ذیابیطس‘ ایک خاموش قاتل

ذیابیطس‘ جس کو عرفِ عام میں شوگر کہا جاتا ہے‘ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے۔ یہ اتنی خطرناک بیماری ہے کہ انسان کے ہر اعضا پر حملہ آور ہوکر اسے موت کے منہ میں پہنچا دیتی ہے۔ اس کی بڑی وجوہات موروثیت‘ وزن میں اضافہ‘ ورزش نہ کرنا‘ چکنائی والے کھانے اورمیٹھے کا استعمال ہیں۔ اس بیماری میں خون میں بلڈ شوگر لیول بڑھ جاتا ہے جو آگے چل دل کو متاثر کرتا ہے‘ اس سے ہڈیاں بھی کمزور ہو جاتی ہیں‘ قوتِ مدافعت کمزور ہوجاتی ہے‘ آنکھوں میں موتیا اتر آتا ہے اور کچھ کیسز میں گردے فیل ہوجاتے ہیں، اس لئے اس بیماری کا بروقت اور مکمل علاج ضروری ہے اور لائف سٹائل کو بھی چینج کیا جانا چاہئے۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق‘ پاکستان میں دو کروڑ افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ 5 نومبر کو دنیا بھر میں ذیابیطس سے بچائو کا دن منایا جاتا ہے۔ اس حوالے ملک بھر میں سیمنارز اور واکس کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ عوام میں آگاہی دی جائے اور وہ اپنے طرزِرہن سہن میں تبدیلی لائیں؛ تاہم شوگر کی ادویات مہنگی‘ ہر روز انسولین لینا اور ڈاکٹرز کی فیس ادا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ موجودہ دورِ حکومت میں ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا جو افسوس ناک ہے۔ گزشتہ تین سال میں ادویات کی قیمتیں200 فیصد تک بڑھ چکی ہیں جو مریضوں کی جان سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
ذیابیطس میں بلڈ شوگر لیول زیادہ ہوجاتا ہے؛ البتہ کچھ کیسز میں یہ لو بھی ہوسکتاہے جس سے انسان ہسپتال پہنچ جاتا ہے۔ انسانی جسم میں جگر گلوکوز بناتا اور اسے ریلیز کرتا ہے‘ یہ جسم کو توانائی دیتا ہے۔ لبلبہ انسولین ہارمون پیدا کرتا ہے جو گلوکوز کو کنٹرول رکھتا ہے۔ جب خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھتی ہے،لبلبہ انسولین بنانا کم کردیتا ہے، اس سسٹم میں بگاڑ آجاتا ہے جس سے انسان ذیابیطس کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس بیماری کی دو بڑی اقسام ہیں؛ ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو، نیز وہ شوگر جو حمل کے دوران مائوں کو ہوجاتی ہے؛ تاہم بہت سی خواتین زچگی کے بعد ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ اگر ہم ٹائپ ون ذیابیطس کی بات کریں تو یہ بچوں‘ بڑوں اور بوڑھوں‘ کسی کو بھی لاحق ہوسکتی ہے‘ اس میں لبلبہ انسولین نہیں بنا پاتا۔ آپ اس بیماری کو اس کی علامات سے پہچان سکتے ہیں؛ بار بار پیشاب آنا، بہت زیادہ پیاس لگنا، بھوک کا جلدی لگ جانا، پیروں کے تلووں اور ہتھیلیوں کا کافی گرم ہو جانا، وزن میں تیزی سے کمی یا زیادتی اور نظر کا کمزور ہوجانا اس کی واضح علامات ہیں۔ اگر ہم ٹائپ ٹو کی بات کریں یہ زیادہ تربالغ لوگوں کو ہوتی ہے اور اس میں لبلبہ انسولین تو بناتا ہے لیکن وہ جسم کیلئے کافی نہیں ہوتی۔ اس کی علامتوں میں دھندلا نظر آنا، بہت پیاس لگنا، پیشاب کثرت سے آنا، تھکن، آنکھوں میں موتیا اور زخموں کا دیر تک ٹھیک نہ ہونا شامل ہیں۔ پاکستان میں شوگر وبا کی طرح پھیل رہی ہے اور ہر چوتھا شخص اس کی زد میں ہے۔
جن افراد کا وزن زیادہ ہو یا ان کے خاندان میں یہ بیماری ہو‘ ان کے اس میں مبتلا ہونے کا زیادہ چانس ہوتا ہے۔ ماہرینِ طب کے مطابق‘ بچوں میں ٹین ایج میں اس کے زیادہ کیسز سامنے آرہے ہیں۔ بچوں کو دونوں ٹائپ کی شوگر ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ پری ڈائبیٹک لوگ بھی ہیں جن کی شوگر ہائی تو ہوتی ہے لیکن انہیں ذیابیطس نہیں ہوتی؛ تاہم انہیں اس کی احتیاطیں ضرور اپنانی چاہئیں تاکہ اس بیماری سے بچے رہ سکیں۔
شوگر ہونے کی بڑی وجہ چکنائی والے کھانے ہیں۔ ایک جگہ بیٹھے رہنا‘ مشقت والا کام نہ کرنا، سہل پسندی، ورزش نہ کرنا، موٹاپا ہائی بلڈ پریشر وغیرہ سے بھی اس مرض کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ اس بیماری کا علاج صرف ادویات میں نہیں ہے بلکہ اس میں طرزِ زندگی کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اگر آپ کو ادویات دے رہے ہیں تو وہ ضرور کھائیں‘ اگر آپ کو انسولین دی جا رہی ہے تو وہ بھی لگائیں مگر واک اور ورزش کا بھی اہتمام کریں۔ ہر ماہ باقاعدگی سے اپنا چیک اَپ کرائیں کیونکہ شوگر اعضا پر خاموشی سے اثر انداز ہوتی ہے اس لئے باقاعدگی سے طبی معائنہ ضروری ہے۔ شوگر کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ دیر خالی پیٹ نہ رہیں، متوازن غذا کھائیں، چار یا پانچ چھوٹے مِیلز لیں، میٹھی چیزوں اور بیکری آئٹمز سے پرہیز کریں، سبزیاں اور سلاد زیادہ لیں۔ روزانہ کم از کم آدھاگھنٹہ واک کریں۔
مریض کو اس چیز کا خیال کرنا چاہیے کہ نہ تو اس کا شوگر لیول زیادہ ہو اور نہ ہی کم۔ شوگر لیول زیادہ تب ہوتا ہے جب بدپرہیزی کی جائے، ذہنی دبائو، پانی کی کمی اور سہل پسندی بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔ اسی طرح شوگر کم ہونا بھی ایک میڈیکل ایمرجنسی ہے‘ یہ زیادہ تر انہی کی ہوتی ہے جو ذیابیطس میں مبتلا ہوں۔ کھانا وقت پر نہ کھانا، انسولین زیادہ لگا لینا، بہت زیادہ مشقت والا کام کرنا اس کی وجوہات ہو سکتی ہیں، اس لئے مریض ادویات کھانے پینے اور طبی معائنے میں باقاعدگی سے اپنے آپ کو تندرست و توانا رکھیں۔ علاوہ ازیں وزن کی جانچ کرتے رہیں‘ کولیسٹرول لیول چیک کریں‘ بلڈ پریشر کی جانچ کریں‘ اپنے دانتوں اور مسوڑھوں کا جائزہ لیں۔ اپنا بی پی‘ وزن اور شوگر لیول روزانہ ایک ڈائری میں نوٹ کریں۔ شوگر کے مریضوں کو اپنے جسم اور جلد کا خصوصی خیال کرنا چاہیے۔ کوئی زخم نہ لگنے دیں کیونکہ یہ زخم سالوں تک ٹھیک نہیں ہوپاتے۔ بعض اوقات تو زخم والا حصہ کاٹنا پڑجاتا ہے یوں ذیابیطس معذوری بھی دے جاتی ہے۔ شوگر لیول ہائی ہونے کی وجہ سے جسم پر دانے بھی نکل آتے ہیں‘ جو بہت خطرناک ہوتے ہیں‘ اس لئے اس مرض میں بہت احتیاط کریں۔ذیابیطس دل کی بھی دشمن ہے‘ انسان کو اس بیماری میں پتا بھی نہیں چلتا اور اس کا دل متعدد بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اس سے انسان کا نیورو سسٹم بھی متاثر ہوتا ہے۔ انسان اعصابی کمزوری کا شکار ہوجاتا ہے۔ کچھ صورتوں میں مریض کے ہاتھ پائوں سُن رہنے لگ جاتے ہیں۔ خود کو گنگرین سے بچائیں‘ اس میں متاثرہ حصہ کام کرنا چھوڑ دیتا اور گل سڑ جاتا ہے، جس پر اسے کاٹتے ہی بنتی ہے۔ بعض شوگر کے مریضوں کو بلڈ پریشر کا مستقل عارضہ اور فالج بھی ہوجاتا ہے۔
جیسے ہی خود میں شوگر کی علامات دیکھیں تو فوری طور پر شوگر ٹیسٹ کروائیں۔ اگر شوگر ہائی ہے تو گھبرائیں نہیں بلکہ اپنی زندگی میں کچھ مثبت تبدیلیاں لائیں‘ اس سے آپ چاق و چوبند رہیں گے۔ شوگر ہو جانے کے بعد یہ کرنا ہے کہ جنک فوڈ مت کھائیں، فریز ڈرنکس مت پئیں، سبزی سلاد زیادہ کھائیں، جو کا دلیہ اور دالیں لیں، خشک میوہ جات، پھلوں میں چکوترا، بلیو اور بلیک بیری، ناشپاتی، تربوز، پپیتا، امرود، سیب، جامن، انار، سبزیوں میں بینگن، پالک، شلجم، کریلا، شملہ مرچ، گاجر، کھیرا، لیموں، لہسن، سلاد کے پتے، گوبھی، بند گوبھی، سوہانجنا (مورنگا) اور بروکلی، اس کے علاوہ دارچینی، لونگ، یخنی، مچھلی،چکن، زیتون کا تیل جیسی چیزوں کا زیادہ استعمال کریں۔ میٹھی چیزوں، ڈبے والے جوس، بوتلوں، بیکری کی اشیا، بیکڈ فوڈ اور فرائیڈ چیزوں سے مکمل پرہیز کریں۔ دن میں پانچ وقت مگر تھوڑا تھوڑا کھانا کھائیں جس میں فیٹ، کیلشیم، سوڈیم، پروٹین، آئرن اور کاربو ہائیڈریٹ ہونے چاہئیں۔ تیس منٹ تک واک کریں، بلڈ پریشر، وزن اور شوگر لیول روز مانیٹر کریں، اپنے ہاتھوں اور پیروں کا جائزہ لیں کہ کوئی زخم تو نہیں۔ اگر کوئی بھی غیر معمولی علامات دیکھیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کر کے علاج شروع کریں۔ حکومت کو بھی ہنگامی طور پر اس بیماری سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرنا چاہئیں اور سب سے پہلے ادویات کی قیمتوں میں کمی کرنی چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں