صبح کے وقت گھر سے نکلو تو ہر سو دھند چھائی ہوتی ہے۔ سردی‘ یخ بستہ ہوائیں اور ہر طرف دھند کا راج۔کبھی کبھی تو حدِ نگاہ صفر ہوجاتی ہے۔ایک بار موٹروے پر میں نے ایسی ہی دھند دیکھی تھی کچھ نظر نہیں آرہا تھا‘ لگ رہا تھا گاڑی بادلوں میں چل رہی ہو۔اس کے بعد سے میں نے سفر ہمیشہ موسم کا حال دیکھنے کے بعد ترتیب دیا۔ایسے موسم میں گھر سے نکلنے سے پہلے کچھ احتیاطی تدابیر کرلی جائیں تو حادثات سے بچاجاسکتا ہے۔کوشش تو یہ کی جائے کہ سفر اس وقت کیا جائے جب دھند کم ہو‘ لو بیم کا استعمال کریں ‘ فوگ لائٹ استعمال کریں‘گاڑی کی رفتار کم رکھیں ‘اپنی لین میں رہیں ‘موبائل فون کا استعمال مت کریں۔ہمیں سڑک پراس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری منزل کیا ہے اور ہم نے منزل مقصود نے تک خیریت سے پہنچنا ہے‘ اس لئے گاڑی کی رفتار کم رکھیں۔ جب زیادہ دھند ہو تو سفر کو تھوڑی دیر کیلئے مؤخر کردینا چاہیے اور جب یہ چھٹ جائے تو اس کے بعد سفر دوبارہ شروع کردینا چاہیے۔اکثر پنجاب کے میدانی علاقوں میں دھند کے ساتھ سموگ بھی چھاجاتی ہے‘ یہ بہت خطر ناک ہوتی ہے۔آلودگی کا یہ دھندلا بادل گلے ‘ناک‘ کانوں اور آنکھوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور پھیپھڑوں کیلئے بھی مضر ہے۔اکثر بھارتی پنجاب کے علاقوں میں فصلوں کی باقیات کو جو آگ لگائی جاتی ہے اس کے بعد یہ مسئلہ زیادہ ہوجاتا ہے۔لوگ اس آلودہ ہوا کی وجہ لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں‘اس لئے کہا جاتا ہے کہ قدرتی ماحول کے قریب رہیں تاکہ صحت مند رہا جاسکے اور درخت لگائیں تاکہ ماحولیاتی آلودگی کم ہو۔
کبھی کبھی یہ دھند دماغوں پر بھی چھا جاتی ہے اور انسان کچھ دیکھ‘ سُن اور سمجھ نہیں پاتا۔اکثر کو یہ لگنے لگتا ہے کہ وہ عقلِ کل ہیں اور دوسرے تو بس عقل سے پیدل ہیں۔راج نیتی کی غلام گردشوں میں بھی یہی ہوتا ہے کہ بادشاہ کو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ غلطی سے مبرا ہے اور جو کررہا ہے ٹھیک ہی کررہا ہے۔ایسے خوشامدی ہر دور میں درباروں میں موجود تھے جو قصیدہ گوئی پر مامور تھے۔انہی خوشامدیوں کی وجہ سے بڑے بڑے بادشاہوں کی حکومتیں زوال پذیر ہوئیں وہ تاریخ کا حصہ بن گئے۔خوشامدی پوری کوشش کرتے ہیں کہ بادشاہ عوام سے دور رہے‘ وہ ملک کے حالات کو صرف ان کی قصیدہ گوئی کی نظر سے دیکھے‘یوں غفلت کی دھند بادشاہ کی آنکھوں کے سامنے بھی چھا جاتی ہے جس میں سب اچھا کی گردان سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ ملک میں دودھ‘ شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں ۔یہ جھوٹ اور فریب کاجال ہوتا ہے جو خوشامدی بادشاہ کے گرد بُن دیتے ہیں۔خوشامدی وزیر‘ مشیر اور مخبربادشاہ کو عوام سے دور رکھتے ہیں اور کہتے ہیں ان سے بادشاہ کی جان کو خطرہ ہے۔بادشاہ کو بھی اپنی جان اور اقتدار پیارا ہوتا ہے اس لئے وہ بھی محل سے باہر جانے سے کترانے لگتا ہے۔وہ عوام جو پہلے اس کو اپنے لگتے تھے‘ وہی جان کے دشمن لگنے لگتے ہیں اس لئے کہ اس کی آنکھ‘ کان صرف خوشامدی مشیر بن کر رہ جاتے ہیں اور یہاں سے زوال شروع ہوجاتا ہے۔دھند محل کو لپیٹ میں لے لیتی ہے اور بادشاہ خود سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔اگر بادشاہ چاہتا ہے کہ اس محل سے دھند ختم ہو تو سب سے پہلے خوشامدیوں کو محل سے نکال دے۔
اسی طرح اگر دھند تہذیب اور ثقافت پر چھا جائے توایک نسل تباہ ہوجاتی ہے۔ہم اپنے اسلاف اور اکابرین کے بجائے اگر مغرب اور ہندوستانی تہذیب کی تقلید میں لگ جائیں گے تو ایک نسل کے عقائد خراب ہوجائیں گے۔ہمیں بانو قدسیہ اور اشفاق احمد جیسے ادیبوں کے کام کو سامنے لانا چاہیے۔ہمیں اسلامی ہیروز محمد بن قاسم ‘ طارق بن زیاد‘ صلاح الدین ایوبی جیسے ہیروزکے کارناموں سے نئی نسل کو آگاہ کرنا چاہیے۔ہمیں اکابرین تحریک پاکستان پر سیریز بنانا چاہئیں‘ لیکن ہم ہندوستانی ڈرامہ انڈسٹری کو کاپی کرنے لگ گئے ہیں اور ہمارے موضوعات ساس بہو کے جھگڑوں کے علاوہ ‘طلاق اور عشق معاشقوں سے باہر نہیں آرہے۔فن اور ثقافت پر چھائی یہ دھند تب ہی ختم ہوسکتی ہے جب ہم اپنی ثقافت کو فروغ دیں گے۔ کرکٹ کے میدانوں پر بھی دھند چھائی ہوئی ہے ۔نئے اچھے کھلاڑی سامنے نہیں آرہے۔ کوئی بھی اہم میچ ہو ہماری باؤلنگ اور بیٹنگ دونوں ڈھیر ہوجاتی ہے اور شائقین کے ارمانوں پر پانی پھرجاتا ہے۔کیا یہ زمین بنجر ہوگئی ہے جو نیا ٹیلنٹ سامنے نہیں آرہا ؟ایسا نہیں ہے‘ بس ایک دھند سی چھائی ہوئی جس کو ختم کرنے کیلئے نئے ٹیلنٹ کو سامنے لانا ہوگا اور جو کھلاڑی اچھی پرفارمنس نہیں دے رہے ان کے کھیل کے علاوہ دیگر سرگرمیوں جیسے ماڈلنگ ‘ٹی وی شوبز میں انٹری پر پابندی لگا دیں۔ جب تک وہ اچھی کارکردگی نہیں دکھائیں انہیں دوسری سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
ایک دھند رشتوں پر بھی چھائی ہوئی ہے‘ ایسا لگتا ہے اب ازدواجی رشتے اپنی مدت کچھ سالوں میں پوری کرجاتے ہیں ‘اب جیون ساتھی رہنے کا چلن ہی ختم ہوگیاہے۔پہلے لوگ عمر بھر زندگی ساتھ گزارتے تھے اور اپنے بچوں کی شادیاں کرکے اپنے نواسے نواسیوں ‘ پوتے پوتیوں کو دیکھ کر دنیا سے رخصت ہوتے تھے اور اب سب کچھ بدل گیا ہے۔رشتوں پر اَنا ‘ غصے ‘ بے صبری اور بے وفائی کی دھند چھائی ہوئی ہے اور رشتے چند سالوں میں ختم ہوجاتے ہیں۔ان رشتوں پر پڑی دھند ہم محبت‘ پیار‘ ایثار‘ قربانی اور صبر سے ہٹاسکتے ہیں۔ایک دھند سوشل میڈیا پر چھائی ہے۔ اس گرد وغبار نے اخلاقیات کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اپنے سوشل میڈیا سیل بنارکھے ہیں۔وہ سارا دن فیک اکاؤنٹس سے لوگوں کو گالیاں دیتے ہیں ‘ ایک دوسرے پر بہتان تراشی کرتے ہیں اور خواتین کی کردارکشی کی جاتی ہے۔ان فیک اکاؤنٹس اور ان ٹیمز نے پاکستانی سوشل میڈیا ٹائم لائنز کو گندا کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ کام صرف چند لوگ کررہے ہیں‘انہوں نے بہت سے فیک اکاؤنٹس بنارکھے ہیں یہاں سے ٹویٹ کرکے خود ہی اپنے جعلی اکاؤنٹس سے ری ٹویٹ اور رپلائی کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ رائے عامہ ہے‘ لیکن ایسا نہیں ہے۔یہ صرف چند لوگ ہیں جوکہ کئی سو جعلی اکاؤنٹس کے مالک ہیں اور یہ ٹرولز ٹیم دن رات قومی شخصیات اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کی کردار کشی کررہی ہیں۔یہاں پر یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ ان کو فنڈنگ کون دے رہا ہے اور ان کو کس کی پشت پناہی حاصل ہے؟اس کی تحقیقات ایف آئی اے کو کرنا چاہیے۔ٹویٹر سے یہ سلسلہ اب یوٹیوب تک بھی پہنچ گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد صحافت کا جھوٹا لبادہ اوڑھ کر تجزیے اور تبصرے شروع کرتے ہیں اور جب ان کو شہرت نہیں ملتی تو اس کیلئے ان سب نے نیا طریقہ نکالا ہے کہ صحافیوں کی کردار کشی کرو‘ اس سے زیادہ ہٹس آئیں گے۔اس طرح کرکے یہ تھوڑے بہت فالورز بھی اکٹھے کرلیتے ہیں اور یوٹیوب چینل بھی چل پڑتا ہے۔مگرکہتے ہیں؎
اے طائر ِلاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
بہتان تراشی کرکے‘ جھوٹ پھیلا کر‘ سنسنی پیدا کرکے کمایا ہوا رزق کیا حلال ہے ؟ کسی شخص کو بدنام کرکے حاصل کئے جانے والے ہٹس ‘کلکس ‘شیئرز شاید دنیا میں آپ کو وقتی فائدہ دے جائیں لیکن قبر اور آخرت میں یہ آپ کیلئے عذاب کا باعث بن جائیں گے۔ہم انسان دنیا سے چلے جائیں گے لیکن الفاظ‘ تصاویر اور ویڈیوز یہیں رہ جائیں گی۔ہم چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔ جو جھوٹ‘ بہتان ‘ ٹرولز دوسروں پر لگاتے ہیں کیا ان کا بوجھ سہہ پائیں گے؟اس دھند کو سوشل میڈیا سے ختم کرنا ہوگا۔ کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے سوچنا ہوگا کہ ایک انگلی دوسرے کی طرف اٹھاتے ہوئے چار انگلیاں آپ کی طرف ہوتی ہیں۔ایک دوسرے کا مؤقف ٹھنڈے دل کے ساتھ سنیں اور گالی گلوچ کے بجائے مثبت مباحثے کے رواج کو جنم دیں۔