یہ 2009ء کی بات ہے جب میں نے پہلی بار پی ٹی آئی کی ریلی کی کوریج کی تھی۔ اس وقت پی ٹی آئی اگرچہ مقبول جماعت تھی مگر سیاسی طور پر اتنی بڑی جماعت نہیں تھی۔ جب میں ایمبیسی روڈ پر ان کے مرکزی دفتر گئی تو باہر قیمتی گاڑیوں کی قطار تھی اور دفتر جو اصل میں ایک گھر میں بنایا گیا تھا‘ میں لگ بھگ ساٹھ‘ ستر کے قریب مرد و خواتین موجود تھے۔ مجھے خواتین کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر خوشی ہوئی کہ پڑھے لکھے لوگ اس جماعت کا حصہ ہیں اور ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ عمران خان اس وقت ورکرز سے خطاب کر رہے تھے، یہاں سے انہیں ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے راولپنڈی تک جانا تھا۔ مجھے چونکہ اس روز اسمبلی اجلاس کی بھی کوریج کرنا تھی سو میں نے ریلی پر کیمرہ مین کو بھیج دیا اور خود قومی اسمبلی چلی گئی۔ عمران خان اس وقت بہت عاجزی سے سب سے ریلی میں ساتھ جانے کو کہہ رہے تھے‘ یہ ریلی مہنگائی اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف تھی اور اس وقت ان میں مہنگائی کو لے کر بہت غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ انہوں نے ہم سب رپورٹرز کے سوالوں کا جواب بہت تحمل سے دیا۔ اس وقت نہ کوئی لائو لشکر ہوتا تھا نہ کوئی پروٹوکول، کوئی بھی ان سے سوال کر سکتا تھا۔ البتہ پی ٹی آئی کی کوریج سے زیادہ اس وقت میرا فوکس قومی اسمبلی کے اجلاس پر تھا کیونکہ ساری خبروں کا مرکز اسمبلی ہوتی تھی۔
اُس وقت مسلم لیگ (ق) کے بعد تحریک انصاف ایسی جماعت تھی جس کی تقریبات ، پریس کانفرنسز منظم طریقے سے اور وقت پر ہو جاتی تھیں؛ تاہم بعد میں جب پی ٹی آئی ایک بڑی جماعت بن کر سامنے آئی تو وہ سارا نظم وضبط جاتا رہا۔ میں نے ڈاکٹر شیریں مزاری، فوزیہ قصوری، نیلم تورو، نفیسہ خٹک، سلونی بخاری مرحومہ، نعیم الحق مرحوم، ڈاکٹر عارف علوی، سیف اللہ نیازی اور دیگر لوکل قیادت کی پریس کانفرنسز کی کوریج کی ہے۔ آج سے دس‘ گیارہ سال پہلے پی ٹی آئی کا ویمن ونگ فلاحی کاموں کے حوالے سے بہت متحرک تھا۔ فوزیہ قصوری ہمیں کوریج پہ مدعو کرتی تھیں۔ ہم نے ان کے ساتھ ایسے ایسے نواحی علاقے کور کیے جو اس سے پہلے کبھی دیکھے بھی نہ تھے، کبھی وہ سلائی مشینیں تو کبھی راشن تقسیم کرتیں۔ مجھے ان کی یہ بات بہت اچھی لگتی تھی کہ ان میں کوئی بناوٹ نہیں تھی۔ وہ متمول خاندان سے ہونے کے باوجود غریب عوام کو گلے لگا لیتیں اور ان میں خود چیزیں تقسیم کرتی تھیں۔ انہوں نے تحریک انصاف کیلئے بہت محنت کی تھی لیکن جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو سیاسی راہداریوں کے پرانے چہروں نے ان کی تمام محنت کو نگل لیا اور انہیں پارٹی سے باہر کر دیا گیا۔ اس کا مجھے بہت افسوس ہے، میں ان کو ذاتی طور پر تو نہیں جانتی لیکن اپنے کیریئر کے ابتدا میں جتنا میں نے ان کو پارٹی کیلئے کام کرتے دیکھا‘ شاید ہی کسی اور نے اتنا کام کیا ہو۔
