نئی نسل عجیب مسائل سے دوچار ہے اور کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں۔ سب اس کو ایک روبوٹ سمجھتے ہیں، چاہتے ہیں کہ نوجوان ان کے اشاروں پر چلیں۔ کیا بچوں کی اپنی کوئی مرضی‘ سمجھ بوجھ اور خواہشات نہیں ہوتیں؟ بالکل ہوتی ہیں، انسان ہوتا ہی خواہشات و جذبات کا مجسمہ ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو لازم نہیں کہ وہ اپنے ماں باپ یا اپنے خاندان جیسا ہو‘ اس کی خواہشات اور عادات الگ بھی ہو سکتی ہیں مگر ہمارے ہاں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو ڈاکٹر بنے گا یا انجینئر۔ یہ زبردستی کی خواہش بچے کی خواہشات کو کچل کر رکھ دیتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کرکٹر بننا چاہتا ہو، اس نے میوزک سیکھنا ہو، اس کا رجحان ادب یا آرٹ کی جانب ہو، اس نے فن پارے بنانا ہوں لیکن والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسی ڈگری لی جائے جس سے بچہ اچھا کما سکے اور معاشرے میں اس کی عزت ہو۔ اس طرح بہت سے طالب علم مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ زندگی میں کچھ اور کرنا چاہتے ہیں لیکن والدین کے احترام میں وہ اُس شعبے میں چلے جاتے ہیں جو انہیں پسند نہیں ہوتا۔ کچھ پڑھ لکھ جاتے ہیں اور ڈگری بھی حاصل کر لیتے ہیں مگر کچھ ناکام ہو کر بیمار پڑ جاتے ہیں، کچھ منشیات استعمال کرنے لگتے ہیں، بسا اوقات تو خودکشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اس وقت والدین کو احساس ہوتا ہے کہ ہم سے کیا غلطی ہوئی۔ کچھ باتیں بچوں کو والدین کی مان لینی چاہئیں اور کچھ والدین کو بچوں کی خواہشات تسلیم کر لینی چاہئیں، اس طرح زندگی بہت آسان اور حسین ہو جائے گی۔ یوں معاشرے میں بھی توازن آ سکتا ہے۔ یہ امر پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ نئی نسل کبھی بھی پرانی نسل جیسی نہیں ہوتی۔
تعلیم اور شادی‘ دونوں ایسے معاملات ہیں جن میں والدین اور معاشرے کو نئی نسل کی بھی سننی چاہیے کیونکہ اس پر ان کی ساری زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ ان معاملات پر سختی ان کی ساری زندگی کو تباہ کر سکتی ہے، انہیں غلط‘ صحیح کی تمیز ضرور دینی چاہیے لیکن ان کے دل کی بات اور ان کے جذبات کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ بچے پڑھتے رہ جاتے ہیں‘ پھر نوکریاں ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو اسی میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں پھر معاشی طور پر مستحکم ہونے کے چکر میں ان کی شادی کی اصل عمر نکل جاتی ہے۔ میرے نزدیک بلوغت کے بعد شادی میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ 18 سے 20 سال تک لڑکیوں‘ لڑکوں کی شادی کر دینی چاہیے۔ اس دوران وہ اپنی تعلیم مکمل کریں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو جانے کے بعد اپنی نسل آگے بڑھائیں۔ شادیوں کے نام پر اسراف کا جو طوفانِ بدتمیزی اس وقت ملک میں عروج پر ہے‘ اس سے کہیں بہتر ہے کہ شادیوں پر لاکھوں خرچ کرنے کے بجائے وہ پیسے اولاد کی تعلیم اور ان کے کاروبار میں لگا دیے جائیں لیکن ان کی شادیاں وقت پر کر دی جائیں تاکہ وہ برائی کی طرف مت راغب ہوں۔ یہ نسل اچھی خوارک‘ اچھی طبی سہولتوں اور اچھے ماحول کی وجہ سے جلدی بالغ ہو رہی ہے، ان کی شادیاں بھی جلد ہونی چاہئیں۔ اس سے قطعاً یہ نہ سمجھا جائے کہ میں کم عمر بچوں کی شادیوں کی حمایت کر رہی ہوں، شادی بالغ اور جوان لڑکے اور لڑکی کی ہی ہونی چاہیے اورجوڑ بھی برابری کا ہونا چاہیے۔ ایک جیسی عمریں‘ ایک جیسی تعلیم اور مذہبی و سماجی رجحان بھی ایک جیسے ہونے چاہئیں۔ باقی ذات برادری وغیرہ جیسی چیزیں ایک طرف رکھ دینی چاہئیں‘ یہ دقیانوسی چیزیں ہیں۔ اگر لڑکا لڑکی خوش ہیں تو ان کو نکاح کے بندھن میں باندھ دینا چاہیے۔ ایسے معاملات میں ضد اور انا اکثر دونوں خاندانوں کو بھاری پڑتی ہے۔ نکاح مسجد میں سادگی سے ہو اور اس کے بعد شام میں سب رشتہ داروں کو ون ڈش کھلا کر شادی کی تقریبات کا اختتام کر دینا چاہیے۔ اسراف اللہ کو پسند نہیں ہے‘ جتنا پیسہ آپ بچا لیں گے‘ وہ آپ کے ہی کام آئے گا۔ نمود و نمائش سے کہیں بہتر کفایت شعاری ہے، یہ پیسے آپ کی اولاد کے کام آئیں گے اور اگر اللہ نے بہت نوازا ہے تو دوسروں کی مدد کریں۔
میں بار بار بچے‘ بچیوں کی جلد شادی پر اس لئے زور دے رہی ہوں کہ ایسا نہ ہونے کے سبب معاشرے میں سانحات جنم لے رہے ہیں، جیسے ابھی ایک بچی کے ساتھ ہوا کہ اسقاطِ حمل کے دوران وہ جان سے چلی گئی، لڑکا اس کو مردہ حالت میں ہسپتال چھوڑ کر بھاگ گیا۔ لڑکی تعلیم کی غرض سے شہر آئی تھی مگر پیار محبت میں گناہ کی راہ پر چل پڑی۔ اگر لڑکا اچھا ہوتا تو وہ اس سے نکاح کرتا لیکن یہاں تو ہر کوئی دوسرے کو استعمال کی چیز سمجھتا ہے، استعمال کیا اور چھوڑ دیا۔ اب تو تواتر سے ایسی خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ ہر انسان پیار کے قابل اور عزت و احترام کا مستحق ہے۔ لڑکیوں کو ایسے افراد سے دور رہنا چاہیے جوانہیں پوشیدہ تعلق رکھنے پر مجبور کریں۔ یہاں میری والدین سے گزارش ہے کہ قبل اس کے کہ کوئی آپ کے بچوں کے جذبات سے کھیلے‘ آپ انہیں نکاح کے پاکیزہ بندھن میں باندھ دیں۔ نوجوان اس عمر میں غلط صحبت یا بے راہ روی کا شکار ہو سکتے ہیں‘ ان کا خوب خیال رکھیں۔
اگر ہم بات کریں بچوں کے تعلیمی مسائل کی تو اس پر بھی بچے شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے وہ سارا سال گھر پر رہے‘ ان کا نصاب مکمل کور نہیں ہو سکا، آن لائن کلاسز میں بھی ان کو بہت سے مسائل کا سامنا رہا، بہت سے تو انٹرنیٹ کی عدم فراہمی کے باعث کلاسز میں شرکت سے بھی محروم رہے؛ تاہم جب تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ ہوا‘ تب بھی کورونا عروج پر تھا اور اب بھی ہے؛ اسی لیے طالبعلم احتجاج کر رہے ہیں کہ اگر پڑھایا آن لائن گیا ہے تو امتحانات بھی آن لائن ہوں۔ گزشتہ روز بھی مارگلہ روڈ پر ٹریفک بلاک تھی‘ پتا چلا کہ طالبعلم مطالبہ کر رہے ہیں۔ طالب علموں کے مطالبات سننے چاہئیں اور جس قدر قابلِ عمل ہوں‘ انہیں تسلیم بھی کیا جانا چاہیے؛ تاہم ان پر تشدد اور مار پیٹ ناقابلِ قبول ہے، یہ ہمارا مستقبل اور قوم کے معمار ہیں‘ ان کو سمجھا جائے‘ ان کی بات سنی جائے اور اگر ممکن ہو تو امتحانات آن لائن لئے جائیں۔ بچے اس عمرمیں جذباتی ہوتے ہیں، ان کو مار کر، ڈرا دھمکا کر یا ایکسپیل کر کے معاملے کو حل نہ کیا جائے، اُن کے ساتھ افہام و تفہیم سے معاملات حل کئے جائیں۔ دوسری جانب اساتذہ کے اپنے خدشات ہیں کہ بچے آئن لائن امتحان میں نقل کریں گے، اگر دورانِ امتحان لائٹ چلی گئی یا انٹرنیٹ کا ایشو ہو گیا تو کیا ہو گا، جیسے بہت سے طالب علم انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے آن لائن کلاسز میں شریک نہیں ہو سکے، وہ امتحان کس طرح دیں گے، یہ بھی قابلِ غور ایشوز ہیں، ان پر بیٹھ کر بات چیت کی جانی چاہیے۔ طالب علموں کو بھی اساتذہ کا احترام کرنا چاہیے، انہیں اپنے مطالبات تحمل کے ساتھ انتظامیہ کے سامنے رکھنے چاہئیں۔
نوجوان اس ملک کا اثاثہ ہیں، ان کی زندگی سے جڑے معاملات کو والدین‘ اساتذہ اور معاشرے کو بہت سنجیدگی سے حل کرنا چاہیے، ان کو باغی نہیں‘ معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنانا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ان کو درست مذہبی تعلیمات سے بھی روشناس کرایا جائے، نرمی سے ان کو نماز اور قرآن کی طرف لائیں تاکہ وہ اپنی زندگی کو درست راہ پر گامزن کر سکیں اور آخرت میں بھی سرخرو ہو سکیں۔