سیاحت کے آداب

ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کی وجہ سے حالیہ عرصے میں سیاحت کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے۔ اس حوالے سے میں نے ٹویٹر پر ''سپیس‘‘ کا انعقاد کیا اوراس نشست میں موضوعِ گفتگو یہ رہا کہ بطورِ سیاح ہمارے کیا حقوق اور کیا فرائض ہیں، اس ضمن حکومت کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور مقامی لوگ کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ٹویٹر فالورز سے اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ مثبت اور منفی‘ دونوں پہلوئوں پر بات چیت ہوئی۔ بطورِ سیاح جب بھی میں کہیں جاتی ہوں تو ان چیزوں کو بطورِ خاص مدنظر رکھتی ہوں کہ راستہ محفوظ ہے یا نہیں ، قیام و طعام کی سہولتیں کیسی ہیں اور کیا وہاں انٹرنیٹ موجود ہے؟ جب بھی مری‘ بھوربن کے علاوہ دوسرے سیاحتی مقامات پر جانا ہوتا ہے تو میں دیکھتی ہوں کہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تو نہیں؟ اچھے ہوٹلز دستیاب ہیں؟ مقامی لوگ سیاحوں سے من مانی قیمتیں تو وصول نہیں کرتے؟ اکثر جگہوں پر مارکیٹس میں ہائی کوالٹی چیزیں موجود نہیں ہوتیں اور انٹرنیٹ کے سگنل بھی نہیں آرہے ہوتے۔ انسان اس صورتحال میں پریشان ہوجاتا ہے۔ حکومت پرائیوٹ سیکٹر اور برانڈز کے ساتھ مل کر بہت اچھے طریقے سے سیاحتی مقامات کو اَپ گریڈ کرسکتی ہے؛ مالم جبہ کی مثال ہم سب کے سامنے ہے کہ ٹی ٹی پی نے اس جگہ کو اجاڑ کر رکھ دیا تھا۔ اب نہ صرف یہ جگہ محفوظ اور آباد ہے بلکہ یہاں پر فائیو سٹار ہوٹل بھی موجود ہے، چیئر لفٹ ہے اور سیاحوں کیلئے بھرپور تفریح کا سامان ہے۔ حکومت نے ایوبیہ میں ایک قدیمی سرنگ کو تزین و آرائش کے بعد سیاحوں کے لیے کھول دیا ہے۔ یہ سرنگ 1891ء میں انگریزوں نے تعمیر کی تھی۔ یہ ایک خفیہ راستہ ہے جو کتنا عرصہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا۔ ایوبیہ نیشنل پارک میں قائم اس سرنگ کو اب عام عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے اور یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ یہ سرنگ ایوبیہ کو ڈونگا گلی سے ملاتی ہے۔ نئے سیاحتی مقام عوام کیلئے کشش کا باعث ہوتے ہیں اور یہ حکومتی ریونیو میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ اسی طرح دیگر مقامات پر بھی کام ہونا چاہیے تاکہ سیاح نئے نئے مقامات پر جائیں اور پرانے سیاحتی مراکز پر سے لوڈ کچھ کم ہو۔
اس وقت مری‘ بھوربن اور سوات پر بہت لوڈ ہے۔ وہاں سب سے زیادہ سیاح ہوتے ہیں، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہ مقامات لوگوں کو نزدیک پڑتے ہیں حالانکہ اتنے ہی فاصلے پر دیگر بہت سے مقامات موجود ہیں مگر یا تو وہ ڈویلپ نہیں ہیں یا سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہیں جس کی وجہ سے لوگ مری اور سوات ہی کی طرف لپکتے ہیں۔ اس سے وہاں بھی بدنظمی پیدا ہوجاتی ہے‘ ٹریفک جام ہوجاتی ہے اور رہائش وغیرہ کی سہولتیں کم پڑجاتی ہے۔ دوسرے سیاحتی مقامات کو بھی تزین و آرائش اور بنیادی سہولتوں سے مزین کرکے عوام کیلئے کھولنا چاہیے۔ بہت سے مقامات شمالی علاقہ جات، سندھ ، پنجاب، کے پی اور بلوچستان میں حکومت کی توجہ کی منتظر ہیں۔ سیاح صرف یہ چاہتے ہیں کہ سڑک اچھی ہو، راستہ محفوظ ہو، قیام و طعام کی مناسب سہولتیں دستیاب ہوں، پیٹرول پمپس ہوں، ریسٹ ایریاز ہوں اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو تاکہ سیاح فوٹوگرافی کرسکیں‘ انٹرنیٹ پر وڈیوز اَپ لوڈ کرسکیں ، کوئی انہیں تنگ نہ کرے اور انہیں جان و مال کا تحفظ میسر رہے۔
تاہم جہاں سیاحوں کے بہت سے حقوق ہیں‘ وہاں ان کے کچھ فرائض بھی ہیں۔ سیاحوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی جگہ جائیں تو وہاں کی ثقافت کا خیال کریں اور مقامی لوگوں سے آداب سے پیش آئیں۔ مناسب اور مکمل لباس پہنیں اور معاشرتی اقدار کا خیال کریں۔ دوسرے سیاحوں کو تنگ مت کریں۔ جانے سے پہلے گاڑی کی ٹیونگ وغیرہ کرا لیں، پٹرول کی ٹینکی فل رکھیں اور سفر میں کھانے پینے کی اشیا بھی رکھیں۔ سیاحتی مقامات پر‘ بالخصوص جنگل وغیرہ میں آگ مت جلائیں‘ اس سے پورے علاقے میں آگ لگ سکتی ہے، باربی کیو کے لیے مختص جگہوں پر ہی کھانا وغیرہ پکائیں۔ جگہ جگہ کچرا مت پھیلائیں۔ مقامی لوگوں سے لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں۔ نیشنل پارکس میں کسی پودے یا جانور کو نقصان مت پہنچائیں۔ ممنوعہ علاقوں اور جانور، پرندوں کا شکار کرنے سے گریز کریں اور تمام پروٹوکولز کا مکمل خیال رکھیں۔ اونچی موسیقی ، رش لگانے اور سڑکیں بلاک کرنے سے پرہیز کریں اور کسی کی پرائیوٹ پراپرٹی میں داخل مت ہوں۔ یاد رکھیں کہ بہت سے سیاحتی مقامات پر اے ٹی ایم مشینیں کام نہیں کررہی ہوتیں‘ اس لیے کیش اور چیک بک وغیرہ اپنے پاس رکھ لیں کیونکہ بینک ہر جگہ میسر آ جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاحت سے قبل موسم کو ضرور چیک کریں، جیسے آج کل مون سون کا آغاز ہوچکا ہے تو شدید بارش میں سفر سے گریز کریں تاکہ لینڈ سلائیڈنگ سے محفوظ رہیں۔ اگر کہیں جانا مقصود ہے تو گاڑی کی رفتار کم رکھیں۔ ساتھ برساتی اور چھتری رکھیں اور ٹھہر ٹھہر کر سفر کریں۔ اگر کہیں طوفان وغیرہ آجائے تو کسی ریسٹ ایریا میں رک جائیں اور بارش تھمنے کے بعد سفر کا آغاز کریں۔ کوشش کریں کہ Casual کپڑوں میں سیاحت کریں، شلوار قمیص یا ٹریک سوٹ پہنیں‘ جوگرز پہنیں۔ بہت قیمتی چیزیں ساتھ مت لے کر جائیں جیسے جیولری وغیرہ، جتنا کم سامان ہوگا‘ آپ اتنی آسانی سے سیاحت کرسکیں گے۔ شاہراہوں پر غیر ضروری طور پر گاڑی روک کر راستہ بلاک مت کریں۔ پہاڑی علاقے میں صرف ٹریکس پر واک کریں اور پانی اور چھڑی ہمیشہ ساتھ رکھیں۔ ہرگز کسی بھی ویرانے میں مت جائیں، وہاں جنگلی جانوروں سے آپ کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ایسی جگہوں پر مت جائیں جہاں آپ کو راستہ بھول جانے کا اندیشہ ہو۔ جب دریائوں وغیرہ کے کناروں پر جائیں تو پانی میں ڈبکیاں لگانے سے پرہیز کریں کیونکہ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ پانی کا بہائو تیز ہونے کی وجہ سے کتنے ہی افراد ڈوب جاتے ہیں، اس لئے حفاظتی رکاوٹ کو عبور مت کریں۔ ایک ذرا سی غلطی آپ کی تفریح کو برباد کر سکتی اور ساری زندگی کا روگ بن سکتی ہے۔ ایک سیلفی کا جنون ہے جو کسی طور سیاحوں کو چین نہیں لینے دیتا۔ یہ جنون اکثر اوقات موت کے منہ میں لے جاتا ہے۔ ہرگز پہاڑوں کی چوٹیوں کے کنارے پر مت جائیں، دریائوں اور جھیلوں میں مت اتریں، سیلفی کے جنون میں موت کو دعوت نہ دیں، حفاظتی رکاوٹوں کو ہمیشہ مدنظر رکھیں۔
سیاحت میں مقامی اور عالمی‘ ہر طرح کی سیاحت آ جاتی ہے، ان میں آگے مزید شاخیں ہیں جن میں کلچرل، ایڈونچر، تعلیمی، مذہبی، بزنس، کھیلوں اور فیشن وغیرہ کی سیاحت ہے، اس کے علاوہ سفاری ٹورازم ، جیو ٹورزام، برڈ واچنگ، برف،سمندری اور دریا کی سیاحت وغیرہ ہیں۔ ان تمام شاخوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور حکومت کو مذہبی ثقافت پر کام کرنا چاہیے۔ جس طرح سکھ برادری کیلئے کرتارپور گوردوارہ بنایا گیا ہے‘ اسی طرح ہندو یاتریوں اور بدھ مت یاتریوں کے مذہبی مقامات کی تزین و آرائش کرکے ان کو پاکستان آنے پر راغب کیا جا سکتا ہے۔ مذہبی مقامات پر مکمل سکیورٹی اور قیام طعام کی بہتر سہولتیں اور انٹرنیٹ وغیرہ ہونا چاہیے۔ ٹور آپریٹرز، ٹریول ایجنسیز ، پبلک ٹرانسپورٹس، ہوٹلز اور کھانے پینے کے سپاٹ بہت زیادہ ہونے چاہئیں۔ اس کے ساتھ جو مختلف محکموں کے ریسٹ ہائوسز ہیں‘ ان کو بھی عام عوام کیلئے کھولا جائے کیونکہ ہر شخص مہنگے ہوٹلز افورڈ نہیں کرسکتا۔
سیاحوں کو چاہیے کہ دورانِ سیاحت بالخصوص خواتین اور فیملیز کا خیال رکھیں،اپنی وقتی خوشی کیلئے کسی کو ہراساں مت کریں۔ آپ تفریح گاہ میں اپنے خاندان کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ تفریح گاہوں میں کچرا مت پھیلائیں، جھولے مت توڑیں، خواتین کو مت گھوریں۔ چڑیا گھر میں موجود جانوروں سے فاصلہ رکھیں،ان کو چپس اور جوس وغیرہ مت دیں۔ ہر جگہ پر قواعد وضوابط اور ہدایات درج ہوتی ہیں‘ ان پر عمل کریں۔ اس وقت پاکستان میں خطرناک بھارتی کوروناویری اینٹ کے کیسز سامنے آ رہے ہیں‘ اس لیے حد درجہ احتیاط کریں، پُرہجوم جگہوں پر ماسک پہن کررکھیں اور لوگوں سے سماجی فاصلہ رکھیں۔ ہاتھ بار بار دھوئیں اور سینی ٹائزر کا استعمال کریں۔ سیاحت ضرور کریں لیکن خود کو قواعد و ضوابط کا پابند بنائیں اور مہذب شہری ہونے کا ثبوت دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں