حقا ہم اک دن جیتیں گے

فیض احمد فیضؔ نے فلسطینی مجاہدین کیلئے ایک ترانہ لکھا تھا:
ہم جیتیں گے؍ حقا ہم اک دن جیتیں گے؍ بالآخر اک دن جیتیں گے
یہ ترانہ 80 کی دہائی میں لکھا گیا تھا۔ فیض احمد فیضؔ کی یاسر عرفات سے علیک سلیک تھی‘ وہ فلسطینیوں کیلئے بہت دردِ دل رکھتے تھے‘ ''ہم دیکھیں گے‘‘ کی طرز پر انہوں نے یہ ترانہ لکھا۔ فلسطینی رہنما یاسر عرفات کرشماتی شخصیت کے مالک تھے ،وہ ہمیشہ ایک سکارف سر پر باندھتے تھے، وہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے چیئرمین تھے اور ساری زندگی فلسطینیوں کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے انہیں زہر دیا تھا جس کے باعث وہ پہلے علیل ہوئے اور پھر جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ یاسر عرفات‘ جو پوری دنیا میں فلسطین کے سفیر مانے جاتے تھے‘ کی شہادت کے بعد اسرائیلی جارحیت میں مزید تیزی آ گئی اور فلسطین ایک فعال سفارتکار سے محروم ہو گیا۔
تاریخی اعتبار سے فلسطین کی سرزمین بہت مقدس اور قدیم ہے۔ یہ بہت سے انبیاء کرام کا مسکن رہی ہے۔ قرآنِ مجید میں بھی اس سرزمین کو بابرکت کہا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں آ کر آباد ہوئے اور اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کو بیت المقدس میں آباد کیا، ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کی آل اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں یہ لوگ کچھ عرصے کے لیے مصر میں جا کر آباد ہوئے مگر بعد ازاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ فلسطین کے لیے ہجرت کی اور صحرائے سینا میں بھٹکنے کے بعد یہ قوم دوبارہ فلسطین میں آباد ہوئی۔ اس کے بعد حضرت دائود‘ حضرت سلیمان‘ حضرت زکریا‘ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام‘ ان تمام انبیا کرام کی پیدائش یہیں ہوئی‘ یہیں ان سب نے قیام فرمایا۔ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنوں سے ایک عبادت گاہ بھی تعمیر کرائی جس کے کچھ آثار آج بھی موجود ہیں‘ اسی طرح مسجد ِ اقصیٰ میں حضرت زکریا علیہ السلام کی محراب مبارک‘ وہ غار نما جگہ جہاں حضرت مریم نے قیام کیا تھا‘ اور وہ جگہ بھی موجود ہے جہاں شبِ معراج سید الانبیاﷺ نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی تھی۔
یہ سرزمین یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں‘ تینوں مذاہب کیلئے مقدس ہے۔ غالباً اسی سرزمین میں تابوتِ سکینہ مدفون ہے جس میں حضرت یوسف، حضرت موسیٰ، حضرت ہارون اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے تبرکات موجود ہیں۔ اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں کہیں دفن ہے۔ رسول اللہﷺ کے دورِ نبوت میں تقریباً ابتدائی چودہ‘ پندرہ برس تک قبلہ بیت المقدس تھا‘پھر مسلمانوں کیلئے قبلہ تبدیل کر کے خانہ کعبہ کر دیا گیا۔ جس وقت یہ وحی نازل ہوئی‘ اس وقت رسول اللہﷺ مدینہ منورہ کی جس مسجد میں نماز پڑھا رہے تھے وہ مسجد آج قبلتین کہلاتی ہے یعنی دو قبلوں والی مسجد۔ جب اللہ تعالی نے معجزاتی طور پر رسول کریمﷺ کو معراج کا سفر کرایا تو آپﷺ کو پہلے مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ لے جایا گیا۔ مسجد اقصیٰ سے رسول اللہﷺ نے سفر معراج کا آغاز کیااور جس چٹان سے سفر شروع ہوا‘ وہ آج بھی موجود ہے‘ اس پر ایک سنہری گنبد بنا ہوا ہے‘ جسے قبۃ الصخرہ کہتے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں اس چٹان پر مسجد تعمیر کی گئی۔ یہ مقدس علاقہ کئی ادوار میں جنگوں کی زد میں رہا۔ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اس کو تاراج کیا، سکندر اعظم نے اس خطے پر قبضہ کیا۔ پھر عرب فاتحین اس کے حکمراں رہے، سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس علاقے کو عیسائیوں سے چھرا کر یہاں مسلم حکومت قائم کی۔ یہ پورا احاطہ‘ جہاں اس وقت اسرائیل نے حملہ کیا ہے‘ مسلمانوں کیلئے مقدس ہے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دنیا کی تین مساجد کی طرف سفر کرنا باعثِ برکت و ثواب ہے‘ ان میں مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ شامل ہیں۔
یہودیوں کے عقیدے کے مطابق‘ اگر انہیں یہاں مدفون تابوتِ سکینہ مل جائے تو وہ پوری دنیا پر حکمرانی کرنے لگیں گے۔ بعض روایات کے مطابق حضرت عمر فاروقؓ کو جس وقت یروشلم کی چابیاں دی گئی تھیں‘ اس وقت وہاں کے حاکم عیسائیوں نے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت یہودیوں کو یہاں آباد ہونے کی اجازت نہ دینے کی شرط رکھی گئی تھی۔ یہ شرط خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے تک برقرار رہی۔ عثمانیوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب یہاں انگریز آئے تو اس مقدس سرزمین کے باسیوں کی بدقسمتی کا آغاز ہوا اور یہاں پر ناجائز طور پر یہودیوں کی آبادکاری شروع ہوئی۔ دوسری جنگِ عظیم میں جب ہٹلر چن چن کر یہودیوں کو مار رہا تھا‘ اس وقت بھی بہت سے یہودی جان بچا کر اس خطے میں آباد ہوئے۔ اس طرح اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔
1948ء میں اسرائیل تو معرضِ وجود میں آگیا لیکن اس کے قدم رکے نہیں اور یہ فوجی قوت کے بل بوتے پر فلسطین کے علاقوں پر قبضہ کرتا رہا۔ عرب ممالک کے ساتھ بھی اس کی جنگیں ہوئیں۔ 1988ء میں ریاستِ فلسطین کے قیام کا جس وقت اعلان کیا گیا اس وقت تک اسرائیل اس کے 75 فیصد رقبے پر قبضہ کر چکا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ریاست فلسطین چاروں طرف سے اسرائیل کے نرغے میں ہے اور اُس کا جب دل کرتا ہے‘ نہتے فلسطینیوں پر بمباری شروع کر دیتا ہے‘ رہائشی علاقوں پر حملہ کرتا ہے اور فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کر کے وہاں یہودی بستیاں آباد کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ان تمام تر نامساعدہ حالات کے باوجود یہاں کے لوگ تعلیم حاصل کرنے اور معاشی طور پر خود کفیل ہونے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں جب یہودی آباد کار شیخ الجراح نامی علاقے سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالنے کی کوشش کر رہے تھے اور دورانِ رمضان مسجد اقصیٰ میں گھس کر نمازیوں پر حملہ کیا گیا تو حماس نے اسرائیل پر چند راکٹ داغے جس کے بعد سے اسرائیل متواتر فلسطین پر حملے کر رہا ہے، گزشتہ دو دنوں میں غزہ پر 60 سے زائد حملے ہوئے ہیں جن میں عام شہریوں اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اب تک 200 سے زائد فلسطینی اسرائیلی حملوں میں شہید ہو چکے ہیں جن میں بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 7 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا دفاتر، ہلالِ احمر سمیت ریسکیو ٹیموں کے مراکز کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں کورونا ویکسین مہم بھی رک گئی ہے۔ اس تمام صورتحال میں عالمی برادری کی مردہ ضمیری کھل کر سامنے آئی جو کھل کر اسرائیل کی حمایت کر رہی ہے۔ جو لوگ سوشل میڈیا پر فلسطین کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں‘ ان کے اکائونٹس معطل کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت یو این کی پیس کیپنگ آرمی کو فلسطین کی مدد کے لیے میدان میں آنا چاہیے اور یروشلم ، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو اسرائیلی جارحیت سے محفوظ بنانا چاہیے تا کہ تینوں مذاہب کو ماننے والے مقدس مقامات کی زیارت کر سکیں۔ فلسطین کے مسئلے پر یورپی یونین کا اجلاس طلب کیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا زبانی باتوں کے علاوہ دنیا نہتے فلسطینیوں کی مدد کر سکے گی؟ ان حالات میں بھی جو بائیڈن انتظامیہ نے 735 ملین ڈالر کا اسلحہ اسرائیل کو فروخت کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ اب او آئی سی اور اسلامی ممالک کو بھی سامنے آنا چاہیے تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ فلسطین اکیلا نہیں ہے۔ اس تنازع کوایک صدی بیت گئی ہے‘ پہلے بھی فلسطینیوں کو زبردستی ان کی سرزمین سے بے دخل کیا گیا‘ اب بھی اسرائیل یہی کر رہا ہے اور شیخ الجراح سے زبردستی فلسطینیوں کو نکالا جا رہا ہے۔ آپ کو کیسا لگے اگر کوئی آپ کے گھر میں پناہ مانگے اور بعد ازاں آپ کے گھر پر قبضہ کرکے آپ کو نکال باہر کرے۔ صہیونی ریاست کو اس وقت بہت سی عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے اور اسی وجہ سے اسرائیل نہتے عوام، میڈیا ہائوسز اور ہسپتالوں کو نشانہ بنانے سے بھی دریغ نہیں کر رہا۔ اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے‘ دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ کون ظالم کا ساتھ دیتا ہے اور کون مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے؛ البتہ ایک بات طے ہے کہ تاریخ ظالموں کوکبھی معاف نہیں کرے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں