ہم جب چھوٹے تھے تو ایک بات مشہور تھی کہ ڈاکٹرعبد القدیرخان کے کئی ہم شکل ہیں اور اکثر تقریبات میں وہ خود نہیں‘ ان کے ہم شکل آتے ہیں کیونکہ یہ سکیورٹی رسک ہے۔ ہم بچوں کیلئے وہ ایک سپر ہیرو کی مانند تھے۔ جب ایٹمی دھماکے ہوئے تو ہمارے سکول میں اس خوشی میں ایک تقریب کا انعقاد بھی کیا گیا، اس کے بعد سے ہر تقریب میں ہم چاغی کا ماڈل بناتے‘ کبھی غوری میزائل اور ساتھ ڈاکٹر اے کیو خان کی تصویر چسپاں کردیتے۔ وہ ہمارے لیے دیومالائی کہانیوں کا ایک کردار تھے‘ ایک ایسا ہیرو جو سب کچھ ٹھیک کرکے پورے ملک کو بچا لیتا ہے۔ جب کوئی بچہ کسی تقریب میں ان سے ملنے میں کامیاب ہوجاتا تو کوئی بچہ بھی اس کی بات پر یقین نہیں کرتا تھا، سب کہتے تھے کہ وہ اُن کا ہم شکل ہوگا‘ یہ اصلی والے ڈاکٹر اے کیو خان نہیں ہوں گے‘ اصل سائنس دان کو تو سات پہروں میں رکھا جاتا ہے۔ سکول میں بچے کہتے تھے: وہ ایک بہت بڑے محل میں رہتے ہیں‘ جس میں تہ خانے اور خفیہ سرنگیں ہیں‘ صرف ایک الارم پر جہاز ان کو لے کر اڑ جائے گا‘ وہ ایک بہت بڑی لیب میں کام کرتے ہیں، ان کے پاس روبوٹس بھی ہیں، غرض اس طرح کی بے شمار باتیں ہم بچوں میں مشہور تھیں۔ خیر یہ تو بچپن کی باتیں تھیں لیکن وہ ہمارے ہیرو تھے‘ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر بھوپا ل میں پیدا ہوئے‘ تقسیم کے بعد وہ 1952ء میں پاکستان منتقل ہوگئے‘ کراچی سے ماسٹرز کرنے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کیلئے یورپ چلے گئے اور جرمنی اور پھر ہالینڈ سے تعلیم حاصل کی۔ 1972ء میں انہوں نے ہالینڈ سے پی ایچ ڈی کی اور وہیں پر ایک ڈچ خاتون سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے‘ ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ میٹلروجیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کرنے بعد انہوں نے ہالینڈ میں فزیکل ڈائنامکس ریسرچ لیب جائن کرلی؛تاہم ان کے دل میں وطن کی خدمت کی خواہش ہر وقت موجزن رہتی۔ وہ 1976ء میں واپس پاکستان آگئے اور پاکستان کی انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کا حصہ بن گئے۔ 1981ء میں اس لیب کا نام تبدیل کرکے ڈاکٹر اے کیوخان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا گیا۔ ڈاکٹر قدیر نے اَنتھک محنت کی۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ ایٹم کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنایا جائے۔ پھر 28 مئی کا وہ سورج طلوع ہوا جب ساری دنیا انگشت بدنداں رہ گئی اور پاکستان دنیا کی ساتویں اورعالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔ اس وقت پاکستان پر بہت دباو تھا کہ دھماکے نہ کیے جائیں وگرنہ اقتصادی پابندیاں لگا دی جائیں گی لیکن اس وقت کی حکومت اور عسکری حکام نے ہر قسم کا دبائو مسترد کردیا اور پاکستان نے اپنی جوہری قوت سے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا۔
ڈاکٹر قدیر یورپ میں پندرہ سال رہے‘ وہاں وہ اچھا خاصا کما رہے تھے لیکن وطن کی محبت نے ان کو چین نہیں لینے دیا اور وہ اپنی بیگم ہنی قدیر اور بچیوں کے ہمراہ پاکستان آگئے۔ جس ہیرو نے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنایا اور اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اس کام میں صرف کر دیا‘ اس پر ایٹمی دھماکے ہونے کے بعد بہت کڑا وقت آیا‘ ان پر یہ الزام لگا کہ انہوں نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے غیرذمہ دارانہ پھیلائو میں حصہ لیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اس بات کو جھٹلاتی مگر اس وقت کی مشرف حکومت نے ان الزامات کو درست مان کر ان کو پابندِ سلاسل کردیا۔ اپنے قریبی رفقا کے سامنے وہ اکثر ایک شعر پڑھا کرتے تھے ؎
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
پرویز مشرف کا دور ان پر بہت کٹھن گزرا، جب میری ان سے بطور رپورٹر ملاقات ہوئی تو وہ 'قید‘ میں تھے۔ ہمیں یہ اطلاع ملی تھی کہ ان کی نظر بندی ختم کردی گئی ہے۔ میں اور میری ساتھی رپورٹر ان کی رہائش گاہ پر پہنچے تو پتا چلا خبر غلط تھی۔ سکیورٹی اہلکار ہمیں ان سے ملنے نہیں دے رہے تھے۔ مجھے اس پر بہت افسوس ہوا کہ ہم محسنِ پاکستان سے نہیں مل سکے اور ان کے ساتھ یہ ناروا سلوک کیا گیا۔ اتنے میں وہ باہر آگئے‘ میں نے پہلی بار انہیں دیکھا تو دم بخود رہ گئی۔ طویل قامت‘ اپنے مخصوص لباس میں وہ متانت کے ساتھ باہر آئے، وہ کافی نحیف لگ رہے تھے‘ بال سفید ہوگئے ہوئے تھے۔ ہمیں کہنے لگے: بیٹا معذرت میں آپ لوگوں کو انٹرویو نہیں دے سکتا۔ ہمارے درمیان آہنی گیٹ حائل تھا‘ میں نے ایڑی اونچی کرکے ہاتھ اوپر کیا اور مصافحے کیلئے بڑھا دیا۔ میرا قد چھوٹا اور گیٹ بڑا تھا؛ تاہم انہوں نے مجھ سے اور میری ساتھی نورین سے مصافحہ کیا۔ ہم بے حد خوش ہوئے۔اگرچہ میں کسی مرد سے مصافحہ نہیں کرتی لیکن اس وقت ہمارے سامنے ایک ایسی شخصیت تھی جو باپ کا درجہ رکھتی تھی‘ جو اس ملک کی شان اور محسن تھی۔ اس کے بعد انہوں نے کہا: ٹھہرو بچیو! میں چائے‘ پانی باہر بھجواتا ہوں مگر ہم نے مسکراتے ہوئے ان سے معذرت کی اور کہا کہ بس آپ کو دیکھ لیا ہے‘ یہی کافی ہے۔ ہم واپس آفس چلے آئے۔ یہ سوچ کر آج بھی خوشی ہوتی ہے کہ ان سے ملاقات ہوئی لیکن دکھ بھی ہوتا ہے کہ اپنے محسن کے ساتھ ہم نے کیسا سلوک کیا۔
ڈاکٹر قدیر پر الزام تھا کہ انہوں نے جوہری ٹیکنالوجی کو ایران، لیبیا، شمالی کوریا وغیرہ منتقل کیا اور ان سے سرکاری ٹی وی پر ایک اعتراف بھی کروایا گیا۔ان الزامات اور اعتراف کی حقیقت سبھی جانتے ہیں‘ لہٰذا اس پر مزید بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ وہ یہ سچ سب کے سامنے لائیں گے کہ انہوں نے اعترافی بیان کیوں اور کس کے کہنے پر دیا تھا‘ انہوں نے کہا کہ ملک اگر ایک آدمی کے بیان سے بچ جائے تو یہ بہتر ہے۔ البتہ ریاستی سطح پر ان سے جو سلوک کیا گیا‘ وہ کسی طور مناسب نہیں تھا۔ وہ ایک اچھی جاب اور محفوظ مستقبل چھوڑ کرپاکستان آئے تھے اور یہاں انہیں عزت بھی کافی ملی۔ بھٹو، ضیا، بینظیر اور نواز شریف کے پہلے ادوار میں ان کی بہت پذیرائی ہوئی۔ ہلالِ امتیاز اور دو مرتبہ نشانِ امتیاز سے نوازا گیا‘ کروڑوں لوگ ان کے مداح تھے لیکن نظربندی کے دوران انہوں نے بہت سے مصائب اور بیماری کا سامنا کیا۔ پانچ سال وہ نظر بند رہے‘ اس کے بعد عدالت نے ان کی نظر بندی کے خاتمے کا فیصلہ دیا مگر اس کے باوجود ان کی نقل و حرکت پر کڑا پہرا رہا۔ وہ گزشتہ کافی عرصے سے علیل تھے‘ ان کو کورونا کا مرض بھی لاحق ہوا اور وہ ٹھیک ہو کر گھر منتقل ہو گئے مگر مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو سکے۔ 9 اکتوبر کو رات ان کی اچانک طبیعت بگڑ گئی جس پر انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں دس اکتوبر کو وہ خالقِ حقیقی سے جاملے۔ جب ان کی وفات کی خبر آئی تو بہت سے لوگ ان کی نمازِ جنازہ کیلئے نکل آئے اور اسلام آباد میں ٹریفک جام ہوگیا۔ اس دوران میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو دن میں اندھیرا ہوگیا تھا اور بہت تیز بارش شروع ہوگئی؛ اگرچہ مغرب کی طرف سورج بارش کے باوجود موجود تھا لیکن عجیب سا موسم اور وقت تھا کہ ایک طرف سیاہ بادل اور موسلا دھار بارش جبکہ دوسری طرف سورج اور ایک عجیب سی اداسی تھی۔تدفین کے وقت اسلام آباد میں اتنی تیز بارش ہو رہی تھی کہ آنکھ کچھ فاصلے پر دیکھنے سے بھی قاصر تھی ؛ تاہم عوام کی بڑی تعداد اپنے محسن کو الوداع کہنے آئی تھی۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
یہ شعر جب سوشل میڈیا پر دیکھا تو دل غم و رنج سے بھر گیا۔ ملک کی اہم شخصیات نے ان کی تدفین میں شرکت نہیں کی‘ کیا اعلیٰ حکام کا یہ فرض نہیں بنتا تھا وہ ان کو خود لحد میں اتارتے؟ میری آپ سب سے گزارش ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ایصالِ ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کریں اور انہیں اپنی دعائوں میں جگہ دیں۔