کنکریٹ کا جنگل اور سموگ

ایک اینی میٹڈ مووی ہے‘ لوریکس،یہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک شخص اپنے منافع کی ہوس میں درخت پر درخت کاٹتا جاتا ہے اور پورے جنگل کو کاٹ ڈالتا ہے، سارے جانور اور پرندے وہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں، آخر میں ہر جگہ آلودگی ہی آلودگی رہ جاتی ہے لہٰذا جب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے، وہ پشیمان ہوکر ایک جگہ پر چھپ جاتا ہے۔ پورے علاقے سے درختوں کا صفایا ہو جاتا ہے اور اب اس کے پاس صرف ایک بیج بچتا ہے۔ دوسری طرف ایک صنعتکار ہوتا ہے جو کنکریٹ کا ایک شہر بساتا ہے جس میں ہر سہولت ہوتی ہے مگر وہ ہر چیز حتیٰ کہ ہوا اور پانی بھی بیچ کر پیسے کما رہا ہوتا ہے۔ اس شہر سے باہر جانے پر پابندی ہوتی ہے مگر ایک بچہ چھپ چھپا کر باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر اس کے ہردلعزیز شہر کے باہر ایک بھیانک حقیقت اس کی منتظر تھی۔ آلودگی، دھواں، گندگی، غرض جو کچھ شہر میں نظر آتا تھاوہ سب مصنوعی تھا۔ خیر بچہ کسی طرح اس شخص کے پاس پہنچتا ہے جس کے پاس آخری بیج تھا، بڑی مشکلوں سے وہ اس سے بیج حاصل کرتا ہے اور پھر واپس آ کر سب سے لڑائی مول لے کر شہر کے وسط میں بیج بو کر پہلا درخت لگاتا ہے۔صنعتکار بہت کوشش کرتا ہے کہ ماحول قدرتی نہ ہو‘ لیکن نئی نسل اس کے ارادے خاک میں ملا دیتی ہے۔ یہ فلم ہر کسی کو دیکھنی چاہیے۔
اکثر ایسا ہوتا کہ جو لوگ بڑے پروجیکٹس بنا رہے ہوتے ہیں‘ سڑکیں، پل صنعتیں‘ وہ قدرتی ماحول کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔یہ اکثر اتنے امیر ہوتے ہیں کہ بہ آسانی ہر طرف سے بچ نکل جاتے ہیں اور ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصان کے حوالے کر جاتے ہیں۔ یہی کچھ پنجاب کے ساتھ ہوا۔ اس کے بہت سے مجرمان ہیں، کچھ پاکستان کے اندر اور کچھ سرحد کے اُس پار رہتے ہیں۔ پاکستان کے پنجاب کے ساتھ سب سے زیادہ ظلم بھارت نے کیا ہے۔ پنجاب کے تین دریا بھارت کے ڈیموں اور بیراجوں کی وجہ سے متاثر ہوئے۔ بھارت نے نہریں بناکردریائوں کا رخ موڑ کر اپنے کھیت سیراب کیے اور ہمارا کسان منہ دیکھتا رہ گیا۔ اسی طرح سموگ کی ذمہ داری بھی کافی حد تک بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ دیوالی پر شدید آتش بازی اور فصلوں کی باقیات جلا کرپورے خطے کی فضا کو آلودہ کر دیا جاتا ہے۔سرحد کے اِس پار کی بات کریں تو ہمارے حکمرانوں اور صنعتکاروں نے بھی ماحولیات کو کم نقصان نہیں پہنچایا۔ نیز بے ہنگم ٹریفک، دھواں، کچرا، صنعتی فضلہ، سگریٹ نوشی، مصنوعی کھاد،ادویات اور سپرے سمیت ایسی بہت سی چیزیں ہیں جنہوں نے ماحول کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ لاہور کے ساتھ اس حوالے سے بہت زیادتی ہوئی ہے۔ جب ہم چھوٹے تھے تو لاہور حقیقتاًباغوں کا شہر تھا، ہر طرف درخت اور ہریالی تھی لیکن آبادی میں اضافے اور بے ہنگم تعمیرات نے اس شہر کا حلیہ بگاڑ دیا۔ بیشتر درخت کاٹ کر سارا شہر کنکریٹ کا بنا دیا گیا، ہر طرف انڈرپاسز، پلوں اور سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا اور پرانے سب درخت کاٹ دیے گئے۔ جس وقت لاہور میں میٹرو بس کے پل بن رہے تھے‘ میں لاہور میں ہی تھی۔ اس وقت میں نے شہر میں جتنی آلودگی دیکھی‘ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ دھواں‘ رش‘ ٹریفک اور آئے روز حادثات۔ میں اس وقت بھی شہر میں ماسک پہن کر سفرکرتی تھی۔ تعمیراتی کاموں کی وجہ سے شہر کے لوگوں نے بہت تکلیف اٹھائی ہے۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ بس زمین پر نہیں چل سکتی؟ پبلک ٹرانسپورٹ منصوبوں کی افادیت تھی اور ہے لیکن جا بجا پلوں کی تعمیر نے شہرکو بری طرح متاثر کیا ہے اور پورے لاہور کی خوبصورتی برباد ہوگئی۔
انہی دنوں جب سردیوں کا آغاز ہوا تومیں نے لاہور میں شدید دھند دیکھی، میری ایک دوست جو پروفیسر ہیں، نے مجھے بتایا کہ یہ سموگ ہے‘ فوگ نہیں۔ میں بہت حیران ہوئی کیونکہ سڑکوں پر سفید سا دھواں تھا‘ ایسی فوگ میں نے کبھی اسلام آباد میں نہیں دیکھی تھی۔ لوگوں کی آنکھیں جل رہی تھیں اور وہ کھانس رہے تھے۔ پھر میں نے اس کے بارے میں تحقیق کی کیونکہ میں نے اسلام آباد میں صرف فوگ دیکھی تھی لیکن یہ تو سموگ تھی۔ میں نے اس کے حوالے سے آواز بلند کرنا شروع کی کہ یہ بہت مضرِ صحت ہے‘ لاہور میں ماحولیاتی سرگرمیوں کی ضرورت ہے‘ درخت کاٹنا بند کیے جائیں اور ماحول دوست منصوبوں کا آغاز کیا جائے مگر مجھ پر تنقید شروع ہو گئی کہ آپ تعمیراتی کام کو بلاوجہ متنازع بنا رہی ہیں۔ اب نتائج سب کے سامنے ہیں کہ کنکریٹ کے جنگل نے درختوں والے جنگل کی جگہ لے لی اور پورا شہر فضائی آلودگی کی زد میں آ گیا۔ اس کے بعد ایک اور منصوبے کا آغاز ہوا‘ میٹرو ٹرین‘ اس نے ماحول اور پرانے شہر کے بگاڑ میں رہی سہی کسر پوری کر دی۔ تعمیراتی کاموں کے نام پر کئی تاریخی عمارتیں تباہ اور ہزاروں درخت کاٹ دیے گئے۔ ایک پودے کو درخت بننے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور کاٹنے میں محض چند گھنٹے۔ نتیجتاً لاہور اجڑ گیا، شہر سے بہار اور پرندے روٹھ گئے اور درجہ حرارت زیادہ ہوگیا جس سے موسموں کا توازن بھی بگڑ گیا۔
سموگ کیا ہے؟ سموگ آلودگی سے جنم لینے والی دھند ہے، یہ سلفرآکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، سی ایف سی گیس، کوئلے کے دھویں، ٹریفک کے دھویں، فصلوں کی باقیات، مٹی اور ریت کے ذرات وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ لاہور پہ چھائی بیشتر سموگ بھارتی پنجاب میں جلائی جانے والی فصلوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ابتدا میں پاک بھارت الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوا تھا کہ زہریلی گیس چھوڑ دی گئی ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا۔اس وقت دہلی اور لاہور شدید سموگ کی زد میں ہیں ۔ یہ لوگوں کے گھروں تک میں داخل ہوجاتی ہے، سڑکوں پر تو اس کا راج ہے ہی‘ یہ بہت مضرِ صحت ہے۔ اس کے جسمانی‘ طبی‘ ماحولیاتی‘ حیاتیاتی اور جینیاتی اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ اس سے آنکھیں جلنے لگتی ہیں‘ گلے، پھیپھڑوں، دل اور سانس کے نظام پر منفی اثرات پڑتے ہیں، بخار اور گلا خراب ہونے کی شکایات عام ہوجاتی ہیں جبکہ دور رس اثرات میں پھیپھڑوں کے کینسر ہو جانے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ سموگ سے متاثرہ علاقوں میں ٹریفک حادثات بھی بڑھ جاتے ہیں کیونکہ حدِ نگاہ صفر ہوجاتی ہے۔ دو روز قبل جب میں نے ایئر کوالٹی انڈیکس چیک کیا تو لاہور 212 اے کیو آئی لیول کے ساتھ ٹاپ پر تھا۔ واضح رہے کہ 100 سے زیادہ انڈیکس کو انسانی صحت کے لیے خطرہ گردانا جاتا ہے، یہ انتہائی مہلک ہے۔ اسی لیے شہر میں تعلیمی اداروں کو ہفتے میں تین دن بند رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ ابھی تو لوگ کھانس رہے ہیں، ان کی آنکھیں سرخ ہورہی ہیں مگر آگے چل کر لوگوں میں سانس کے مسائل اور پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہونے کے کیسز بڑھیں گے۔ یہ ہر شخص کیلئے نقصان دہ ہے، کوئی آج بیمار ہے تو کوئی آگے چل کر ہوگا، بالآخر سب اس کی زد میں آئیں گے۔ ایمنسٹی نے بھی سموگ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ لاہور کی صورتحال گمبھیر اور حکومت کے اقدامات ناکافی ہیں۔
سموگ کے دنوں میں ہم سب کو احتیاط کرنا ہوگی، منہ اور ناک کو ڈھانپ کر باہر جانا چاہیے، آنکھوں پر عینک لگائیں اور گاڑیوں میں فوگ لائٹ کا استعمال کریں۔ اس کے علاوہ گھروں کے کھڑکیاں‘ دروازے بند رکھیں۔ آگ اور کوئلہ جلانے سے گریز کریں اور اپنی گاڑیوں کی بروقت ٹیونگ کروائیں اور فلٹر تبدیل کروائیں تاکہ کم سے کم آلودگی پیدا ہو؛ تاہم یہ سب اقدامات اس کا حل نہیں بلکہ اس سے بچائو کی تدابیر ہیں۔ اس کا طویل مدتی حل یہ ہے کہ ہم ماحول دوست سرگرمیوں کو فروغ دیں، درخت لگائیں اور دیسی درخت لگائیں جن میں نیم، برگد، سوہانجنا، بیری، شیریں آم، املتاس، جامن، کچنار، پھلائی، شیشم، گلمور، ناریل، اشوکا اور پائن ٹری وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ حکومت فوری طور پر فیکٹریوں کی چمنیوں پرفلٹر لگوائے‘ جو پروٹوکولز فالونہ کریں‘ انہیں جرمانے کیے جائیں اور سیل کیا جائے۔ کوئلے اور کچرا جلانے پر مکمل پابندی ہو۔فصلوں کی باقیات کو جلانے اور آتش بازی کی پابندی پر سختی سے عمل کرایا جائے اور زیادہ آکسیجن پیدا کرنے والے درختوں کو فروغ دیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں