بڑھتا ہوا اسلامو فوبیا

اسلام امن و سلامتی کا دین ہے لیکن پوری دنیا بالخصوص مغربی ممالک میں نسل پرستی اور اسلاموفوبیا بڑھتے جارہے ہیں۔ مسلمانوں پر دوپٹہ‘ ڈاڑھی اور حجاب کی وجہ سے حملے ہو رہے ہیں، وہ اپنی عبادت گاہوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں، ان پر نماز کے دوران‘ رمضان میں سحر و افطار کے اوقات میں حملے کیے جاتے ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسجد الاقصیٰ میں بھی ہم نے اس کا مشاہدہ کیا کہ نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی فورسز نے حملہ کیا‘ ان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، نماز پڑھنے والے افراد پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے، بے گناہ افراد کو گرفتار کیا اور مسجد کے تقدس کو پامال کیا۔ صہیونیوں کی یہ کوشش ہے کہ مسلمانوں کو اس خطے سے بے دخل کرکے یہاں مکمل طور پر قبضہ کرلیا جائے۔ صہیونی اور صلیبی طاقتوں نے پہلے خلیجی مسلم ممالک کو جنگ کا اکھاڑہ بنایا‘ پھر جب مسلمانوں نے پناہ گزینوں کے طور پر قریبی ممالک میں پناہ لی تو وہاں بھی نسل پرست لوگ ان کو چین سے جینے نہیں دیتے۔ پاکستان اور ترکی کا دل اتنا بڑا ہے کہ یہاں پر سب سے زیادہ پناہ گزین رہائش پذیر ہیں جنہیں کسی نسلی تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑتا؛ تاہم مسلمان اور پاکستانی‘ دنیا کے جس کے بھی خطے میں ہوں ان کو نسلی اور مذہبی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کو رنگ‘ نسل‘ مذہب اور لباس کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ماضی قریب میں نیوزی لینڈ میں مساجد پر ہوئے حملے ہیں کہ کس طرح سفید فام دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ نے نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد النور اور لِن ووڈ اسلامک سنٹر میں نمازیوں کو آٹو میٹک اسلحے سے نشانہ بنایا اور یہ سب کچھ فیس بک پر لائیونشر بھی کیا۔ تمام نمازی نہتے تھے اور جب تک پولیس جائے واردات پر پہنچی‘ پچاس سے زیادہ افراد شہید ہوچکے تھے جبکہ چالیس سے زائد اس سفاکانہ حملے میں زخمی ہوئے۔ یہ سانحہ اتنا ہولناک تھا کہ پوری اسلامی دنیا اس پر اشکبار ہو گئی تھی۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے صورتحال کو اچھی طرح ڈیل کیا اور مسلمانوں کی داد رسی کی اور اسلاموفوبیا کو مزید پھیلنے سے روکا۔
اس کے برعکس فرانس نے ایسے اقدامات کیے جن سے اسلاموفوبیا کو مزید پھیلنے کا موقع ملا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں انتہاپسندی بھی بڑھ گئی۔ اب بھی فرانسیسی حکومت اس کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہے اور اس طرح کے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے جن سے مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے۔ چارلی ہیبڈو نے پہلی بار جب گستاخانہ خاکے شائع کئے تھے ‘اسی وقت فرانس کو اس پر پابندی لگادینی چاہیے تھی لیکن فرانس نے اس کو آزادیٔ اظہارِ رائے قرار دیا لیکن دوسری طرف حجاب پر پابندی لگاکر اپنے دہرے عمل کو آشکار کر دیا۔ اس عمل سے فرانسیسی حکومت کی منافقت عیاں ہو گئی کیونکہ لباس کے معاملے میں بھی تو انسان آزاد ہے‘ وہ جو چاہے اپنی مرضی سے پہنے‘ لیکن تاحال فرانسیسی حکومت کو ادراک نہیں کہ اس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر جب چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملہ ہوا تو پوری دنیا پیرس میں جمع ہوگئی جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جمع اس وقت ہوتے جب ایک مذہب کے لوگوں کی دل آزاری کی جا رہی تھی؛ تاہم عالمی برادری کا منافقانہ رویہ سب کے سامنے ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کو آزادیٔ اظہارِ رائے کہتی ہے اور ان کے خلاف سب متحد ہوجاتے ہیں۔
اس وقت مغرب میں اسلام سے نفرت بڑھتی جارہی ہے، مغربی حکومت جان بوجھ کر ان ہیٹ کرائمز کو عام جرائم کے کھاتے میں ڈال کر انہیں نظرانداز کر دیتی ہے۔ گزشتہ دنوں امریکا میں پاکستانی نژاد طالبہ نافعہ اکرام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، وہ گھر کے باہر گاڑی سے سامان نکال رہی تھی کہ ایک نامعلوم شخص نے اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا‘ جس سے اس کا چہرہ اور ایک آنکھ بری طرح جھلس گئے جبکہ اس کی بینائی چلی گئی۔ پہلے تو یہ خبر دبی رہی لیکن پھر پاکستانی کمیونٹی نے اس خبر کو اٹھایا تو مغربی میڈیا کو بھی ہوش آیا۔ اس سانحے کے ایک ماہ بعد جا کر بڑے نشریاتی اداروں اور جرائد نے نافعہ کے واقعے کو کوریج دی؛ تاہم مجرم اب تک گرفت میں نہیں آ سکا ہے۔ نافعہ کا جرم کیا تھا؟ پاکستانی باپ کی بیٹی اور مسلمان ہونا؟ یہ تیزاب گردی کسی ذاتی دشمنی کا شاخسانہ نہیں بلکہ نفرت پر مبنی جرم اور اسلاموفوبیا ہے ۔ اسی طرح کینیڈا‘ جو بہت پُرامن ملک سمجھا جاتا ہے اور اپنے دامن میں بہت سے ممالک کے باشندوں کو پناہ دیے ہوئے ہے‘ وہاں پر ایک سانحہ جنم لیتا ہے جس کے پیچھے بہت سے محرکات ہیں کیونکہ نفرت یونہی جنم نہیں لیتی۔ جب فیس بک‘ ٹویٹر‘ یوٹیوب‘ انسٹاگرام اور دیگر سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر سے گستاخانہ خاکوں اور اسلام مخالف مواد کو یہ کہہ کر ہٹانے سے انکار کر دیا جائے گا کہ یہ اظہارِ رائے کی آزادی کے منافی ہے تو یہ شرپسندی اور نفرت عام لوگ میں بھی سرائیت کرجائے گی۔ لوگ اس سے یہی سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ اسلام شاید ایسا ہی دین ہے جیسا ان خاکوں میں بتایا گیا ہے حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اگر ایسے ملعون کارٹونسٹس کو‘ نہ صرف روکا جائے بلکہ ان کو قرار واقعی سزا بھی ملے‘ ان پر پابندی بھی لگے تو لوگوں کو پتا چلے گا کہ اسلام کو ایک سازش کے تحت بدنام کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح ایسی فلموں‘ ڈراموں‘ سیزنز‘ سیریز اور آرٹیکلز پر بھی پابندی لگنی چاہیے جن میں مسلمانوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ افراد سفید فام نسل پرستی کا شکار ہیں‘ ایسی تنظیموں پر‘ جو نسل پرستی کو بڑھاوا دیتی اور اس کا پرچار کرتی ہیں‘ پر بھی پابندی لگائی جانی چاہئے تاکہ دوسرے لوگوں کو احساس ہو کہ یہ سب کچھ غلط ہے۔
میری ایک دوست کی چچی امریکی ہیں‘ جب وہ پاکستان آئیں تو کہنے لگیں: مجھے لگا تھا کہ پاکستان بھی افغانستان جیسا ہوگا لیکن یہ تو بہت ماڈرن ہے‘ یہاں تو کوئی ٹینک نہیں چل رہے‘ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں‘ کام کررہی ہیں پاکستان تو بہت روشن خیال مسلم ملک ہے۔ وہ یہاں کے ماحول سے اتنا متاثر ہوئیں کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ مغرب میں اسلام اور پاکستان کے حوالے سے ایسا تشخص اجاگر کیا گیا ہے کہ وہاں کے لوگ ہمیں مخصوص عینک سے دیکھتے ہیں۔ ہم خود بھی اپنی ثقافت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں ناکام رہے ہیں‘ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ ہمیں دہشت گرد بناکر پیش کررہے ہیںاور ہم چپ چاپ سب دیکھ رہے ہیں۔ حال ہی میں نیٹ فلیکس پر جتنے بھارتی سیزن آئے ہیں‘ ان سب میں پاکستان کو ایک غیرمحفوظ ایٹمی طاقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے حالانکہ حالت یہ ہے کہ خود بھارت میں یورینیم ریوڑیوں کی طرح بک رہا ہے۔
ہمارے خلاف ایک نفسیاتی وار فیئر جاری ہے جس کی وجہ سے پاکستانیوں پر دنیا بھر میں حملے ہورہے ہیں۔ اسی وجہ سے کینیڈا میں ایک سفید فام مجرم نے ایک پاکستانی خاندان کو ٹرک تلے کچل دیا۔ ان کا قصور صرف مسلمان اور پاکستانی ہونا تھا۔ اس خاندان میں ڈاکٹر سلمان افضل‘ ان کی بیگم جوپی ایچ ڈی کی طالبہ تھیں مدیحہ سلمان‘، بیٹی یمنیٰ سلمان جس کی عمر محض 15 برس تھی‘ اور ان کی عمر رسیدہ والدہ شامل تھیں۔ اس خاندان کا صرف ایک بچہ بچا ہے۔ اس خاندان کے دیگر افراد نے اپیل کی ہے ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر مت کی جائیں۔ کینیڈا میں پیش آئے اس واقعے سے ایک بار پھر مسلم دنیا ہل کر رہ گئی ہے کہ مسلمانوں کو محض ان کے مذہب‘ ان کے لباس اور وضع قطع کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے اس سانحے پر اظہارِ ہمدردی کیا ہے اور کینیڈین پولیس نے اس واقعے کو سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے۔ کینیڈین وزیراعظم نے کہا ہے کہ نفرت اور اسلاموفوبیا کی کینیڈا میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہی سب کو کہنا چاہیے کہ یہ کوئی عام جرم نہیں ہے‘ مغرب کو بھی کھل کو اسلامو فوبیا کو دہشت گردی کہنا ہوگا اور اس کی بھرپور مذمت کرنا ہوگی۔ پاکستانی حکومت کو بھی چاہیے کہ اس ضمن میں اپنی آواز بلند کرے اور پوری دنیا میں پاکستانیوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں