گرمی‘ وی آئی پی روٹس اور ٹریفک اہلکار

شہرِ اقتدار میں اتنی گرمی ہے کہ اگر ڈاکٹر کے پاس نہ جانا ہوتا تو میں کبھی گھر سے نہ نکلتی۔ میں کووڈ کے خوف سے اپنی اپائنٹمنٹس ٹال رہی تھی لیکن ویکسین لگوانے کے بعد خوف کچھ کم ہوا تو چیک اَپ وغیرہ کرانے کا سوچا۔ جب کلینک سے باہر آئی تو کسی وی آئی پی نے بلیو ایریا بند کرا دیا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ اتنی گرمی میں بھی عوام کو خوار کیا جا رہا تھا۔ آخر یہ اشرافیہ اتنی بے حس کیوں ہے؟ بلیو ایریا کے ہر داخلی راستے پر ٹریفک پولیس اہلکار سڑک بلاک کرکے کھڑے تھے۔ مجھے اے سی والی گاڑی میں اتنی گرمی لگ رہی تھی اور میں باہر تیز دھوپ میں‘ پسینے میں شرابور ٹریفک کنٹرول کرنے والے اہلکاروں کو دیکھ رہی تھی جو ٹریفک کو متبادل روٹس کی طرف ڈائیورٹ کر رہے تھے۔ ویسے تو مجھے دس منٹ میں اپنی منزل پر پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے میں سٹرک پر پھنس کر رہ گئی تھی، اب میرے پاس نہ پینے کو پانی تھا اور نہ ہی کوئی کھانے کی چیز۔ مجھے شدید پیاس اور بھوک لگ رہی تھی۔ ڈی چوک میں پسینے سے شرابور ایک ٹریفک پولیس اہلکار نے مجھے کہا: میڈم متبادل سڑک استعمال کریں۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے کلینک جانا ہے‘ جو سامنے ہی ہے‘ متبادل روٹ کا مطلب ہے کہ مجھے اب پھر ایف نائن کی طرف سے گھوم کر ایف 8کراس کرکے ایف 6 کی طرف سے آنا پڑے گا۔ اس نے کہا: میڈم روٹ لگا ہوا ہے‘ مجبوری ہے‘ آپ اس طرف سے نہیں جا سکتیں۔ وہ راستہ جہاں سے گزر کر میں آدھ گھنٹہ پہلے ایمبیسی روڈ پر آئی تھی‘ اب وہاں سیمنٹ کے بلاکس پڑے تھے۔ ڈی چوک پر رکھے بدہیئت کنٹینرز مجھے مزید برے لگ رہے تھے۔ میں نے اس سارجنٹ کا شکریہ ادا کیا اور بلیو ایریا جانے کے لیے بائیں جانب مڑ گئی۔ مجھے شدید پیاس لگ رہی تھی اور خود پر غصہ آ رہا تھا کہ اتنی گرمی میں باہر کیوں آئی؟ اور اگر نکلی ہی تھی تو پانی کی بوتل کیوں نہیں پکڑی؟ اور سب سے بڑھ کر‘ ایک ساتھ دو ڈاکٹرز کا وزٹ کیوں پلان کیا؟
میں نے سوچا کہ ڈی چوک بند ہے تو کوئی نہیں‘ آگے سے بلیو ایریا میں داخل ہو جائوں گی لیکن وہاں بھی ٹریفک اہلکار موٹے کپڑے کی وردی پہنے پسینے میں شرابور قدرے شائستگی سے ٹریفک کو دوسری طرف ڈائیورٹ کر رہے تھے۔ وہاں کافی گاڑیاں جمع ہو چکی تھیں‘ ایک تو شدید گرمی‘ دوسرا ٹریفک جام‘ لوگ تلملا رہے تھے کہ کس شہنشاہ سلامت کی سواری گزرنی ہے جس نے راستے بند کرا دیے ہیں۔ اگلے ٹرن پر بھی یہی عالم تھا، وہاں بھی ایک ٹریفک سارجنٹ گرمی میں ٹریفک کنٹرول کر رہا تھا‘ اس سے پہلے وہ کچھ بولتا‘ میں نے خود ہی راستہ تبدیل کر لیا۔یہ کیسا نیا پاکستان ہے‘ جس میں بالکل پرانے پاکستان کی طرح انتہائی گرمی میں روٹ لگا کر عوام کو خوار کیا جا رہا ہے۔ وہ راستہ جو دس منٹ میں طے ہو جانا تھا‘ تیس منٹ سے زائد ہو چلے تھے اور میں اب تک راستے میں خوار ہو رہی تھی۔ پیاس کی شدت سے برا حال تھا۔ مجھے ٹریفک پولیس اہلکاروں پر بھی ترس آ رہا تھا کہ اس قدر گرمی میں کھڑے وہ اپنی ڈیوٹی ادا کر رہے تھے، کسی کے ماتھے پر شکن تک نہیں تھی۔ بہت تحمل سے وہ لوگوں سے درخواست کر رہے تھے کہ متبادل راستہ اختیار کریں۔ میں جتنی دیر میں ایف نائن سے واپس ڈی چوک کی طرف آتی‘ اتنی دیر میں میرا اپائنٹمنٹ کا وقت ختم ہو جانا تھا‘ ویسے بھی گرمی سے میرا برا حال ہو چکا تھا‘ اب مزید میں یہ مشقت برداشت نہیں کر سکتی تھی‘ سو میں نے کال کر کے اپنا ڈاکٹر سے ٹائم کینسل کرا دیا اور گھر واپس جانا بہتر سمجھا۔ شاید کچھ اور دیر میں اسی طرح سٹرک پر خوار ہوتی رہتی تو ہیٹ سٹروک کروا لیتی۔
کیسے بے حس لوگ تھے جن کیلئے یہ سارا اہتمام کیا گیا تھا۔ وہ تو اپنی اے سی والی گاڑیوں میں آرام سے گزر گئے ہوں گے‘ انہوں نے تو ان ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی طرف دیکھا بھی نہیں ہو گا جو اتنی گرمی میں بنا کسی سائے اور چھتری کے‘ اتنا موٹا یونیفارم پہنے عوام کو روک رہے تھے کہ سرکار کی سواری گزرنی ہے۔ اشرافیہ کو عوام یا پولیس سے کیا سروکار؟ ویسے بھی محلوں کی اونچی دیواروں سے نہ تو عوام نظر آتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کی آواز وہاں تک پہنچتی ہے۔ کیا مہنگی بلٹ پروف گاڑیوں اور سائونڈ پروف کالے شیشوں سے عوام یا ان کے مسائل ان امرا کو نظر آتے یا سنائی دیتے ہوں گے؟ فراٹے بھرتے گزرتے قافلے زمین پر کھڑے عام انسانوں‘ موٹرسائیکل اور سائیکل سواروں کی طرف دیکھتے بھی کہاں ہوں گے؟ انہیں تو یہی زعم ہوتا ہے کہ وہ ملک چلا رہے ہیں۔ انہیں تو صرف سیاست کرنی ہے‘ بجٹ پیش کرنے ہیں‘ سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانا ہے‘ پھر شام کو کلف زدہ کپڑوں میں اکڑی ہوئی گردنوں کے ساتھ ٹاک شوز میں لڑنا ہے۔ عوام کا کیا ہے؟ وی یونہی خوار ہوتے رہیں گے۔ ڈی چوک سے ایف نائن تک ہر کٹ‘ ہر چوک‘ ہر سڑک پر ٹریفک سارجنٹس کو گرمی میں کھڑے دیکھ کر آنکھیں نم سی ہو گئیں۔ یہ بھی کسی کے بیٹے ہیں‘ کسی کے بھائی ہیں‘ کسی کے سر کا تاج ہیں‘ پیارے پیارے بچوں کے والد ہیں‘ کسی خاندان کی ساری خوشیاں ان سے منسلک ہیں۔ اس قدر گرمی میں ان کو بغیر چھتری کے وی آئی پی روٹس کی ڈیوٹی سونپنا کہاں کی انسانیت ہے؟
