دورِ جدید میں بہت سے ممالک مل کر فوجی مشقیں کرتے ہیں تاکہ زمانۂ جنگ کے لیے فوج کو تیار رکھا جائے۔ دوست ممالک ایک دوسرے کو مدعو کرتے ہیں اور ان کے فوجی مل کر مشقیں کرتے ہیں۔ اسی حوالے سے گزشتہ دنوں ترکی میں فضائی مشقوں کا انعقاد کیا گیا۔ یہ مشقیں ترکی کے شہر قونیہ میں ہوئیں اور ان میں چار ممالک نے حصہ لیا جن میں ترکی‘ پاکستان آذربائیجان اور قطر شامل تھے۔ یہ مشقیں اناطولیہ نامی مقام پر رکھی گئی تھیں اور اسی نسبت سے انہیں اناطولین ایگل مشقوں کا نام دیا گیا۔ اگر ہم ان مشقوں کی تاریخ کے حوالے سے بات کریں تو ترکی کی حکومت اور ایئرفورس نے 2000ء میں اس بات کا فیصلہ کیا تھا کہ دوست ممالک کے ساتھ فوجی مشقوں کا انعقاد کیا جائے۔ 2001ء میں پہلی اناطولین ایگل یعنی اے ۱ی 01ء کا انعقاد ہوا جس میں ترکی اور امریکا نے فضائی مشقیں کیں۔ اس کے بعد ہر سال ان کا انعقاد ہونے لگا۔ 2004ء سے پاکستان کو بھی ان مشقوں کی دعوت دی گئی۔ اب تک ان مشقوں میں امریکا‘ جرمنی‘ فرانس‘ نیدرلینڈ‘ بلجیم‘ اردن‘ برطانیہ‘ سعودی عرب‘ اٹلی‘ متحدہ عرب امارت‘ سوئٹزرلینڈ‘ آذربائیجان‘ اٹلی‘ قطر‘ سپین‘ اسرائیل اور نیٹو نے حصہ لیا ہے۔ ان مشقوں میں نیٹو نے محدود پیمانے پر شرکت کی جبکہ کچھ ممالک نے بطور مبصر ان مشقوں میں شرکت کی جن میں جاپان‘ اردن‘ عمان‘ یوکرائن‘ بنگلہ دیش‘ بیلارُس‘ بلغاریہ‘ برکینا فاسو‘ عراق‘ کوسوو‘ جارجیا‘ سویڈن‘ ہنگری‘ رومانیہ اور نائیجیریا وغیرہ شامل تھے۔اگر ان مشقوں کے اغراض و مقاصد پر بات کریں تو ان فضائی مشقوں کا مقصد یہ ہے کہ زمانۂ امن میں جنگ کی تیاریاں مکمل رکھی جائیں۔ ان مشقوں سے پائلٹس کی استعدادِ کار میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کو جدید ٹریننگ کروائی جاتی ہے۔ دوست ممالک اپنے جنگی سازو سامان اور طیاروں کے ساتھ ان میں شرکت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی ٹیکنالوجی اور تجربے سے مستفید ہوتے ہیں۔ مشترکہ ایئر آپریشنز سے فضائی اور زمینی اہداف حاصل کیے جاتے ہیں۔
اس حوالے سے ترکی میں قائم بلیو ون ٹو تھری بلڈنگ میں نیشنل اور انٹرنیشنل فوجی اہلکار قیام کرتے ہیں‘ اس عمارت میں 260 کمرے ہیں۔ یہاں پر تمام شرکا کو ٹریننگ اور بریفنگ دی جاتی ہے۔ اب تک 43 اناطولین ایگل ٹریننگ سیشنز میں چودہ ممالک کے 35657 فوجی اہلکاروں نے 2960 ایئر کرافٹ کے ساتھ حصہ لیا ہے۔ اس بار ان مشقوں کا انعقاد قونیہ کی3 جیٹ بیسز پر ہوا جس میں پاکستان سمیت چار ممالک کے علاوہ نیٹو نے بھی شرکت کی۔ ان مشقوں کا آغاز 21 جون سے ہوا اور یہ 2 جولائی تک چلتی رہیں۔ حالیہ مشقوں کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ان مشقوں میں پاکستان کے ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے خصوصی طور پر شرکت کی اور ان مشقوں کا معائنہ کیا۔ ایئر چیف کو ترکی کی ایئر فورس کی طرف سے خصوصی بریفنگ دی گئی۔ ایئرچیف نے ایئر کریو کی تیاریوں اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو سراہا۔ اس موقع پر ایئرچیف مارشل ظہیر احمد سدھو نے کہا کہ یہ مشقیں دوست ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کے حصول میں معاون ثابت ہوں گی۔ پاکستانی ایئر چیف کا دورۂ ترکی نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ انہوں نے وہاں ترکی کے اہم فوجی حکام سے ملاقاتیں بھی کیں جن میں ترکی کے ڈیفنس انڈسٹری کے صدر ڈاکٹر اسماعیل، ملٹری الیکٹرونکس انڈسٹری کے حکام، ترک ایئر سپیس کے حکام کے علاوہ ترک ایئر فورس کے کمانڈر بھی شامل تھے۔ پاک فضائیہ کے سربراہ نے منسٹر آف ڈیفنس ہلوسائی ایکار اور ٹرکش جنرل سٹاف جنرل یاسر گولیئر سے ملاقاتیں کیں۔ اس دوران ہوا بازوں کی تربیت، باہمی تعاون اور عصرِ حاضر کے چیلنجز پر بات ہوئی۔ ایئرچیف مارشل کو دونوں فضائی افواج کے مابین باہمی تعاون اور تعلقات کے فروغ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں ترک آرمڈ فورسز کے لیجن آف میرٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ کمانڈر ترک فضائیہ جنرل حسن کوکاکیز نے پاک ایئر چیف کو تمغہ پیش کیا۔ پاک فضائیہ کے ترجمان کے مطابق‘ بعد ازاں ایئر چیف مارشل ظہیر احمد سدھو نے ترک فضائیہ کے سربراہ جنرل حسان کوچک یاوز سے بھی ملاقات کی جس دوران دونوں ممالک کی فضائی افواج کو عصرحاضر کے درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک دوسرے کی مہارتوں سے استفادہ کرنے اور باہمی تعاون کے فروغ پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس دوران پاکستان ایئر فورس اور ترک فضائیہ کے درمیان پائلٹس کی تربیت اور تبادلے پر بھی گفتگو ہوئی۔
اناطولین ایگل مشقوں میں ایئر کومبیٹ مینورنگ انسٹرومنٹیشن اور پوسٹ مشن سسٹم پر کام کیا گیا۔ اس کے ساتھ نئی تکنیک، جوائنٹ آپریشنل طریقہ کار کے ساتھ پائلٹس کو ٹریننگ کروائی گئی۔ پاکستان بلاک ٹو کے 5 جے ایف 17 تھنڈر اور ایک سی ون تھرٹی کے ساتھ ان مشقوں میں شریک ہوا تھا۔ آذربائیجان 2 مگ 29 اورایس یو 25 کے ساتھ مشقوں میں آیا۔ قطر کے چار رافیل طیارے اور نیٹو کے ایک E3A ان مشقوں کا حصہ بنے۔ ترکی کی ایئرفورس کے 38 ایف سولہ، ایک کے سی 135 ٹینکر ایئرکرافٹ، 6 سٹنگر ایئر ڈیفنس ٹیم اور جوائنٹ ٹاسک فورس نے ان مشقوں میں شمولیت اختیار کی۔ ترکی کی نیوی کے دو فریگٹس، 2 گن بوٹس، 2 فاسٹ اٹیک کرافٹس اور نیوی اہلکار بھی مشقوں کا حصہ تھے۔ ان مشقوں میں پائلٹس کے ساتھ تکنیکی عملہ اور ایئر ڈیفنس کے اہلکار بھی حصہ لیتے ہیں۔ جس جگہ ترکی ان مشقوں کا انعقاد کرتا ہے وہاں سویلین ایئر ٹریفک نہیں ہوتی‘ اس لئے پائلٹس بہت آرام سے مشقیں کرتے ہیں۔
2020ء میں کورونا کی وجہ سے ان مشقوں کا انعقاد نہیں ہوا تھا؛ تاہم اس بار تمام ایس او پیز کے ساتھ ان مشقوں کا انعقاد کیا گیا تھا جہاں پاکستان نے رافیل طیاروں کا معائنہ کیا‘ وہاں ترک میڈیا کے مطابق آذربائیجان نے جے ایف 17 تھنڈر کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی۔ پاکستان ایئر فورس بلاک ٹو کے جن 5 جے ایف 17 تھنڈر کے ساتھ ان مشقوں میں شریک ہوئی یہ پاک چین دوستی کا مظہر ہیں اور پاکستان یہ طیارے خود تیار کرتا ہے۔ 27 فروری 2019ء کے آپریشن سویفٹ ریٹوٹ کے بعد سے عالمی مارکیٹ میں جے ایف 17 تھنڈر کی مانگ میں بہت اضافہ ہوا ہے اور حال ہی میں یہ طیارے نائیجیریا کی ایئرفورس کا حصہ بھی بن گئے ہیں۔ پاکستان 2019ء سے جے ایف 17 تھنڈر کے ساتھ اناطولین ایگل مشقوں میں شریک ہو رہا ہے۔ قطر‘ آذربائیجان‘ ترکی اور پاکستان نے کامیابی کے ساتھ ان مشقوں میں حصہ لیا اور دو جولائی کو ان مشقوں کے اختتام پر ان میں حصہ لینے والے اہلکاروں کو اسناد سے نوازا گیا۔ تمام ممالک کے ترانے نشر ہوئے اور جنگی جہازوں نے فضائی کرتب کا مظاہرہ کیا۔ ان مشقوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ترک اور انگریزی زبانوں میں سٹیس‘ ٹویٹس اور ٹرینڈز بھی بنائے گئے۔
اس طرح کی مشقوں کا انعقاد حصہ لینے والے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے اور پاکستان خود بھی ایسی متعدد مشقوں کی میزبانی کرتا آیا ہے۔ ایسی مشقیں دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں‘ایک طرف ان سے عسکری قوت میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری طرف سفارتی تعلقات میں بہتری آتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے تبادلے اور نئے دفاعی خریداری کے معاہدے ہوتے ہیں جو ملکی دفاع کو مضبوط بنانے میں بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