71ء میں بھی یہی ہوا تھا اور گمان ہوتا ہے کہ آج بھی وہی کچھ دہرایا جا رہا ہے۔ بھارت جھوٹی خبروں کا سب سے بڑا بیوپاری ہے۔ پاکستان کے خلاف جعلی خبریں بنا کر بیچتا بھی ہے اور خریدتا بھی ہے۔ بھارت جھوٹی خبروں کیلئے 71ء میں بھی ایک منظم نیٹ ورک چلا رہا تھا اور آج بھی یہ اسی ڈگر پر چل رہا ہے۔ اس انڈسٹری پر بھارت نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور سالانہ کروڑوں ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں بھارتی برسر اقتدار جماعت بی جے پی کے پروپیگنڈا چینل ری پبلک کو برطانیہ میں بھاری جرمانہ ہوا ہے۔ بھارت نے صرف بھارتیوں پر ہی نہیں‘ پاکستان میں وطن فروشوں اور باہر کے ممالک میں بیٹھے باغیوں پر بھی بھاری فنڈنگ کر رکھی ہے تاکہ وہ مذموم مقاصد حاصل کیے جا سکیں جس کے لیے وہ کئی دہائیوں سے مصروفِ کار ہے۔ اس کی ایک مثال ایک فیک نیٹ ورک ہے جو سوشل میڈیا پر بھارت کیلئے کام کر رہا ہے‘ جہاں سے پاکستان کے خلاف ٹویٹس ہوتے ہیں۔ نام یہ بلوچوں کا لیتے ہیں مگر ایسے زیادہ تر اکائونٹس بھارت سے آپریٹ ہو رہے ہیں اور اس کی آڑ میں محب وطن بلوچوں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کچھ سال قبل اللہ نذر‘ جو ایک دہشت گرد تنظیم کا بانی ہے‘ کی بیوی پاک افغان بارڈر پار کرتے ہوئے پکڑی گئی تھی۔ کچھ دیسی لبرلز نے اس کی رہائی کیلئے طوفان اٹھا دیا تھا حالانکہ اللہ نذر درجنوں بلکہ سینکڑوں افراد کے قتل میں ملوث دہشت گرد ہے۔یہاں دہشت گردوں سے ہمدردی کرکے خود کو لیفٹسٹ اور لبرل ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شاید عالمی ایوارڈز اور فنڈنگ بھی اسی طرح ملتی ہے کہ وطن کے خلاف بات کرو‘ دفاعی اور سکیورٹی اداروں کو برا بھلا کہو‘ اہم قومی شخصیات کے خلاف ٹویٹس کرو پھر ہی فنڈنگ ملے گی۔ اللہ نذر جیسے لوگوں کے خاندان کی عورتیں چمن بارڈر سے غیر قانونی طور پر افغانستان جانا چاہتی تھیں۔ یہ عورتیں مبینہ طور پر نہ صرف کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط میں تھیں بلکہ فنڈنگ کی غیر قانونی ترسیل میں بھی ملوث تھیں مگر ایسا شور مچایا گیا کہ ان عورتوں کو رہا کرتے ہی بنی۔ یہاں دہشت گردوں کو بھی لاپتا افراد کی فہرست میں شامل کرکے ان کیلئے بھی مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ حالانکہ کئی نام نہاد مسنگ پرسنز غیر ملکی ایجنسیوں خصوصاً بھارتی را کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر چکے ہیں۔ یہ بات گوادر کے ہوٹل، چینی انجینئرز، فوجیوں، سکیورٹی فورسز، چینی قونصلیٹ اور سٹاک ایکسچینج پر ہونے والے حملوں میں ثابت ہو چکی ہے۔ یہ حملے کرنے والے تمام افراد را کے ہی پالتو نکلے تھے۔ بھارت دو طرح گیم کھیلتا ہے؛ ایک طرف وہ باغی گروپوں پر سرمایہ کاری کرتا ہے اور دوسری طرف خودساختہ دانشوروں کو بھاری فنڈنگ دیتا ہے۔ بھارتی نیوز چینلز پر ایسے ہی دو چہرے ابھرے؛ ایک کریمہ مہراب اور دوسری نائلہ قادری۔ خود کو بلوچ لوگوں کے حقوق کی رہنما بتانے والی یہ خواتین مودی سے مدد کی اپیل کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی چہرے بھارتی میڈیا نے متعارف کرائے جو کالعدم تنظیموں سے وابستہ تھے۔گزشتہ دنوں کینیڈا میں کریمہ بلوچ پُرسرار حالات میں مردہ پائی گئی، مقامِ عبرت ہے کہ ایک نوجوان خاتون بھٹک کر دشمن کی آلہ کار بن گئی اور اب دنیا سے رخصت ہو چکی ہے۔
قریب دو ہفتے قبل یورپی یونین کے تحقیقاتی ادارے ای یو ڈس انفو لیب نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں ہوشربا انکشافات کیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 15 سال سے بھارت ڈِس انفارمیشن کا سب سے بڑا نیٹ ورک چلا رہا ہے جس میں 750 جعلی میڈیا آئوٹ لیٹس، بہت سی جعلی تنظیمیں‘ حتیٰ کہ ایک مردہ پروفیسر تک کو شامل کر رکھا تھا۔ اس نیٹ ورک سے پاکستان کے خلاف منظم پروپیگنڈا مہم چلائی جاتی تھی اور اس کی آڑ میں اقوام متحدہ اور یورپی یونین سمیت عالمی اداروں اور تنظیموں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اس میں بھارتی نیوز ایجنسی اے این آئی نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور پاکستان مخالف آرٹیکلز شائع کیے اور نام نہاد بلوچ رہنمائوں کے انٹرویوز نشر کئے۔ اے این آئی یہ مواد انہی فیک میڈیا آئوٹ لیٹس سے لے رہی تھی۔انڈیا کرونیکلز کے نام سے ای یو ڈس انفو لیب نے یہ رپورٹ جاری کی کہ 'سری واستو گروپ‘ کے زیر اہتمام چلنے والے اس نیٹ ورک نے کم از کم 116 ممالک میں پاکستان کے حوالے سے جھوٹی خبریں پھیلائیں۔ اسی رپورٹ میں ان لوگوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو کہنے کو تو پاکستانی ہیں لیکن کام بھارت کیلئے کر رہے ہیں۔ کریمہ بلوچ کا بھی اس رپورٹ میں ذکر ہے جس نے بھارتی تہوار راکھی پر مودی کو اپنا بھائی قرار دیا تھا۔ اس کی موت کے حوالے سے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن بھارتی میڈیا کے پالتو افراد نے اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا ہے حالانکہ حالات را کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ اس قتل میں ملوث ہے کیونکہ کریمہ اسی کے لیے کام کر رہی تھی ۔بیرونی ممالک میں رہنا اور وہاں سے کسی ریاست کے خلاف منظم مہم چلانا‘ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے پیسہ چاہیے ہوتا ہے اور یہ پیسہ ظاہر ہے کہ غیر ملکی ایجنسیاں ہی دے سکتی ہیں۔ بہت سے جعلی دانشور‘ جو اس وقت بیرونی ممالک میں بیٹھ کر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں‘ ان کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں کہ ان کو فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے‘ یہ وہی ففتھ جنریشن وار فیئر ہے جس سے اعلیٰ عسکری حکام نے قوم کو بروقت آگاہ کیا تھا تاکہ قوم ان سازشوں کو پہچان سکے۔
دسمبر کے آخری دن چل رہے ہیں‘ اس ماہ میں ہمارا ملک دولخت ہوا تھا، اس لئے سوچا کہ کچھ پرانے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا جائے۔ اس معاملے پر ہمیشہ پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ حقائق کچھ اور ہی تصویر دکھاتے ہیں۔ بنگالی صحافی شرمیلا بوس اپنی کتاب ''ڈیڈ ریکوننگ: میموریز آف 1971ء بنگلہ دیش وار‘‘ میں لکھتی ہیں کہ پاکستان کے فوجیوں کی تعداد مشرقی پاکستان میں 25 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ باقی سویلینز کو جنگی قیدی بنایا گیا تھا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ایسے کوئی ثبوت نہیں مل سکے کہ پاکستانی فوج نے خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا۔ را کے سابق افسر بی رامن اپنی کتاب ''دی کائوبوائز اینڈ را‘‘ میں لکھتے ہیں مکتی باہنی را نے بنائی‘ اس کو اسلحہ‘ معاونت اور تربیت بھی را نے فراہم کی۔ اس کے ساتھ بھارت نے ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے خلاف منفی مہم بھی چلائی تاکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین نفرت بڑھے۔ اشوک رائنا اپنی کتاب ''انسائیڈ را‘‘ میں لکھتے ہیں کہ را نے مکتی باہنی کو تربیت دی اور اس کے ممبران کو بھارت میں جنگی تربیت دے کر مشرقی پاکستان بھجوایا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ لڑنے والوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے اہلکار بھی شامل تھے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں دہشت گردی اور الزام پاکستان پر لگا دیا۔ اس کے ساتھ آر کے یادیو نے اپنی کتاب میں لکھا ''مجیب نگر‘‘ کا قیام کلکتہ میں ہوا تھا۔ مجیب الرحمن کو کس کی شہ میسر تھی‘ یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بی رامن نے خود اپنی کتاب میں لکھا کہ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی پاکستان کو توڑنے کی خواہش مند تھیں۔ ان کی ایما پر مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بنائی گئی اور اس کے ساتھ بھارت کے آرمی افسران نے مل کر پاکستان کے خلاف جنگ لڑی۔ سابق بھارتی آرمی چیف جنرل مانک شاہ کے مطابق‘ بھارت نے 1971ء میں پروپیگنڈا کا بھرپور استعمال کیا، اصل قتل و غارت مکتی باہنی نے کی اور الزام پاکستانی فوج پر لگا یا گیا۔ بھارت نے پاکستانی فوج کی رسد کاٹ دی اور فضائی راستہ بند کر دیا لیکن اس کے باوجود پاک فوج دلیری سے لڑی۔ بنگالی صحافی ڈاکٹر عبدالمومن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ تیس لاکھ بنگالیوں کا قتل محض ایک افسانہ ہے جس کا حقائق سے کوئی لینا دینا نہیں۔یہ وہ حقائق ہیں جو خود غیر ملکیوں نے 71ء کی جنگ کے حوالے سے لکھے۔ وہ سازشیں جو اُس وقت پاکستان کے خلاف ہوئیں‘ اب بھی جاری ہیں اور ڈس انفارمیشن لیب نے بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ اب را بلوچ لبریشن اور دوسری کالعدم تنظیموں کے دہشتگردوں کی فنڈنگ کر رہی ہے لیکن بھارت اور اس کے حواری اب بے نقاب ہو چکے ہیں۔