یہ وی آئی پی روٹس والے وہی ہیں جو عوام سے ووٹ مانگتے وقت ایسے گھل مل جاتے ہیں جیسے سگے رشتے دار ہوں اور اقتدار میں آنے کے بعد وہی عوام ان کو کیڑے مکوڑے لگنے لگتے ہیں‘ ان کے لیے سکیورٹی رسک بن جاتے ہیں‘ اسی لیے یہ کہیں بھی جانے سے پہلے روٹ لگوا کر نکلتے ہیں تاکہ عوام ان کے قریب بھی نہ پھٹک سکیں۔ مجھے اے سی والی گاڑی میں اتنی گرمی اور پیاس محسوس ہو رہی تھی اور قوم کے یہ بہادر سپوت‘ جو دن رات ٹریفک کو مینج کرتے ہیں‘ بہت خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں‘ کن حالات سے گزر رہے تھے‘ مجھے خوب اندازہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ دورانِ رپورٹنگ میں روڈ پر کھڑی تھی تو ایک بزرگ ٹریفک اہلکار نے مجھے خوب ڈانٹ پلائی تھی کہ اگر گاڑی کے نیچے آ جاتی تو؟ چلو یہاں سے شاٹ لو‘ محفوظ بھی رہو گی اور ساری ٹریفک بھی کیمرے میں آ جائے گی۔ غلطی میری تھی لہٰذا مجھے شرمندگی ہوئی، پھر شاٹ لینے کے بعد میں ان کو کیمرے میں دکھایا تو انہوں نے مجھے شاباش دی اور غلطی پر سرزنش بھی کی کہ معمولی بھول چوک سڑک پر بہت بڑے حادثے کا باعث بن سکتی ہے۔
حکومت کو ٹریفک پولیس کی مراعات اور سہولتوں میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اگر حکومت یا انتظامیہ کے پاس بجٹ نہیں ہے تو برانڈز سے سپانسر کروایا جا سکتا ہے۔ اہلکاروں کو تپتی سڑک پر کھڑے کرنے کے بجائے ان کے لیے اے سی والی چوکیاں بنائیں‘ وہاں سے بھی یہ ٹریفک مانیٹر کر سکتے ہیں‘ ٹھنڈے پانی کے کولر نصب ہونے چاہئیں تاکہ گرمی میں ہیٹ سٹروک کا شکار نہ ہوں۔ ڈیوٹی کے اوقاتِ کار موسم کی مناسبت سے کم کیے جائیں تاکہ اہلکار اپنی صحت برقرار رکھ سکیں۔ ان کی ہیلتھ انشورنس بھی ہونی چاہیے، آلودگی سے بچنے کیلئے ان کو خصوصی ماسک دیے جائیں۔ ٹریفک پولیس اس ملک کا بہت بڑا اثاثہ ہے‘ بے ہنگم ٹریفک کے بیچ اہلکاروں کو کھڑا کر دینا ان کی جان سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ حال ہی میں لاہور میں ایک رئیس زادے نے اپنی مہنگی گاڑی تلے ایک ٹریفک وارڈن کو کچل دیا‘ اس سے قبل پشاور ٹول پلازے پر ایک تیز رفتاری گاڑی نے ایک اہلکار کو کچل کر ہلاک کر دیا تھا، کیا ان کے کوئی حقوق نہیں ہیں؟ کیا ان کی جان کی کوئی وقعت نہیں؟ بالکل ہے۔ ہر انسانی جان قیمتی ہے۔ حکومت فوری طور پر ٹریفک اہلکاروں کیلئے چوکیاں بنوائے جن پر پاکستان کی ثقافت اور ٹرک آرٹ نمایاں ہو۔ بوقتِ ضرورت اہلکار باہر نکل کر بھی ٹریفک ماینٹر کریں لیکن سارا وقت ان سے دھوپ میں ڈیوٹی کرانا سراسر ظلم ہے۔ حکمرانوں کو وی آئی پی روٹس کلچر فوری ختم کرنا چاہیے۔ اگر آپ اتنے نازک مزاج ہیں تو ساری تقریبات اپنے محلات میں ہی کر لیا کریں‘ ورنہ ہیلی کاپٹر کی سواری کیا کریں‘ عوام ٹریفک جام کی خواری سے بچ جائیں گے اور آپ بھی عوام سے ''محفوظ‘‘ رہ کر اپنی منزلِ مقصود پر آرام سے پہنچ جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں