جنگ ابھی جاری ہے ؟

بہت دھوم رہی کہ سینیٹ الیکشن ہونے والے ہیں‘ ہر سو بس یہی خبریں تھیں۔ ٹی وی ‘اخبارات‘ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا پر اس کے بہت چرچے رہے۔تمام نظریں اس سینیٹ الیکشن پر مرکوز تھیں کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا۔یہ الیکشن پی ڈی ایم بمقابلہ حکومت تھے‘ جس کے لیے سیاسی جوڑ توڑ عروج پر رہا۔یہ بھی سنتے رہے کہ ایوانِ بالا کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ عروج پر ہوتی ہے اورخوب پیسے کا بیوپار ہوتا ہے‘تاہم اس بار دیکھ بھی لیا۔
سینیٹ الیکشن سے قبل ویڈیوز سامنے آتی رہیں اور عوام انگشت بدنداں رہ گئے کہ ہم غربت‘ مہنگائی اور کورونا سے مر رہے ہیں مگریہاں اشرافیہ کے پاس اتنے نوٹ ہیں کہ کروڑوں روپے سینیٹ میں خرید وفروخت کے لیے بانٹ رہے ہیں۔2018ء کی اس ویڈیو میں ارکان کو سینیٹ کی نشستوں کے لیے خریدا جارہا تھا اور وہ رقوم کو گن رہے تھے۔وزیراعظم عمران خان نے ان ارکان کو پہلے ہی نکال دیا اور وہ بار بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ سینیٹ میں لین دین ہوتا ہے۔عوام ایک گھر بنانے کے لیے پلاٹ خریدنے کے لیے ساری زندگی پیسے جمع کرتے رہ جاتے ہیں لیکن پیسے پورے نہیں ہو پاتے جو آخر میں پلاٹ ملتا ہے وہ قبر کا پلاٹ ہوتا ہے جس میں عوام اپنے ارمانوں کے ساتھ ابدی نیند سوجاتے ہیں۔اس ہی طرح عوام حج کے لیے پیسے جمع کرتے رہ جاتے ہیں لیکن ان کے پاس اتنے پیسے نہیں جمع ہوپاتے کہ وہ اللہ کے گھر کی زیارت کرسکیں۔بیماریوں میں سسک سسک کر مرجاتے ہیں لیکن اتنے پیسے اکٹھے نہیں ہوپاتے کہ علاج ہی کرواسکیں۔مگریہاں اشرافیہ کے پاس اتنا کالا دھن ہے کہ بیگ بھر بھر کر پیسے بانٹ رہے ہیں اور سیٹیں خرید رہے ہیں۔
سینیٹ سے ایک دن پہلے ایک اور تہلکہ خیز ویڈیو سامنے آئی جس میں سینیٹ کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی ایک رکن کو ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ بتا رہے تھے۔سب یہ ویڈیو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کیسے خود کو جمہوریت کا پاسبان کہنے والے ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ بتارہے تھے۔عوام میں یہ ویڈیو دیکھ بہت غم و غصہ پایا گیا‘ لوگ سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کرتے رہے تاہم علی حیدر گیلانی نے اپنے موقف میں کہا کہ وہ ایک سینیٹ امیدوار کے بیٹے ہیں اور ووٹ مانگنا ان کا حق ہے اور مزید کہا کہ ہم نے کبھی ووٹوں کی خرید وفروخت میں حصہ نہیں لیا‘ ہم نے صرف ووٹ مانگا ہے۔پھر ایک اور مبینہ آڈیو ٹیپ سامنے آگئی جس میں علی حیدرگیلانی اور وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شیرازی کی گفتگو تھی کہ بھائیوں کے کام ہوجائیں گے وہ چار پانچ ارکان اوپر کروادیں گے‘ تاہم ناصر حسین شیرازی نے اس آواز کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کی آواز نہیں ہے۔
پاکستان کے غریب عوام اور متوسط طبقہ یہ سارا تماشا دیکھتا رہا اور یہ توقع کرتا رہا کہ الیکشن کمیشن کچھ انصاف کرے گا مگر الیکشن کمیشن نے وقت کی کمی کااظہار کرکے ہاتھ کھڑے کر دیے ۔ایک منڈی لگی رہی اور دولت کی تقسیم ہوتی رہی اس دوران عوام مہنگائی سے بھی مرتے رہے‘ کورونا سے بھی مرتے رہے‘ حادثات میں بھی جانیں ضائع ہوتی رہیں لیکن کسی کو پروا ہی نہیں ہوئی۔سب سے بڑے ایوان میں منڈی لگی رہی اور خوب کاروبار ہوا یہاں تک کہ سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان آپس میں لڑ پڑے۔ایک دوسرے کو مارا‘ پیٹا گالی گلوچ ہوئی۔ اس منظر کو دیکھتے ہوئے دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہوگی؟
وزیر اعظم عمران خان نے بہت کوشش کی کہ ایوان بالا کو پیسوں کے بیوپار سے پاک کرسکیں لیکن وہ اس طاقتور مافیا کا مقابلہ نہیں کرسکتے جن کو ہم جمہوری خاندان کہتے ہیں۔ان خاندانوں کے افراد میں بس باریاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں ۔کسی نئے چہرے کو آگے آنے کا موقع نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ سیاسی جماعتوں میں اتنی آمریت ہے کہ اپنے قریبی رشتوں اور تعلق داروں کے علاوہ یہ کسی کو عہدے اور ٹکٹ نہیں دیتے۔ بزرگ سیاست دان اور کارکنان منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ کرسیاں صرف بڑے خاندانوں ہی میں رہتی ہیں۔ اگر باہر سے کوئی آتا ہے تو وہ صرف ارب پتی شخص ہوسکتا ہے ‘ کوئی دوسرا اس جمہوریت کا حصہ نہیں بن سکتا۔کیا جمہوریت پاکستان میں صرف چند خاندانوں کا نام ہے؟
الیکشن ہوئے‘ ووٹنگ خفیہ رائے شماری سے تھی‘ گیلانی صاحب میدان مار گئے اور حفیظ شیخ ہار گئے ۔حکومت نے بہت کوشش کی کہ اوپن بیلٹ سے الیکشن ہوں لیکن بعض قانونی تقاضوں کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا ‘تاہم وزیر اعظم اس شکست سے گھبرائے نہیں انہوں نے قوم سے خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ جمہوری اقدار کو برباد کرنے میں اپوزیشن نے خطرناک کھیل کھیلا اور جمہوری روایات کو پامال کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کروانے سے متعلق بل پیش کیا، جب ساتھ نہیں ملا تو ہم یہ کیس سپریم کورٹ لے گئے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے ہونے چاہئیں۔
دوسری طرف اپوزیشن اپنی جیت پر بہت خوش ہے اور حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہی ہے۔پی ڈی ایم چاہتی بھی یہی ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے ۔اس سے پہلے وزیراعظم اپنے کارڈز کھیل گئے‘تاہم یہاں پر یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کون سے ارکان سینیٹ الیکشن میں بک گے اور انہوں نے ہارس ٹریڈنگ کی کیونکہ یہ بات حیران کن ہے کہ حفیظ شیخ منتخب نہیں ہوئے حکومت کی دوسری امیدوار فوزیہ ارشد منتخب ہوگئیں یعنی کچھ تو ہوا ہے۔اسی لئے میں کہتی ہوں کہ نظریاتی کارکنان کو سامنے لانا چاہیے اور امپورٹڈ مشیران کو رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔پارٹیاں اس بات کو بہت دیر بعد سمجھتی ہیں۔سینیٹ میں کون سے امیدوار بکے‘ اس کا جواب کون دے گا؟ الیکشن کمیشن ‘خود ارکان یا ان کو خریدنے والے؟ اب تو ویڈیو ثبوتوں کا زمانہ ہے جنہوں نے پیسے دیے ہیں انہوں نے ضرور کوئی ثبوت بھی رکھے ہوں گے۔
وزیراعظم عمران خان پرامید تھے کہ اعتماد کا ووٹ لے جائیں گے اور انہوں نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا۔ہفتے کے روز وزیراعظم نے ایوان سے 178 ووٹ حاصل کیے جبکہ وزیراعظم منتخب ہونے پر انہیں 176 ووٹ ملے تھے‘ یعنی انہوں نے پہلے کے مقابلے میں دو اضافی ووٹ حاصل کر لیے۔لیکن وہ ان لوگوں کے بارے میں جان کر رہیں گے جنہوں نے ہارس ٹریڈنگ کی۔شفاف الیکشن کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ہے مگر کمزور جمہوریت نے ہمارے اداروں کو زنگ آلود کردیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی سوال کیا تھا کہ الیکشن کمیشن 1500 بیلٹ پیپرز کی کوڈنگ نہیں کرسکتا تھا ؟بقول ان کے الیکشن کمیشن نے خود ہارس ٹریڈنگ کو موقع دیا۔سیکرٹ بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ والے ارکان صاف بچ نکلے۔
عمران خان اپنے خطاب میں پراعتماد تھے ۔انہوں نے پہلے 2018 ء میں 20 ارکان کو پارٹی سے نکالا تھا تو اب بھی فیصلہ لینے میں دیر نہیں کریں گے۔ جن کا ووٹ تو غلطی سے ضائع ہوا وہ الگ بات ہے لیکن جنہوں نے ضمیر کا سودا کیا وہ انہیں اپنی پارٹی میں جگہ نہیں دیں گے‘ اس بار کرپٹ عناصر کو این آر او نہیں ملے گا۔ہفتے کے روز وزیر اعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تو اس موقع پر پی ٹی آئی کے ارکان کی بھی بڑی تعداد ڈی چوک میں موجود رہی اور وزیراعظم عمران خان کے حق میں نعرے بازی کرتی رہی۔ وزیراعظم کے اتحادی بھی ان کے ساتھ کھڑے رہے۔اب گزارش ہے کہ وزیر اعظم نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا ہے تو اب حکومت کو پوری یکسوئی سے عوامی مسائل کے حل کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ بہت ہوگئی سیاست‘ عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ‘اب بس ترقیاتی کاموں کی طرف توجہ دینا ہو گی۔عوامی مسائل کا حل حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں