تبدیلی نظر کیوں نہیں آرہی؟

پی ٹی آئی حکومت کو تین سال مکمل ہوگئے ہیں۔ حکومت کی تین سالہ کارکردگی سے متعلق ایک بڑی تقریب کا انعقاد ہوا‘ خوب تقاریر ہوئیں، نغمے گائے گئے اور عوام کو بتایا گیا کہ ملک میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ ہال میں اے سی چل رہے تھے، کارکنان پُرجوش ہوکر نعرے مار رہے تھے، لیڈران کے چہرے پر فخر تھا اور مسکراہٹ بھی۔ اس ٹھنڈے ہال سے کچھ دور میں ٹریفک میں پھنسی ہوئی تھی،وہیں پاس نادار کے ایک دفتر کے باہر نظر پڑی جہاں شدید دھوپ میں کھڑے افراد اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔اتنی گرمی تھی کہ ہر گاڑی تک جھلس رہی تھی۔ وہ لوگ نجانے کب سے لائن میں لگے تھے اور کب تک لگے رہے‘ کسی کو کوئی فکر نہیں تھی۔ اتنا انتظام نہیں ہوسکتا کہ ان کو چھائوں میں یا پنکھے کی ہوا میں بٹھا دیا جائے۔ حکومتی ایوانوں کی اونچی دیواروں سے عوام کی آوازیں اور تکالیف کی دہائیاں اندر نہیں جاتیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا ٹیم حکمرانوں کے سامنے جو صورتحال پینٹ کرتی ہے‘ حکمران اسی کو من و عن سچ مان لیتے ہیں۔ جہاں یہ فتح کا جشن منایا جارہا تھا‘ اس سے کچھ فرلانگ پر بہت سے لوگ شناختی کارڈ کے لیے گرمی اور حبس کے موسم میں لمبی لائنوں میں لگے ہوئے تھے۔ عوام کی مگر کس کو پروا ہے؟ اس سے کچھ دور‘ ایک چھوٹا سا پارک اجڑے ہوئے چمن کا منظر پیش کررہا تھا۔ اسلام آباد کے بہت سے پارکوں کو اس وقت نئے جھولوں کی ضرورت ہے‘ وہاں گھاس کاٹ کر واک کرنے والی جگہ کو پکا کیا جانا چاہیے تاکہ نوجوان اور بچے موبائل فون سے باہر آئیں اور صحت مندانہ مشاغل اپنائیں۔ مگر کھلاڑی وزیراعظم کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ کھیل کے میدانوں کی طرف بھی دیکھیں۔ 22 کروڑ کی آبادی والے ملک کا یہ حال ہے کہ اولمپک گیمز میں ایک تمغہ نہیں جیت پاتے۔ پچھلے تین سال میں ہی کچھ توجہ دے دی جاتی تو کھیلوں کی ترویج بھی ممکن ہو پاتی۔ ہمارا قومی کھیل ہاکی تک تباہ ہوگیا مگر کسی کو پروا نہیں۔
ٹریفک کے بے ہنگم سیلاب اور گرمی کی شدت میں مَیں نے سڑک کنارے چھوٹے بچوں کو غبارے اور اخبار بیچتے ہوئے دیکھا‘ وہ جن کوسکول یونفارم میں ہونا چاہیے تھا‘ کندھے پر بستہ اور ہاتھ میں قلم و کتاب ہونے چاہئیں تھے‘ وہ گاڑیوں کے شیشے بجا بجا کر اشیا بیچ رہے تھے۔ کچھ دور گداگر بھی تھے جو ہاتھ پھیلا پھیلا کر بھیک مانگ رہے تھے۔ کیا حکومت کو غربت اور بیروزگاری نہیں نظر آتی؟ کورونا کی وبا کے باعث اس طوفان میں کافی شدت آئی ہے مگر حکومت ہے کہ ترسیلاتِ زر اور تجارتی خسارے کی کمی پر شادیانے بجا رہی ہے۔
مجھے ای الیون جانا تھا‘ اس سے متصل کچی بستی کی ایک الگ ہی دنیا ہے کیونکہ نہ یہاں صا ف پانی میسر ہے نہ صحت کی سہولتیں۔ کچی گلیاں‘ ٹوٹے گھر اور ابلتی نالیاں۔ آدھے ننگے بچے گلیوں میں گھوم رہے تھے، ایک بچہ رو رہا تھا‘ ساتھ ہی ساتھ ٹائر گھما کر بھاگ رہا تھا۔ دوسرا بچہ بہتی ناک صاف کررہا تھا‘ میں دونوں کو غور سے دیکھ رہی تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ دونوں شرماتے ہوئے ہنسنے لگے اور میں بھی زیرِ لب مسکرا دی۔ غربت بھی ان سے زندہ دلی نہیں چھین سکی۔ وہیں ایک ہینڈ پمپ سے کچھ لوگ پانی بھررہے تھے جس میں سے گدلا سا پانی نکل رہا تھا۔ ایک پھل فروش مکھیوں سمیت پھل فروخت کر رہا تھا۔ حبس‘ گرمی‘ بدبو‘ تعفن، ہر طرف کچرا پھیلا ہوا تھا، یہاں سے متصل پوش سیکٹرز‘ ایف الیون وغیرہ کا وہ حصہ جو اس آبادی کے ساتھ لگتا ہے‘ ادھر بھی خالی میدانوں میں کچرے کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔
اس کے بعد سستا بازار مرکز میں جانا ہوا‘ پھل اور سبزیاں اتنے مہنگے تھے کہ کانوں کو ہاتھ لگائے۔ اگر یہ سستا بازار ہے تو نارمل بازار میں کیا ریٹ ہوں گے؟ اب ہر وقت تو انسان سبزی منڈی یا سستا بازار جاکر خریداری نہیں کر سکتا۔ لوگوں قریبی دکانوں، مارکیٹوں سے ہی خریداری کرتے ہیں مگر اس وقت سبزی، پھل، دال، مرغی اور گوشت کی قیمتوں کو جیسے پر لگے ہوئے ہیں۔ ایک طرف مہنگی گاڑیاں سڑکوں پر رواں تھیں تو دوسری طرف غریب مزدور سڑک کنارے بیٹھے انتظار کررہے تھے کہ کب کوئی انہیں دیہاڑی پر ساتھ لے جائے۔ میں نے سبزی والے سے پوچھا: سبزی اتنی مہنگی کیوں کردی ہے؟ وہ کہنے لگا: باجی پیچھے سے ہی مہنگی آتی ہے‘ ہم کیا کریں، اپنا ذرا سا پرافٹ نکالنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ میں نے کہا: آج حکومت کو تین سال ہوگئے ہیں‘ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ بہت تبدیلی آئی ہے، وہ تو تقریب کررہے ہیں‘ جشن منارہے ہیں۔ دکاندار بولا: باجی یہ کیسی تبدیلی ہے جو نظر نہیں آرہی؟ میں نے کہاـ: کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں۔ وہ کہنے لگا: کورونا کے دوران اتنی مہنگائی ہوئی کہ اشیائے ضروریہ ہاتھ سے نکل گئیں، کبھی سبزی بک جائے تو ہم پیٹ بھر کرکھالیتے ہیں‘ ورنہ بھوکا ہی سونا پڑتا ہے۔
میں گھر لوٹ کر آئی تو بوجھل دل کے ساتھ کہ یہ کیسی تبدیلی ہے جو نظر نہیں آرہی۔ کہہ تو سبزی فروش بالکل ٹھیک رہا تھا۔ اگر دارالحکومت میں کچی بستی کے حالات ایسے ہیں، مہنگائی اتنی زیادہ ہے، بچے سڑکوں پر مشقت کررہے ہیں، مزدور مزدوری کا انتظار کررہے ہیں تو تبدیلی کہاں اور کس کے لیے آئی ہے؟ دل گرفتہ ہوکر یہ سب لکھنا شروع کیا تو اُس لسٹ پر نظر پڑ گئی جس میں ان معزز افراد کے نام شامل تھے جن کو حکومت نے تمغے دینے کا اعلان کیا تھا۔میں یہ لسٹ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ کورونا واریئرز کے نام اس لسٹ میں شامل نہیں تھے۔ ڈاکٹرز‘ میڈیکل سٹاف‘ نرسز‘ ادویات ساز کمپنیاں‘ ان کے ملازمین‘ میڈیکل سٹورز اور ویکسین لگانے والوں نے اس دوران دن رات کام کیا مگر ان کو کوئی تمغہ نہیں مل رہا، ان کو کوئی نہیں سراہ رہا۔ 200 سے زائد ڈاکٹرز اس وبا میں لقمۂ اجل بن گئے‘ پیرا میڈیک سٹاف اور دیگر طبی عملہ اس کے علاوہ ہے‘ ایک الگ تمغہ انائونس کرکے حکومت کو شہید اور غازی عملے کو ایوارڈز دینے چاہئیں، اس کے علاوہ این سی او سی، مسلح افواج‘ خاص طور پر پاک فضائیہ، پولس اور میڈیا کے افراد کو بھی کورونا کے دوران خدمات سرانجام دینے پر تمغہ ملنا چاہیے مگر شاید حکومت بہت مصروف ہے‘ اسے اقتدار کے تین سال مکمل ہونے کا جشن منانا ہے۔
حکومت کے تین سال پورے ہوگئے مگر تبدیلی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ اس وقت عوام غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ کتنے ہی لوگ کورونا کی وبا میں دیوالیہ ہوگئے لیکن حکومت نے ایسا کوئی ڈیٹا نہیں تیار کیا کہ جس سے علم ہو سکے کہ کتنے لوگ کورونا کی وبا میں لقمہ اجل بن گئے‘ کتنے خاندانوں کا دیوالیہ نکل گیا، کتنے لوگ معاشی طور بدحال ہوئے‘ حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی جن سے ان کا ازالہ ہو سکے، ان کی داد رسی تک نہیں کی گئی۔ لال حویلی راولپنڈی کے عقب میں قدیم اردو بازار جل کر خاکستر ہوگیا‘ آج تک تاجروں کو حکومت سے ایک روپے کی امداد نہیں ملی۔ اگر یہ واقعی نیا پاکستان ہوتا تو کم ازکم آگ میں اپنا سب کچھ کھو دینے والوں کو کچھ تو امداد ملتی۔ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے صرف جھوٹے وعدے کیے، تاجر سڑکوں پر آ گئے، فاقوں تک کی نوبت آگئی لیکن کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
اب خواتین پر حملوں میں اضافہ ہورہا ہے‘ اتنی شدت پسندی کہاں سے آ گئی ہے ‘ اس پر بھی کوئی بات نہیں ہورہی۔ پچھلے چند دنوں سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر حکومت کے تین سالوں کے حوالے سے کمپین چل رہی ہے، سوشل میڈیا ٹرینڈز بنائے جا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بجلی و گیس مہنگی ہوگئیں‘ پٹرول 120 روپے لیٹر ہوگیا، چینی 105 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے، اسی ہفتے دودھ‘ دہی اور چکن کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران دوائیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا‘ ایک دوا جو وینٹی لیٹر پر پڑے مریض کی جان بچانے کے کام آتی ہے‘ کی قیمت میں لاکھوں روپوں تک میں چلی گئی۔ ملک پر اس وقت قرضوں کا حجم 24 ہزار 310 ارب روپے ہوگیا ہے۔ اس سال مالیاتی خسارہ 7.1 فیصد رہا۔ اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے 2 ہزار ارب روپے کا اندرونی قرضہ لیا گیا۔ 3 برس میں قرضوں میں 13 ہزار ارب سے زائد کا اضافہ ہوا، پھر بھی فتح کا جشن منایا گیا، نغمے گائے گئے، خوشیاں منائی گئیں۔ اس وقت میرے ہاتھ میں تین افراد کی سی ویز ہیں‘ ان کو جاب چاہیے‘ ایک خاتون اور دو مرد ہیں یہ پچھلے کئی ماہ سے بیروزگاری کاٹ رہے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے افرادہیں لیکن میرے سرکل میں کہیں کوئی جاب نہیں ہے کہ ان کو کام مل جائے۔ ہائے ری تبدیلی‘ کدھر ہے تُو!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں