نکسل باڑی کے مائو باغی

بھارت جہاں ایک طرف اپنے پڑوسی ممالک میں بدامنی پیدا کرنے کی کوششوں میں مشغول رہتا اور ریاستی دہشت گردی میں ملوث پایا جاتا ہے‘ وہیں وہ شدید جنگی جنون میں بھی مبتلا نظر آتا ہے۔ بھارت کی شدت پسند تنظیم آر ایس ایس کی تربیت یافتہ حکومت اکھنڈ بھارت کا خواب لیے کبھی اپنے ہمسایہ ممالک پر جارحیت کی کوشش کرتی ہے تو کبھی دہشت گردوں کو مالی معاونت دے کر پڑوسی ممالک میں عسکریت پسندی اور بغاوت کو سپورٹ کرتی ہے۔ دنیا مگر مکافاتِ عمل ہے، یہاں جو بویا جائے‘ وہی کاٹنا پڑتا ہے۔ اس وقت بھارت کے اپنے ساتھ جو ہورہا ہے‘ وہ بہت خوفناک صورتحال کا عکاس ہے۔ بھارت میں اس وقت سینکڑوں چھوٹی اور درجنوں بڑی بغاوت اور علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ماضی قریب میں سٹوڈنٹس کا احتجاج ہوا تو مودی سرکار نے لرزنا شروع کر دیا تھا، اس کے بعد کسان آ گئے اور یہ سراسر مودی سرکار کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ کسانوں نے دہلی کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ بھارت کی جانب سے اس احتجاج کی معاونت کا الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے حالانکہ یہ محض ایک انتظامی معاملہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں اونچی ذات کے ہندو برہمن زیادہ طاقتور اور برسر اقتدار ہیں۔ وہ اقلیتوں اور نچلی ذاتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک رکھتے ہیں‘ وہ بیان سے باہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں کاسٹ سسٹم سے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی ہے مگر آج بھی بھارت میں برہمن کے برتن میں شودر پانی نہیں پی سکتا، پانی تو دور وہ ان کے مندروں میں داخل بھی نہیں ہو سکتا، باقی حالات آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ اب بھارت میں بسنے والی قومیں اس ذات پات‘ نفرت اور نسل کشی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں مگر آر ایس ایس‘ یہ وہ ہی دہشت گرد تنظیم ہے جس نے گاندھی کو بھی قتل کرایا تھا‘ کا مقصد سب کو محکوم بنا کر رکھنا اور اقلیتوں کی نسل کشی ہے؛ تاہم اب اقلیتیں اس ظلم کو برداشت کرنے سے انکاری ہو کر بغاوت کا عَلم بلند کر رہی ہیں۔
بھارت جو خود کو سیکولر سٹیٹ کہلواتا ہے‘ حقیقت میں ایک برہمن سٹیٹ ہے جہاں پر اونچی ذات کے ہندو اپنے علاوہ کسی کو انسان ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسلمان، عیسائی، سکھ اور دلت سمیت تمام اقلیتیں ان کے حملوں کی زد میں رہتی ہیں۔ خاص طور پر بی جے پی، شیو سینا، بجرنگ دَل، وشوا ہندو پریشد اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سب سے زیادہ اقلیت دشمن اور پُرتشدد جماعتیں ہیں۔ ان تنظیموں کے مطابق‘ بھارت میں رہنے والے تمام لوگوں کا مذہب ہندو دھرم ہی ہونا چاہیے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ اس طبقاتی تفریق نے اونچی ذات کے ہندوئوں اور سرکار کیلئے غریب عوام کے دل میں کافی نفرت پیدا کر دی ہے۔ اس وقت بھارت بھر میں سترہ باغی تحریکیں پوری شدت سے متحرک ہیں جن میں مائو، ببرخالصہ، کوکی نیشنل آرمی، تری پورا ٹائیگر فورس، کربی لونگری لبریشن فرنٹ، ناگا لینڈ آزادی تحریک، منی پور اور تامل ناڈو آرمی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ سب سے بڑی آزادی کی تحریک نہتے کشمیری مقبوضہ جموں و کشمیر میں چلا رہے ہیں۔ وہ بھارت سے آزادی کے طلبگار ہیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی ان سے آزادانہ حقِ رائے دہی کا وعدہ کیا گیا ہے لیکن بھارت نے اپنی فوج کے ذریعے علاقے پر تو قبضہ کر رکھا ہے مگر وہ مظلوم کشمیریوں کو جھکانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
مائو نواز باغی‘ جن کو نکسل باغی بھی کہا جاتا ہے‘ نے اس وقت بھارت کو نکیل ڈال رکھی ہے۔ مائو باغی خود کو انقلاب پسند کہتے ہیں اور بھارت میں کمیونزم کی حامی ہیں۔ یہ تحریک 1967ء میں نکسل باڑی گائوں سے شروع ہوئی تھی جو مغربی بنگال میں واقع ہے۔ یہ بہت پسماندہ اور غریب گائوں تھا‘ جہاں پانی‘ بجلی اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہ تھیں۔ بہت جلد غریب لوگوں نے بھارت سرکار کی ناانصافی کے غصے میں اس تحریک میں شمولیت اختیار کر لی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک مسلح تحریک بن گئی جو عرصہ دراز سے بھارتی ریاست کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ جہاں جہاں اس تحریک کا زور ہے‘ وہاں بیشتر اضلاع پر ریاستی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے زیر کنٹرول درجنوں اضلاع اور سینکڑوں دیہاتوں میں بھارتی فورسز اور پولیس کو داخل ہونے کی بھی جرأت نہیں ہوتی۔ یہ باغی زیادہ تر گھنے جنگلات سے مسلح جدوجہد کو لیڈ کرتے ہیں۔ نکسل باڑی بہار، تلنگا، جھاڑکھنڈ، لال گڑھ، مغربی بنگال، اندرا پردیش، اوڈیشا (اڑیسہ) اور چھتیس گڑھ میں بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور دہلی سرکار سے کبھی مذاکرات نہیں کریں گے۔ یہ تحریک گزشتہ چند سالوں میں مودی سرکار اور بھارتی افواج کو کافی نقصان پہنچا چکی ہے، یہاں تک کہ بھارتی سکیورٹی فورسز کا قتل عام بھی کیا گیا لیکن بھارتی حکومت متعدد آپریشنز کرنے کے باوجود ان کی بغاوت کچلنے میں یا انہیں ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
2013ء میں مائو باغیوں نے چھتیس گڑھ میں دو شدید حملے کیے، ایک حملہ کانگریس کے رہنمائوں پر کیا گیا جس میں کئی مقامی لیڈر قتل ہوئے جبکہ دوسرا حملہ بھارتی فوج پر کیا گیا، اس میں 22 فوجی ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ یہ حملے اتنے شدید تھے کہ اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ نے مائو باغیوں کو بھارت کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا اور تسلیم کیا کہ حکومت اس معاملے میں ناکام ہوئی ہے۔ ان حملوں سے بھارت سرکار ہل کر رہ گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھی باغیوں کی جانب سے پیرا ملٹری فورسز اور بھارتی ملٹری پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔ بھارت سرکار جب مسلح بغاوت پر قابو پانے میں ناکام رہی تو اس نے باغیوں کو مذاکرات کی پیشکش کی کہ ہتھیار ڈال دیں، انہیں معاف کر دیا جائے گا؛ تاہم نکسل باغیوں نے ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کر دیا۔ نکسل باغی دراصل گوریلا کارروائیاں کرتے ہیں، یہ ریکی کرکے، گھات لگا کر کارروائی کرتے ہیں اور پھر جنگلوں میں غائب ہو جاتے ہیں۔ حالیہ چند سالوں میں مائو باغیوں نے مودی سرکار کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ اس کے علاوہ بھی کئی بڑی علیحدگی پسند تحریکیں بھارت میں سرگرم عمل ہیں مگر یہ تحریک بھارت کے لیے مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے کیونکہ اس تحریک کا دائرۂ اثر پھیلتا جا رہا ہے اور یہ بھارت کی دس ریاستوں کے 180 اضلاع میں اپنا وجود منوا چکی ہے۔ 2010ء کے بعد سے اس کے حملوں میں کافی تیزی آئی ہے۔ اس وقت مائو باغی ایک بار پھر عالمی میڈیا کی سرخیوں میں ہیں کیونکہ 5 اپریل کو ان کی طرف سے بھارتی فوج پر ایک بڑا حملہ کیا گیا۔ یہ حملہ بیجاپور‘ چھتیس گڑھ کے جنگلات میں کیا گیا۔ اس حملے کو بھارتی فوج کی انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے کہ فورسز کو وہاں بھیج کر مروایا گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ مائو باغیوں نے خود ہی جنگل میں اپنی موجودگی کی اطلاع بھارتی فوج تک پہنچائی جس پر فوج نے آپریشن شروع کر دیا مگر وہ بے خبر تھی کہ وہ باغیوں کے پھندے میں پھنس رہی ہے۔ 600 کے قریب باغیوں نے بھارتی فوج کو چاروں طرف سے گھیر کر پوری شدت سے حملہ کر دیا۔ 22 فوجی ہلاک اور دو درجن کے قریب اس حملے میں زخمی ہوئے۔ دہلی سرکار اس آپریشن کو انٹیلی جنس کی ناکامی تسلیم کرنے کے بجائے یہ عذر تراش رہی ہے کہ جوابی کارروائی میں باغی بھی مارے گئے ہیں۔ اس بار دہلی سرکار اس حملے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار نہیں دے سکتی، اسی لیے سب انگلیاں اس کی طرف اٹھ رہی ہیں کہ مسلح بغاوت اتنی طاقتور ہو گئی ہے اور مودی سرکار کو راج نیتی سے ہی فرصت نہیں ہے۔ دوسرے ممالک میں دہشت گردی برآمد کرنے والا بھارت اب اپنے کرموں کا نتیجہ بھگت رہا ہے۔ تمام تر فوجی قوت کے باوجود دہلی سرکار اتنی دہائیوں میں بھی مائو باغیوں کو قابو نہیں کر سکی ہے بلکہ وہ پہلے سے کہیں زیادہ منظم ہوکر بھارت کی داخلی سلامتی پر سوالیہ نشان بن کر کھڑے ہو گئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں