایک لمبا سکوت طاری ہو گی اور ہم دونوں چپ کر کے بیٹھ گئے۔ میں نے دل میں دعا مانگی: یااللہ اس بیماری کو آئے ایک سال مکمل ہوگیا ہے‘ ہمیں جلد از جلد اس سے نجات عطا فرما، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں