تین عورتیں‘ ایک حقیقت

گھریلو تشدد ایک سنگین مسئلہ ہے جو پوری دنیا میں سرایت کرچکا ہے اور اس کے بہت ہولناک اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ پہلے خاندان والے مل کر رہتے تھے اور بچوں کی پرورش میں بہت سے لوگوں کا حصہ ہوتا تھا۔ ان کو نانا‘ نانی، دادا‘ دادی کا پیار، ماموں‘ چچا ‘تایا کی شفقت اور پھوپھو اور خالائوں کی توجہ اور محبت ملتی تھی۔ بچے جب محبتوں کے ماحول میں بڑے ہوتے تھے تو وہ بھی آگے چل کر محبتیں تقسیم کرتے تھے۔ پھر مشترکہ خاندانی نظام کو نظر لگ گئی۔ آج کل لوگ اپنے والدین‘ بزرگوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کم ہو گئی ہے‘اکثر ایک چھت تلے رہنے والے لوگ بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔ پہلے چھوٹوں کو بڑوں کا لحاظ تھا‘ بڑے ان کو اچھے برے کی تمیز دیتے تھے لیکن اب دونوں نسلوں میں بہت فاصلہ ہے۔ بچے کسی بری عادت میں مبتلا ہو جائیں تو گھر کے بڑوں کو پتا ہی نہیں چل پاتا کہ بچہ بری سوسائٹی کا شکار ہو گیا ہے۔ دین سے دوری نئی نسل کو منشیات اور بے راہ روی کی طرف لے کرجارہی ہے۔ اگر والدین اپنی بیٹیوں کے ساتھ بیٹوں کی تربیت پر بھی توجہ دیں تو معاشرتی بگاڑ پرکافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ شرعی قوانین مرد اور عورت‘ دونوں کیلئے ایک جیسے ہیں‘ دونوں کو اپنی نظر اور عصمت کی حفاظت کرنی ہے؛ تاہم ہمارے ملک میں عزت کا سارا بار لڑکی کے نازک کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے اور لڑکوں سے متعلق کہا جاتا ہے کہ ابھی ان کی عمر ہی کیا ہے‘ یہی تو دن ہیں ہنسنے کھیلنے اور موج کرنے کے‘ اسی چشم پوشی میں وہ جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔
ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ‘ اگر اس حد سے تجاوز کیا جائے تو یہ جرائم کو جنم دیتی ہے۔ اگر بلوغت کے بعد قانونی عمر کے مطابق‘ لڑکا لڑکی شادی کے خواہش مند ہیں تو ان کے نکاح میں تاخیر مت کریں۔ اگر کوئی خود کیریئر بنانے کا خواہاں ہے اور شادی میں تاخیر چاہتا ہے تو یہ الگ بات ہے لیکن مناسب وقت پر شادی معاشرے کو بہت سے جرائم سے بچا لے گی۔ شادی کیوں کی جاتی ہے؟ اس لیے کہ زندگی میں پیار‘ محبت‘ سکون آئے، اپنی نسل کو آگے بڑھایا جائے لیکن بہت سے لوگ شادی کے نام پر اپنے شریکِ حیات کا جینا حرام کردیتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ غرور‘ تکبر‘ احساسِ برتری اور دین سے دوری ہے۔ کچھ صورتوں میں ڈرگز اور دیگر بری عادات کی وجہ سے بھی ایسا ہوتا ہے کہ شادی جیسا حسین رشتہ خراب ہونا شروع جاتا ہے۔ کچھ افراد اپنے پارٹنر کے ساتھ وفادار نہیں ہوتے اور ان کی موجودگی میں بھی دوسرے لوگوں سے تعلقات استور کرلیتے ہیں۔ اس کاخمیازہ شریکِ حیات کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کچھ کیسز میں خواتین بے وفائی کرتی ہیں اور زیادہ تر مرد خواتین کو دھوکا دیتے ہیں۔ کبھی شادی کا وعدہ کرکے دھوکا‘ کبھی شادی کرنے کے باوجود دھوکا، ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ جس طرح وہ اپنے شوہر سے وفادار ہے‘ اس کا شوہر بھی اس کا ہی ہو کر رہے مگر کئی مرد ڈرگز کی عادت کا شکار ہوتے اور دوسری خواتین سے تعلق رکھتے ہیں۔ باہر اپنا دل ہر برائی سے خوش کرکے آتے ہیں اور گھر بیٹھی وفادار بیوی کو مارتے ہیں تاکہ احساسِ جرم مٹاسکیں۔ حال ہی میں گھریلو تشدد کے تین ایسے واقعات سامنے آئے کہ سب کے دل لرز کر رہ گئے۔
حیدر آباد کی قرۃ العین کو مبینہ طور پر اس کے شوہر عمر میمن نے قتل کیا۔ وہ بہت حسین و جمیل خاتون تھی اور اس جوڑے کے چار بچے تھے۔ عمر میمن شراب نوشی کی لت میں مبتلا ہے اور سوشل میڈیا پر موجود وڈیوز میں دیکھا جاسکتاہے کہ اس کے غیر خواتین کے ساتھ تعلقات تھے، وہ ان کے ساتھ ناچ گارہا تھا اورنشہ کر رہا تھا۔ قرۃ العین صرف 32سال کی تھی‘ خوبصورت‘ سلیقہ مند‘ چار بچوں کی ماں، جب اس کی لاش ملی تو اس کے جسم کی بہت سی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اس کی 9 سالہ بڑی بیٹی نے سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح اس کے باپ نے اس کی ماں کو قتل کیا۔ دس سالہ شادی میں عمر نے متعدد بار قرۃ العین پر تشدد کیا۔ یاد رکھیں کہ ہر قتل کے پیچھے کئی سالوں کا گھریلو تشدد ہوتا ہے، جو وہ عورت چپ کرکے سہتی رہتی ہے۔ اگر وہ فریاد کرتی بھی ہے تو سب اس کو چپ رہنے کا کہتے ہیں، کوئی اس کو میکے آنے کی اجازت نہیں دیتا۔ جب وہ مار کھاکھا کر مرجاتی ہے تو سب اس کیلئے انصاف کی دہائی دینے لگتے ہیں۔ عمر میمن کے گھر والے خاصے بااثر ہیں‘ یہ ہمارے نظام کا امتحان ہے کہ مرحومہ قرۃ العین کو انصاف ملتا ہے یا نہیں‘ البتہ اس شخص نے اپنا خاندان اپنے ہاتھوں سے تباہ کردیا۔ ماں کی موت‘ باپ کا جیل چلے جانا‘ چار بچوں کی زندگی ہمیشہ کیلئے تاریک ہوگئی۔ کاش کہ شوہر اپنے غصے پر قابو رکھتا‘ بری عادات کا شکار نہ ہوتا‘ اپنی بیوی کی قدر کرتا تو آج یوں اس کے خاندان کا شیرازہ نہ بکھرتا۔
دوسرا سانحہ کے پی کے علاقے پارا چنار میں پیش آیا‘ جہاں ایک نشئی شوہر رضا علی نے گھر میں فائرنگ کی جس سے اس کی اہلیہ بشریٰ بی بی جاں بحق اور بیٹی صائمہ اور بیٹا دانیال زخمی ہوگئے۔ صائمہ اس وقت ہسپتال میں ہے اور اپنی ماں کیلئے انصاف کی دہائی دے رہی ہے۔ زخموں کی وجہ سے وہ بولنے سے قاصر ہے‘ البتہ اس نے ٹویٹ کرکے اپنے خاندان کی کہانی سب کو سنائی اور انصاف کی اپیل کی۔ رضا اکثر اپنی بیوی کو مارتا تھا اور دیگر افراد کو بھی مارنے کی دھمکی دے چکا تھا۔ مرحومہ بشریٰ نے علیحدہ گھر لے رکھا تھا اور وہ خود ملازمت کرتی تھی کیونکہ اس کا خاوند اس کو خرچہ نہیں دیتا تھا۔ رضا پولیس میں کانسٹیبل اور نشے کا عادی ہے۔وہ تاحال گرفتار نہیں ہو سکا ہے۔ نشے اور غصے نے ایک اور گھر برباد کر دیا۔
تیسری لرزہ خیز واردات اسلام آباد میں ہوتی ہے، ظاہر جعفر‘ جو ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتا ہے‘ اپنی دوست نور مقدم‘ جو ایک سابق سفیر کی بیٹی ہے‘ کو گھر پر قید کر لیتا ہے اور جب وہ بھاگنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کو قتل کردیتا اور اس کا سر تن سے جدا کردیتا ہے۔ 27 سالہ نور کو اب دفنا دیا گیا ہے‘اس کے گھر والے اور دوست احباب سخت صدمے میں ہیں۔ وہ بہت پیار کرنے والی‘ نرم دل اور ملنسار لڑکی تھی۔ اس قتل میں ظاہر جعفر کا خاندان اور ملازم بھی برابر کے شریک بتائے جا رہے ہیں کیونکہ انہوں نے لڑکی کو قید سے بازیاب نہیں کرایا۔ اگر ملزم کو کوئی ذہنی یا دماغی مسائل ہیں‘ جیسا کہ بتایا جا رہا ہے‘ تو سوال یہ ہے کہ وہ گھرپر کیا کررہا تھا ؟اس کو تو بحالیٔ صحت سنٹر میں ہونا چاہیے تھا۔ پولیس کے مطابق قتل کے وقت وہ اپنے ہوش و حواس میں تھا۔ اس نے گرفتار کرنے والوں پر حملہ کیا جس کے بعد اسے باندھ دیا گیا۔ مجرم کو نفسیاتی مریض کے طور پرپیش کیا جا رہا ہے حالانکہ جو نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں وہ ظاہر جعفر کی طرح لیکچر نہیں دیتے‘ باہر گھومتے پھرتے نہیں۔ یہ شخص ایک سفاک قاتل ہے اور اسے سخت سزا ملنی چاہیے۔
سوشل میڈیا پر ان تینوں کیسز کو لے کر بہت غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ جسٹس فار نور، جسٹس فار قرۃ العین اور جسٹس فار صائمہ رضا کے ہیش ٹیگز اس وقت ٹرینڈ کررہے ہیں۔ اگر مذکورہ تمام کیسز میں یکسانیت تلاش کی جائے تو علم ہوتا ہے کہ تمام ملزمان کسی نہ کسی نشے کے عادی ہیں جس کی وجہ سے ان کا غصے پر قابونہیں رہتا، نیز یہ کہ وہ اس سے پہلے بھی متعدد بار گھریلو تشدد کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ گھریلو تشدد اس معاشرے کی وہ حقیقت ہے جس سے عمومی طور پر پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ عورت پر جسمانی و نفسیاتی تشدد‘ معاشی استحصال‘ بیوفائی اور الفاظ کے ذریعے سے کیاجانے والا ٹارچر گھریلو تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر کوئی عورت یہ شکایت کرے کہ اس کا شوہر یا سسرال والے اس پر تشدد کررہے ہیں تو اس بات کو رد یا نظر انداز مت کریں‘ یہی گھریلو تشدد آگے چل کر قتل کا باعث بن سکتا ہے۔ عورت کیلئے اپنی نجی زندگی پر بات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، وہ چپ چاپ ظلم و تشدد سہتی رہتی ہے اور کسی کو کچھ نہیں بتاتی، اس سے دوسرے کا حوصلہ بڑھتا ہے اور وہ اسے مزید ظلم و ستم کا نشانہ بناتا ہے۔ اس لئے خود پر اٹھنے والے پہلے تھپڑ کو ہی روک دیں اور اگر ایسا نہ کیا تو ساری زندگی ایک روگ بن جائے گی اور پھر ایک دن مرد کا غصہ اور نشے کی عادت ایک جیتی جاگتی لڑکی کو سوشل میڈیا کا ہیش ٹیگ بنا دے گی۔ گھریلو تشدد کو آہنی ہاتھوں روکیں‘ یہ کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں