وزیراعظم عمران خان نے جب قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا تو اس روز اپوزیشن جماعتوں نے اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ تحریک انصاف کے کارکنان نے فیصلہ کیا کہ وہ ڈی چوک جا کر اپنی پارٹی اور حکومت کو سپورٹ کریں گے۔ تحریک انصاف کے کارکنان کی بڑی تعداد نے اس ریلی میں شرکت کی‘ ڈی چوک میں پارٹی نغمے چل رہے تھے اور کارکنان کا جوش وجذبہ دیدنی تھا۔ اس ریلی میں ہر طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک تھے جن میں بچے‘ بڑے‘ بوڑھے‘ خواتین‘ سب شامل تھے، یہاں تک کہ وہیل چیئر پر خصوصی افراد کی بڑی تعداد بھی وزیراعظم عمران خان کو سپورٹ کرنے ڈی چوک میں موجود تھی۔ اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے وہاں میڈیا ٹاک شروع کردی جو میرے نزدیک ایک غلط فیصلہ تھا کیونکہ جس وقت مخالف سیاسی جماعت کے کارکنان بڑی تعداد میں کسی جگہ پر موجود ہوں تو وہاں پر اُسی پارٹی کے خلاف میڈیا ٹاک نہیں کرنی چاہئے، اس سے بدمزگی کا امکان پیدا ہو سکتا ہے اور یہی ہوا۔ ہمارے ہاں جمہوریت شاید ابھی اتنی بالغ ہے نہ ہی اتنی وسیع القلب کہ ایک دوسرے کو عزت اور جگہ دے سکے۔
ایوانِ پارلیمنٹ کے باہر مسلم لیگ نواز کی لیڈر مریم اورنگزیب کے ساتھ جو بدتمیزی کی گئی‘ وہ یقینا قابلِ مذمت ہے، وہ اس ملک کی بیٹی اور اس کی عزت ہیں۔ سیاسی اختلافات ایک طرف‘ مگر سب پر دوسروں کی عزت و احترام فرض ہے۔ مصدق ملک اس موقع پر سامنے آئے اور مریم اورنگزیب کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے افراد کو وہاں سے دور ہٹایا۔ اس موقع پر شاہد خاقان عباسی اور مصدق ملک تحریک انصاف کے کارکنوں کے ساتھ گتھم گتھا بھی ہوئے۔ خواتین کے وقار اور احترام کیلئے ایسا ہی کیا جاتا ہے‘ کوئی بھی کیوں ان کی طرف بڑھے یا ان پر میلی نظر ڈالے۔ اسی دوران ہجوم میں سے ایک شخص نے احسن اقبال کی طرف جوتا اچھال دیا۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیا یہ ہے ہمارے ملک کی جمہوریت ہے؟ ہمارے ملک کے جمہوری اقدار یہ کہتی ہیں کہ ایک بزرگ سیاستدان‘ جس کو اس سے قبل گولی بھی ماری جا چکی ہے‘ کو سر پر جوتا ماریں؟ جو سب کچھ پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ہوا‘ بہت افسوسناک تھا۔ یہ ہماری جمہوریت اور جمہوری روایات کو عیاں کر گیا۔ خواتین‘ جس بھی پارٹی کی ہوں‘ ان کی عزت کریں، سیاستدانوں کا جو بھی موقف ہو‘ آپ کو کسی نے یہ حق نہیں دیا کہ آپ ان کی طرف جوتے اچھالیں یا انہیں کوئی چوٹ یا تکلیف پہنچائیں۔ کیا آپ بروزِ قیامت اس کا حساب دیں سکیں گے؟ ابھی تو شاید آپ ماسک سے منہ ڈھانپنے کے باعث قانون کی گرفت سے بچ جائیں لیکن اللہ کی عدالت میں کوئی چھپ اور بچ نہیں پائے گا۔ دوسری جانب ایک لیگی رہنما نے جو طرزِ گفتگو اپنایا‘ اللہ کی پناہ۔ ان کو کوئی یہ بتائے کہ ماں بہن کے رشتے قابلِ احترام رشتے ہیں۔ اس سب کے بعد بھی بات ختم نہیں ہوئی بلکہ لفظی جنگ شروع ہو گئی اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کے ٹرینڈز بن گئے۔
معلوم نہیں کہ ہمارے ہاں معاف اور درگزر کرنے کا کلچر کب فروغ پائے گا۔ جو کچھ بھی پارلیمان کے باہر ہوا‘ وہ بہت غلط تھا لیکن اس کے بعد جو سوشل میڈیا پر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی بی ٹیمز نے ایک دوسرے کے خلاف ٹرینڈ بنا کر کیا، وہ اس سے بھی زیادہ غلط تھا۔ ایک دوسرے کے خلاف جس قسم کے ٹرینڈز چلائے گئے‘ وہ میں یہاں بیان بھی نہیں کر سکتی۔ آخر کون اس کلچر کا خاتمہ کرے گا؟ کون اس نفرت کی آگ پر پانی ڈالے گا؟ جب سیاستدان ہی نرم مزاجی سے کوسوں دور ہوں تو بہتری کیسے آئے گی؟ اس حوالے سے مریم نوازصاحبہ کا بیان سن کر بہت حیرت ہوئی اور افسوس بھی‘ جس میں انہوں نے کہا کہ تم دو تھپڑ مارو گے تو ہم دس تھپڑ ماریں گے۔ اگرچہ جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے مگر اپنے کارکنان کو مزید اشتعال نہیں دلانا چاہئے۔ ایسے موقعوں پر لیڈران کو سیرت النبیﷺ سے رہنمائی لینی چاہیے کہ ہمارے پیارے نبی کریمﷺ نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف فرمایا اور ہمیشہ صبر اور رواداری کا درس دیا۔ ہماری سیاست اخلاقی اور دینی تعلیمات سے کوسوں دور کھڑی نظر آتی ہے، عوام کو دکھانے کیلئے تو خوب اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے مگر عملی زندگی میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر اخلاقی اور دینی تعلیمات پر ہی عمل کر لیا جائے تو یہاں واقعتاً ریاست مدینہ بن جائے گی۔
ایک طرف مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے غلط وقت پر غلط جگہ پر میڈیا ٹاک کا انتخاب کیا تو دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکنان‘ جن کی اپنی ریلیوں میں بزرگوں اور خواتین کی اتنی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے‘ کیسے دوسری جماعتوں پر حملہ آور ہو سکتے ہیں؟ جمہوریت کے تحت ہر شخص اپنی رائے میں آزاد ہے، کسی پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرنی چاہیے۔ ویسے بھی کسی پر جوتا پھینک کر یا دوپٹے کھینچ کر آپ کسی کے نظریات تبدیل نہیں کر سکتے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں‘ جب پرویز مشرف کی آمریت کا سورج نصف النہار پر تھا‘ اس وقت ہم ہر روز دعا کیا کرتے تھے کہ یا اللہ! اس آمریت سے ہماری جان چھوٹ جائے، کب ہمارے ہاں بھی جمہوریت آئے گی۔ ہمارا خیال تھا کہ جمہوریت آئے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن جب آمریت کا سورج کا غروب ہوا اور جمہوریت کی صبح نمودار ہوئی تو اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر ہم حیران رہ گئے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی، کردار کشی، کرپشن، ترقیاتی پروجیکٹس میں کک بیکس، پاناما لیکس، دبئی لیکس، سینیٹ الیکشنز میں ہارس ٹریڈنگ، موروثی سیاست، پیسوں کا لین دین وغیرہ وغیرہ... کیا کچھ ہے جو ہم نے اس جمہوریت میں نہیں دیکھا؟ اگر کسی کی کرپشن پر سوال اٹھائو تو ساتھ ہی جمہوریت خطرے میں آ جاتی ہے، ملک توڑنے کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہاں پر جمہوریت نہیں‘ کرپشن اور سیاست بچائو مہم چل رہی ہے کہ عوام آئیں! ہماری پارٹی کا حصہ بنیں، ہماری کرپشن کا دفاع کریں، ہماری کرسی کی حفاظت کریں، بدلے میں انہیں کچھ نہیں ملے گا سوائے جھوٹے وعدوں اور سبزباغ کے۔ اگر یہی جمہوریت ہے تو ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
سیاستدان ایک دوسرے سے اسمبلی میں لڑ رہے ہیں، پریس کانفرنس میں الزامات عائد کر رہے ہیں، ایوانوں سے باہر لڑ رہے ہیں، سوشل میڈیا پر لڑ رہے ہیں، کارکنوں کو اُکسا رہے ہیں کہ حملے کیے جائیں، دو تھپڑوں کا جواب دس سے دیا جائے، ایسے میں اخلاقیات، برداشت، رواداری اور صبر دور کھڑے تاسف کا اظہار کر رہے ہیں۔ پہلے چند ایک ہی ایسی جماعتیں تھیں جو تشدد اور خوف کے فلسفے پر چلتی تھیں لیکن اب تو سبھی اس ڈگر پر چل نکلے ہیں۔ یہ سلسلہ نہایت افسوسناک ہے۔ اس سارے منظر نامے میں شاید جماعت اسلامی ہی سب سے الگ تھلگ نظر آتی ہے۔ باقیوں کو جماعت اسلامی سے سیاسی رواداری سیکھنی چاہے۔ ان کے لئے مذہبی تعلیمات اور اخلاقیات پہلے ہیں‘ کرسی بعد میں۔ ان کی سوشل میڈیا ٹیم پہلے مذہب کا پھر اخلاقیات کا پرچار کرتی ہے اور بعد میں سیاست پر بات کرتی ہے۔
ہنگامہ آرائی، اشتعال انگیزی، نفرت، دشمنی اور دشنام طرازی کا کلچر کبھی بھی کسی جماعت اور اس کے مستقبل کے لیے سودمند ثابت نہیں ہوا۔ ہم پہلے ہی بہت سے سیاستدانوں کو دہشت گردی اور انتہاپسندی میں کھو چکے ہیں، کیا اب یہ سیاست دان اختلافِ رائے پر بھی ایک دوسرے کو گالیاں دیں گے، جوتے ماریں گے اور چادریں کھینچیں گے؟ وہ بھی ایسے وقت میں جب ہم عالمی وبا کی تیسری لہر سے گزر رہے ہیں جو آئے دن شدید ہوتی جا رہی ہے اور جب زندگی کا ایک پل کا بھی بھروسہ نہیں۔ کبھی سوچا ہے کہ مر کر ہم اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