آہستہ آہستہ پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھنے لگی‘ پرانے چہروں کی جگہ نئے چہروں نے لے لی۔ کچھ پرانے لوگ خود پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ گئے جن میں اکبر ایس بابر سرفہرست ہیں۔ آپس کی رنجشوں اور اختلافات نے پارٹی میں بہت کچھ تبدیل کر دیا۔ 2013ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی واضح مینڈیٹ کے ساتھ اسمبلی میں آئی اور برسر اقتدار مسلم لیگ نواز کو خوب ٹف ٹائم دیا۔ 2014ء کا دھرنا تو سب کو یاد ہی ہوگا‘ پی ٹی آئی نے 126 دن کا طویل دھرنا دے کر حکومت کے ناک میں دم کر دیا تھا۔ ایک چیز جو اس دوران میں نے محسوس کی وہ یہ کہ اس دھرنے میں پاکستان کے متوسط طبقے نے شرکت کی اور خواتین اور بچے روز بڑی تعداد میں آتے تھے۔ تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت میں اس کے بعد بہت اضافہ ہوا اور یہ پاکستان بھر میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو گئی۔ میں کبھی بھی حکومت کو دھرنوں وغیرہ سے گرانے کے حق میں نہیں رہی۔ ہر حکومت کو اور ہر وزیراعظم کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے۔ دھرنے‘ احتجاج اور جلسوں وغیرہ سے حکومت گرانا قطعی مناسب نہیں ہے۔ جو اچھی کارکردگی دکھائے گا‘ وہ رہے گا جو بری کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا‘ عوام خود اس کو الیکشن میں باہر کر دیں گے۔
ملک بھر میں سب سے پہلے پی ٹی آئی ہی سوشل میڈیا کی بڑی قوت بن کر سامنے آئی تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ سوشل میڈیا پر عمران خان اور تحریک انصاف کو سپورٹ کرتے تھے۔ ان میں ٹرولز بھی شامل ہو گئے جو عام سوشل میڈیا صارفین کے ساتھ بدتمیزی کرتے اور گالی گلوچ‘ فیک وڈیوز اور ایڈیٹنگ والی تصاویر شیئر کرتے۔ ایسے ماحول میں بات کرنا مشکل ہوگیا۔ انہوں نے تحریک انصاف کو بہت نقصان پہنچایا۔ ایسے لوگ کسی کے لیے بھی فائدہ مند نہیں ثابت ہوتے جو دلیل کے بجائے گالی سے بات کریں۔ تحریک انصاف کی دیکھا دیکھی دوسری جماعتیں بھی سوشل میڈیا کے میدان میں اتر آئیں، مسلم لیگ کی جانب سے مریم نواز نے اپنا سوشل میڈیا سیل بنایا، باقی جماعتیں بھی پیچھے نہ رہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ آفیشل ٹیمز تو بہت مہذب رہتی ہیں لیکن ان کے متوالے یا نام نہاد رضاکار ہر وقت سوشل میڈیا پر بدتمیزی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف ایسے ایسے ٹرینڈز بناتے ہیں کہ عام صارفین کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔
جب پی ٹی آئی کو حکومت ملی تو تبدیلی کی امید رکھنے والے پرانے کارکنوں کو یکسر نظر انداز کرکے ان لوگوں کو کابینہ کا حصہ بنایا گیا جو ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ مشیران کی دہری شہریت کے حوالے سے پی ٹی آئی حکومت پر بہت تنقید ہوئی لیکن آج بھی وہ مشیران اپنا کام کر رہے ہیں۔کبھی کبھی کابینہ کو دیکھ کر بچپن کے دن یاد آ جاتے ہیں جب پرویز مشرف ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے کیونکہ آدھے وزرا تو وہی ہیں جو ان کی کابینہ کا بھی حصہ تھے۔ وہ لوگ کہاں گئے جو پی ٹی آئی کیلئے اس وقت دن رات کام کرتے رہے جب یہ جماعت غیر مقبول تھی؟ انہوں نے اپنا وقت‘ پیسہ اور طاقت اس جماعت کے لیے خرچ کیے مگر آج ان کا کہیں ذکر بھی نہیں۔ لوکل قیادت بھی دیکھتی رہ گئی اور مشیران کے عہدے دوست اور وہ لوگ لے اڑے جو بیس سال سے حکومتی راہداریوں کا حصہ ہیں۔ تبدیلی کیا آنی تھی‘ ملک پرانی ڈگر پر چلتا رہا، اس دوران پوری دنیا کورونا کی وبا کا شکار ہوئی تو ملکی معیشت اور عوام شدید معاشی بحران کا شکار ہو گئے۔
اس وقت کورونا میں مبتلا عوام الگ سسک رہے ہیں، کسی کو ادویات کی کمی کا سامنا ہے، کسی کو بیڈ نہیں مل رہا، کسی کے پاس پیسے نہیں ہیں تو کسی کا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اس دوران بھی لڑائیوں میں مصروف رہے۔ ویسے کورونا کے پھیلائو میں اپوزیشن کا کردار بھی یاد رکھا جائے گا کہ پی ڈی ایم کی چھتری تلے ملک بھر میں جلسے کئے گئے اور عوام میں کورونا پھیلایا گیا۔ لیڈران میں سے کچھ خود بھی کورونا کا شکار ہوئے لیکن پھر بھی عوام کو جلسوں اور ریلیوں میں مدعو کیا جاتا رہا۔ اس طرح اب کورونا کی جس تیسری لہر کا سامنا ہے‘ یہ بہت مہلک ہو چکی ہے۔ ہر روز سینکڑوں افراد اس وبا کی نذر ہو رہے ہیں۔ بچوں کے امتحانات ملتوی ہو چکے ہیں، دوبارہ لاک ڈائون لگایا جا رہا ہے اور عوام پریشانی کا شکار ہیں۔ جلسوں‘ دھرنوں اور غیر ضروری تقریبات پر پہلے پابندی لگا دی جاتی تو شاید اس وقت ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ اب پھر معیشت کا پہیہ جام ہے اور لوگ گھروں میں بیٹھے ہیں۔ ان حالات میں گزشتہ دنوں تحرک انصاف نے اپنا یوم تاسیس منایا، اس حوالے سے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے شاندار 25 سال کے ٹرینڈز بھی چلائے گئے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ سرکاری ٹی وی بھی اس ہیش ٹیگ پر ٹویٹس کرتا رہا۔ سرکاری ٹی وی سرکار کے ٹویٹس کرے تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کسی سیاسی جماعت کے ٹرینڈز میں حصہ لینا‘ یہ بات باعثِ حیرت ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا نئی پی ٹی آئی پرانی جیسی ہے؟ کیا تبدیلی اور انقلاب اسی طرح آئے ہیں جیسے وعدہ کیا گیا تھا؟ کیا ملک سے لاقانونیت، اقربا پروری، کرپشن، مہنگائی اور رشوت وغیرہ کا خاتمہ ہو چکا ہے؟ کیا غریبوں کو روٹی‘ کپڑا اور مکان مل گیا ہے؟ کیا سب کو مساوی حقوق مل رہے ہیں؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ حکومت مافیاز کے آگے بے بس ہے، کبھی عوام چینی کی لائن میں لگے ہوتے ہیں تو کبھی آٹے کی، کبھی ادویات کی قلت ہو جاتی ہے تو کبھی سڑکیں بند ہو جاتی ہیں۔ عوام کی کہیں کوئی شنوائی نہیں۔ وزیراعظم کے اردگرد اب نئے ساتھی ہیں اور پرانے ساتھی اور کارکنان اب ان تک پہنچنے کی دسترس نہیں رکھتے۔ وزیراعظم ہائوس کے محلات کی دیواریں اونچی ہیں شاید اسی لیے کارکنان اور عوام کی باتیں ان تک نہیں پہنچ پاتیں۔ وہ معاونین جو گزشتہ حکمرانوں کے ساتھ تھے‘ وہی اب عمران خان کو میسر ہیں، ان حالات میں تبدیلی کیسے آئے گی؟ پرانے چہرے نیا انقلاب نہیں لا سکتے۔ وہ یوتھ اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ‘ جنہوں نے تحریک انصاف کا ساتھ دیا تھا‘ آج کہاں ہیں؟ وہ بزرگ کارکنان اور ریلیوں‘ جلسوں پر محنت کرنے والے مقامی عہدیدار کدھر ہیں؟ وہ اسمبلی‘ وزارتوں اور اقتدار کے ایوانوں تک کیوں نہیں پہنچے؟ ان سوالات کا جواب میں تحریک انصاف کے کارکنان اور ووٹرز پر چھوڑتی ہوں۔