ہم سب ہی اس وقت ایک وبائی بیماری کی زد میں ہیں اور نجانے کب یہ دنیا سے ختم ہوگی‘ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ نظامِ ِتنفس کی بیماری کورونا نے گھروں کے گھر اجاڑ دیے ہیں تو دوسری طرف معاشی طور پر لوگوں کو بدحال کردیا ہے۔جہاں ایک بیماری جسمانی طور پر لوگوں پر حملہ آور ہے وہاں دوسری طرف یہ لوگوں کو نفسیاتی طور پر توڑ رہی ہے۔اس بیماری سے لوگ بیمار ہورہے ہیں کچھ جانبر نہیں ہوپاتے تو ان کے لواحقین صدمے میں چلے جاتے ہیں کیونکہ انہیں دفناتے وقت انہیں چھونے کی اجازت نہیں‘ بعض صورت میں دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی اور گھر کے کچھ مرد تدفین کر آتے ہیں اور باقی خاندان والے اس تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں کہ پتہ نہیں مریض نے آخری لمحات کیسے گزارے ہوں گے اور ہم تدفین سے پہلے اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھ پائے۔وہ ڈپریشن ‘ انزائنٹی اور پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہوجاتے ہیں۔پوسٹ ٹرامیٹیک سٹریس ڈس آڈر کسی بھی حادثے اور سانحے کے بعد انسان کو ہوجاتا ہے‘ اس کو بار بار وہ صدمہ یاد آتا ہے ‘وہ بے چین ہوجاتا ہے ‘اس کولگتا ہے اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈ ے ہورہے اور وہ مررہا ہے۔کچھ صورتوں میں اسے بہت رونا آتا ہے‘ دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے ‘ کسی چیز میں دل نہیں لگتا‘ نیند نہیں آتی‘ بھوک نہیں لگتی اور انسان کسی اور چیز پر توجہ نہیں دے پاتا۔اپنا خیال کرنا چھوڑ دیتا ہے‘ لباس نہیں تبدیل کرتا اور نہاتا بھی نہیں اور روزمرہ کاموں میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتا ہے۔کچھ لوگ صدمات سے کچھ عرصے بعد نکل آتے ہیں لیکن کچھ لوگ یہ نہیں کرپاتے ‘ان کی مدد کرنا ضروری ہے۔سب سے پہلے تو گھر والے اور دوست ان پر توجہ دیں اگر اس سے ٹھیک نہیں ہوتا تو سائیکاٹرسٹ اور ماہرِ نفسیات کی مدد لی جائے۔دوا اور تھراپی سے کچھ ماہ میں انسان نارمل زندگی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔
اب اگر ان کی بات کریں جن کو کورونا ہوا‘ انہوں نے قرنطینہ کیا ‘اکیلے رہنا پڑا یا وہ ہسپتال تک پہنچ گئے اور موت کہ منہ سے واپس آئے تو لازمی نہیں کہ سب ہی ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے ہوں ‘کچھ لوگوں کی وِل پاور بہت مضبوط ہوتی ہے تاہم جسمانی کمزوری وہ بھی محسوس کررہے ہوں گے‘ ان کو بھی مکمل آرام اور صحت یاب ہوکر واپس معمولاتِ زندگی کی طرف لوٹنا چاہیے۔تاہم جو لوگ اس دوران شدید ذہنی کرب کا شکار ہوئے ان کو چاہیے کہ وہ سورۃالرحمن سنیں‘ اس کے ساتھ کثرت کے ساتھ سورۃ الفاتحہ کا ورد کریں‘ دوردِ ابراہیمی کا ورد کریں اور چار قل پڑھیں‘ یہ عمل ان کو پرسکون رکھے گا۔اس کے ساتھ تازہ پھل ضرور کھائیں ‘تھوڑی دیر کھلی فضا میں بیٹھیں چاہے وہ گھر کی گیلری ‘چھت یا لان ہی کیوں نہ ہو۔سبزے کی طرف دیکھیں‘ اُڑتے پرندوں کی طرف دیکھیں کہ دنیا اب بھی رواں دواں ہے ‘آپ کو دوسری زندگی ملی ہے۔اپنے گھر والوں‘ رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطے میں رہیں۔ماہر نفسیات سے فون پر سیشن لیں اور اپنی ادویات وقت پر لیں۔ بہت سے علاقوں میں ماہرین نفسیات نہیں ہوتے تو مقامی ڈاکٹر بھی اس ضمن آپ کی مدد کرسکتا ہے۔اگر یہ ممکن نہیں تو اپنے کسی بڑے استاد یا قرآن کے معلم سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر بھی بہت ورزش اور یوگا ایکسرسائز موجود ہیں‘ ان سے بھی مدد لی جاسکتی ہے ۔کورونا ہونے کے فوری بعد لوگ بہت زیادہ ہیوی ایکسرسائز نہیں کرسکتے لیکن بہت سی سانس کی اور جسم کی ورزشیں کرسکتے ہیں۔تاہم اگر ذہنی طبیعت میں بہتری نہ آئے تو پھر ماہرین نفسیات اور ڈاکٹرز سے رجوع کیا جائے ۔دوا زیادہ کی جاتی ہے یا تبدیل کی جاتی ہے‘اس سے مریض بہتر محسوس کرتا ہے۔جو لوگ قرنطینہ میں ہیں یا لاک ڈاؤن میں ہیں ان کو بھی خود کو مصروف رکھنا ضروری ہے۔اگر بیمار ہیں توتلاوت سنیں‘ احباب سے فون پر باتیں کریں۔ حالات سے آگاہی کے لیے ٹی وی دیکھیں‘ دستاویزی فلمیں دیکھیں اور مزاحیہ ڈرامے یا موویز‘ ہلکی موسیقی بھی طبیعت پر خوشگوار اثرات مرتب کرے گی ۔اگر طبیعت تھوڑی بہتر ہے تو گھر میں بھی بہت سے مشاغل اپنائے جاسکتے ہیں جن میں مصوری ہے‘ کتب بینی ہے ‘ ہلکی پھلکی گھر کی سیٹنگ کی جاسکتی ہے۔انڈا کھائیں ‘ سوپ پئیں‘قہوہ پئیں ‘بھاپ لیں‘تازہ پھل سبزیاں کھائیں اس کے ساتھ کیلشیم اور ملٹی وٹامن ضرور لیں۔سب سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ فون پر رابطے میں رہیں‘گلی محلے میں گیلری لان اور چھت سے بھی گپ شپ کی جاسکتی ہے۔
بہت سے لوگ ناخواندہ ہیں ان کو آگاہی دیں‘ یہ معلومات ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے سے دی جاسکتی ہیں ‘اس کے ساتھ حکومت اور مقامی انتظامیہ فری فون سروس بھی شروع کرسکتی ہے جس میں لوگوں کو کورونا کے حوالے سے ذہنی دباؤ سے ڈیل کرنے کے طریقوں پر بات کی جائے۔ اب اگر ہم بات کریں معاشی دباو ٔکی تو یہ بھی سنگین مسائل پیدا کررہا ہے۔ کورونا کی وبا میں بہت سے لوگوں کے کاروبار تباہ ہوگئے اور بہت سے لوگوں کی نوکریاں چلی گئی ہیں اور کچھ لوگوں کی تنخواہیں کم ہوگئی ہیں۔ اس سے بھی غصہ‘ بے چینی اور مایوسی پھیل رہی ہے اور گھروں میں جھگڑے بڑھ رہے ہیں۔کورونا کی وبا کے دوران گھریلو تشدد اور طلاق میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔اس دوران خود کشی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے جو ذہنی دباؤ اور معاشی دباؤ ٔکی وجہ سے ہوتا ہے۔حال ہی میں ایک شخص نے بچوں سمیت خودکشی کرلی کیونکہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا ۔کورونا نے لوگوں کی معاشی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘بہت سے امیر لوگ غریب ہوگئے ہیں اور غریب لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں‘ متوسط طقبہ فاقوں پر چلا گیا ہے‘اس لئے ہمیں اس بیماری کے مختلف زاویوں پر کام کرنا ہوگا۔ یہ صرف جسمانی طور پر نہیں ذہنی اور معاشی طور پر انسانوں کو توڑ رہی ہے۔یہ صرف حکومت کا فرض نہیں‘ ہم سب کا فرض ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کریں‘ خیال کریں اور ہمارے محلوں میں جو ہورہا ہے اس کی ذمہ داری حکومت سے پہلے ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ایک دوسرے کی مدد کریں سب چیزیں حکومت پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا۔کورونا کی وبا کی دوران بچے اور بزرگ گھر پرر ہیں‘ کوشش کریں کہ ان دونوں کے درمیان فاصلہ کم کریں‘ بزرگ بچوں کو اپنے تجربات سے آگاہ کریں اور مختلف ہنر سکھائیں اور بچے بزرگوں کو ٹیکنالوجی سکھائیں‘ نیٹ کیسے استعمال کرنا ہے‘ فون کیسے استعمال کرتے ہیں‘ فیس بک‘ ٹوئٹر کیسے یوز کرتے ہیں‘تاکہ سب کا وقت اچھا گزرے۔ بچے کچن میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹائیں اور گھریلو کام کرنا بھی سیکھیں ۔اس کے ساتھ گھر کے بڑے ان کو باغبانی اور دیگر امورِ زندگی بھی سکھائیں۔
کورونا نے لوگوں کو شدید رنج و غم میں مبتلا کیا ہے۔ اس نے بہت سے گھرانوں کے پیاروں کو لقمۂ اجل بنا دیا۔ کچھ لوگ ایسے شدید بیمار ہوئے ہیں کہ اب تک تکلیف میں مبتلا ہیں‘ کچھ ہسپتال‘ آئی سی یو کے لمحات کو بھول نہیں پارہے تو کوئی قرنطینہ کی تنہائی سے خوفزدہ ہیں۔اس سب صورتحال میں حکومت مینٹل ہیلتھ ہیلپ لائن قائم کرے ‘ اس کے ساتھ ٹی وی ‘ اخبارات میں خصوصی سگمنٹس شروع کریں تاکہ لوگ ذہنی دباؤ سے باہر آئیں۔ان پینلز میں ماہر نفسیات ‘ سائیکاٹرسٹ اور ماہرین سماجیات کو مدعو کیا جائے اور لوگوں کی لائیو کالز لی جائیں۔اس کے ساتھ نئی جابز گورنمنٹ سیکٹر میں پیدا کی جائیں تاکہ لوگ ان سے مدد لے سکیں اور خودکشی ‘ ذہنی دباؤ اور نفساتی بیماریوں کو کم کیا جاسکے۔