بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آرایس ایس نظریے کے نہ صرف پیروکار ہیں بلکہ ان کی پالیسیوں میں بھی جا بجا اس فکر کی جھلک نظر آتی ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی سیاسی تربیت انتہاپسندوں نے کی ہے اور ان کا ایک ہی خواب ہے‘ اکھنڈ بھارت اور یہاں سے اقلیتوں کا خاتمہ‘ یہی وہ فسطائیت پر مبنی سوچ ہے جس کو لے کر مودی سرکار چل رہی ہے اور ہروہ اقدام کررہی ہے جس سے اقلیتوں کی نسل کشی جاری رہے۔ چاہے مسلمان ہوں یا سکھ‘ عیسائی ہوں یا دلت‘ سبھی مودی سرکار کے مظالم کا شکار ہیں۔ بھارت میں نچلی ذات کے ہندوئوں کے ساتھ بھی انسانیت سوز سلوک کیا جارہا ہے جن میں ویش اور شودر جیسی ذاتیں قابلِ ذکر ہیں۔ بھارت میں ذات پات کا ایسا نظام رائج ہے کہ نچلی ذات کے ہندو کو اونچی ذات کے ہندوئوں کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی، ان کی رہائش‘ کھانا‘ پانی یہاں تک کہ سب کے پانی کے کنویں اور نلکے بھی الگ ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسری ذات کے لوگوں پر ظلم ڈھایا جاتا ہے اور ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔
اس وقت طاقت ساری برہمن طبقے کے پاس ہے وہ نہ صرف اقلیتوں بلکہ نچلی ذات کے ہندوئوں کو بھی اپنی بربریت اور ظلم کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ آر ایس ایس،بھارتیہ جنتا پارٹی، بجرنگ دل، شیو سینا اور وشواہندو پریشد جیسی تنظیموں کے ذریعے خاص طور پر مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ بھارت کی موجودہ سیاسی قیادت میں زیادہ تر سیاستدان آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) سے تربیت یافتہ ہیں۔ یہ ایک نسل پرست‘ انتہا پسند دہشت گرد تنظیم ہے جس کا مقصد اقلیت دشمنی ہے اور ہندوستان سے ہندو مذہب کے سوا دیگر مذاہب کا خاتمہ ہے۔ بھارت کے فادر آف دی نیشن موہن داس گاندھی کو قتل کرنے والا نتھورام گوڈسے بھی آر ایس ایس کا کارکن تھا۔ اکھنڈ بھارت کا خواب ان کو چین نہیں لینے دیتا اور نہ صرف اپنے ملک کے اندر بلکہ ہمسایہ ممالک میں بھی یہ ایسی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں جس سے انہیں اذیت و تکلیف کا شکار رکھا جائے۔ اس وقت بھارت کی کسی ایک بھی سرحد پر امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ بھارت ایک طرف نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ تنازعات رکھتا ہے تو دوسری چین اور پاکستان ہیں جن سے یہ باقاعدہ جنگیں بھی لڑ چکا ہے اور حالت یہ ہے کہ خود بھارت کے اندر علیحدگی کی کم و بیش ڈیڑھ درجن بڑی تحریکیں چل رہی ہیں۔
جب بھارتی برہمن سے کچھ بن نہیں بن پڑتاتو مظلوم اور نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ تقسیمِ ہندوستان کے وقت سے جموں اور کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہشمند ہیں؛ تاہم ڈوگرا راجا اور کانگریس کے لیڈران کی سازشوں کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔ بھارت نے اپنی فوجیں وہاں بھیج کر ریاستِ جموں و کشمیر پر زبردستی قبضہ کر لیا جس پر پاکستان نے مزاحمت کی اور فوج اور قبائلی لشکروں کو کشمیر میں داخل کر دیا۔ جب پاکستانی افواج اور قبائلی مجاہدین نے کشمیر کا کچھ حصہ آزاد کرالیا تو بھارتی حکومت دہائی دیتی ہوئی اقوام متحدہ پہنچ گئی جس کے تحت ریاستِ کشمیر میں جنگ بندی عمل میں لائی گئی اور فیصلہ ہوا کہ ریاست میں ریفرنڈم کروایا جائے گا کہ وہاں کہ عوام پاکستان یا بھارت‘ کس کے ساتھ الحاق کے متمنی ہیں مگر وہ دن اور آج کا دن‘ جموں و کشمیر کے ایک بڑے حصے پر بھارت قابض ہے اور کشمیر کے عوام پر ظلم ڈھا رہا ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کشمیر کے عوام کا بنیادی حق ہے اور اس کی ضمانت عالمی اداروں نے دے رکھی ہے مگر بھارت ہے کہ اس سے سرے سے انکاری ہو گیا ہے اور بزور کشمیر پر اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ پاکستان نہ صرف روزِ اول کی طرح آج بھی کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے بلکہ اس تنازع کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین 4 جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔
خواتین کی عصمت دری، نوجوانوں کا اغوااور قتل، نہتے عوام پر گولیوں اور پیلٹ گنوں کی فائرنگ، ان کی املاک پر قبضہ اور گھروں کو نذرِ آتش کرنے سمیت وہ کون سا ظلم ہے جو بھارت نے کشمیریوں پر روا نہیں رکھا ہوا؟ 14 فروری 2019ء کو بھارت سرکار نے خود ہی پلوامہ میں ایک ڈرامہ رچایا، اپنے فوجی مروائے اور اس کا الزام پاکستان پر دھر دیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں انڈین فوجیوں کو لے کر جانے والے قافلے سے ایک گاڑی ٹکرائی جس میں دھماکا خیز مواد تھا۔ بھارتی میڈیا اور حکومت نے پہلے اس کا ماسٹر مائنڈ عبد الرشید غازی کو قرار دیا‘ وہی عبدالرشید غازی جو 2007ء کے لال مسجد آپریشن میں جاں بحق ہوگئے تھے، جب مجھ سمیت سوشل میڈیا صارفین نے ٹویٹ کرکے اس کی نشاندہی کی تو نہ صرف بھارتی چینلز نے یہ خبر ڈیلیٹ کردی بلکہ پھر مودی کے گودی میڈیا نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ حملہ مقبوضہ کشمیر کے ایک نوجوان عادل ڈار نے کیا ہے۔ اس کی جو تصویر بھارتی میڈیا پرنشر کی گئی‘ اس کو دیکھ کر صاف پتا چل رہا تھا کہ یہ ایک فوٹو شاپڈ تصویر ہے۔ میں نے خود بھی ٹویٹ کیا کہ اس تصویر کو فوٹو شاپ کیا گیا ہے اور عادل ڈار کے ساتھ جو دھڑ جوڑا گیا ہے‘ وہ ایک برازیلی گارڈ کا ہے اور یہ بہت مشہور برازیلی گارڈ تھا‘ جسے برازیل کا سب سے ہینڈسم گارڈ قرار دیا گیا تھا۔ میرے اس ٹویٹ کو وزارتِ خارجہ نے عالمی مراسلوں کا حصہ بھی بنایا۔غرضیکہ یہ ایک فالس فلیگ آپریشن تھا اور بھارت نے اپنے فوجی خود مروائے تاکہ الزام پاکستا ن پر لگاکر اندرونِ بھارت مودی حکومت کی بڑھتی ہوئی مخالفت کو کم کر سکے۔
اسی حملے کو بنیاد بنا کر بھارت نے پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں جابہ کے مقام پر پے لوڈ گرایا اور اسے سرجیکل سٹرائیک کا نام دیا۔ اس کے بعد 27فروری کو دن کی روشنی میں پاک فضائیہ نے بھارت کے مگ 21اور سو تھرٹی طیارے مار گرائے۔ دنیا بھر میں بھارت کو سخت خفت اٹھانا پڑی۔ اس ہار کا بدلہ بھی مودی سرکار نے کشمیریوں سے لینے کی ٹھانی اور 1956ء میں جموں و کشمیر کو خصوصی حقوق دینے کی غرض سے بنائے گئے آرٹیکل 370کو ختم کر دیا۔ 80 لاکھ سے زائد کشمیریوں پر یہ خبر بجلی کی طرح گری۔ وادی میں کرفیو نافذ کردیا گیا اور انٹرنیٹ اور فون کی سہولت ختم کردی گئی۔ کشمیریوں کا پوری دنیا سے رابطہ کٹ گیا۔ اس کے بعد ان پر وہ مظالم ڈھائے گئے کہ جدید تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ کشمیری رہنمائوں کو نظربند کردیا گیا،تعلیمی ادارے کیا‘ ہسپتال تک بند ہوگئے۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے‘ بازار جبری طور پر بند کرادیے گئے۔ کرفیو تو اتنی بار لگایا گیا ہے کہ مقبوضہ وادی میں ایک نسل کرفیو میں ہی پیدا ہوئی‘ کرفیو میں ہی جوان ہوئی اور ایک نسل کرفیو کے دوران ہی دنیا سے گزر گئی۔پوری وادی ایک جیل کی صورت اختیار کرگئی مگر کشمیریوں کے حوصلے کو شکست نہیں دی جا سکی۔ انہوں نے گولیاں‘ لاٹھی چارج‘ قید و بند سمیت ہر صعوبت برداشت کی‘ ہر مظاہرے میں پاکستان کا پرچم لے کر آئے اور پاکستان کے ساتھ اپنی عقیدت اور محبت کا اظہارکیا۔ آج آرٹیکل 370 اور35اے کو ختم ہوئے دو سال ہوچکے ہیں اور عالمی دنیا کی خاموشی بے حسی کے مترادف ہے۔ اب مقبوضہ وادیٔ کشمیر کا ریاست کا درجہ ختم کرتے ہوئے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ۔ 35اے ختم کرنے سے یہ ہوا کہ اب تمام بھارتی مقبوضہ وادی میں جائیداد خرید سکتے ہیں اور یہ اقدام وادی میں مسلم آبادی کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ ہندوئوں کی کشمیر میں آبادکاری‘ انہیں بزنس اور جائیداد کے لئے سستے نرخوں پر زمین کی فراہمی کا مقصد یہی ہے کہ کشمیریوں کے مال وجا ئیداد پر قبضہ ہوسکے‘ بالکل ایسے ہی جیسے اسرائیل نے فلسطین کے ساتھ کیا۔
دنیا بھر میں پاکستانی اور کشمیری آج یومِ سیاہ اور یومِ استحصال منائیں گے۔ کشمیر کونسل برائے اقتصادیات کے مطابق دو سالوں میں کشمیریوں کا کروڑوں کا نقصان ہوا ہے‘ مقبوضہ وادی میں کاروبار اور صنعتیں تیزی سے ختم ہورہی ہیں‘ بیروزگاری انتہا کی حد تک بڑھ چکی ہے۔ اس وقت مقبوضہ وادی میں کشمیری محکوم ہیں‘ ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں‘ وہ صحت، تعلیم اور بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کو اس کا نوٹس لینا ہو گا اور اپنی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے کروانا ہو گا تاکہ کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہو سکے۔