ٹریفک کے بڑھتے مسائل

میں بلیو ایریا اسلام آباد سے گزر رہی تھی کہ اپنی آنکھوں سے دو ٹریفک حادثات دیکھے۔ نادرا کے آفس کے قریب ایک گاڑی دوسری سے جا ٹکرائی جبکہ ایک گاڑی درخت سے جا ٹکرائی۔ بہت بھیڑ جمع ہو گئی، پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی۔ درخت سے ٹکرانے والی گاڑی مکمل تباہ ہوگئی تھی۔ دونوں حادثات اتنے شدید تھے کہ گاڑیوں میں سوار افراد شدید زخمی ہوئے جبکہ گاڑیوں کو بھی خاصا نقصان پہنچا۔ ایک گھنٹے کے اندر دو حادثات دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ تھوڑا آگے گئی تو شدید ٹریفک جام تھا کیونکہ وہاں پر سڑکوں کی تعمیر ہورہی تھی۔ بیس منٹ انتظار کرنے کے بعد ٹریفک کھلی اور میں اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ پائی۔ دیکھا جائے تو تمام مسائل کی جڑ انتظامیہ یا ٹریفک پولیس نہیں ہے ‘ہم بھی اس کے بہت حد تک ذمہ دار ہیں۔ ہم میں بے صبری ہے اور غصہ ہے‘ شور، ٹریفک جام اور گاڑیوں کی لمبی قطاروں نے ہمیں چڑچڑا بنادیا ہے۔
گاڑیوں کی آسان لیز پالیسی سے سڑکوں پر گاڑیوں کی بھرمار ہوگئی ہے۔ اتنی سڑکوں پر گنجائش نہیں جتنی گاڑیاں آگئی ہیں۔ بے ہنگم ٹریفک ، دھواں اور ہارن کا شور کسی بھی انسان کو اذیت دینے کیلئے کافی ہیں۔ پھر سوِک سینس کا مظاہرہ بالکل نہیں کیا جاتا۔ جس کی جہاں سے مرضی ہو‘ اس لین میں آ جاتا ہے۔ ٹریفک رولز کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ اشارہ بند ہو تو سگنل توڑ دیا جاتا ہے‘اسی طرح حادثات ہوتے ہیں۔ ٹریفک رکی ہوئی ہو تو لوگ ہارن بجائے جاتے ہیں‘ جیسے اس سے ٹریفک چل پڑے گی۔ کچھ لوگ اپنی گاڑیوں کی ٹیونگ نہیں کراتے، گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں مسافروں اور ماحولیات‘ دونوں کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ دیکھ لیں کہ لاہور کا اس وقت کیا حال ہے‘ سموگ نے ہر شعبۂ زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کچھ لوگوں پر اس کا وقتی اثر ہورہا ہے اور کچھ لوگوں پر اس کا طویل مدتی اثر ہوگا اور وہ (خدا ناخواستہ) سرطان اور دیگر مہلک امراض میں مبتلا ہوجائیں گے۔ پورے معاشرے پر فضائی آلودگی کے بہت مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اسی طرح اگر پبلک ٹرانسپورٹ اور ہیوی ٹریفک کی بات کریں تو جب مہنگی مہنگی گاڑیوں والے ٹریفک قوانین کا خیال نہیں کرتے تو ایک ناخواندہ ڈارئیور ٹریفک رولز کی کیا پابندی کرے گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ والے اونچا میوزک لگا کر‘ خوب دھواں چھوڑتے ہوئے سڑکوں پر وارد ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے عام شہری حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ اپنی مرضی کا سٹاپ بناتے ہیں‘ جہاں دل کرے وہاں گاڑی روک لی اور جہاں دل کرے وہاں نہیں روکی تاکہ سواریاں منہ دیکھتی رہ جائیں۔ ہر جگہ ان کی اجارہ داری ہے۔ مسافر بسوں کے ڈرائیور ایسے بس چلا رہے ہوتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر مسافروں کی خیریت کی دعا بے اختیار لبوں پر آجاتی ہے۔ مسلسل لین چینج کرتے ہیں‘ اوورٹیک اور اوور سپیڈنگ کرتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اکثر اسی وجہ سے بسیں الٹ جاتی ہے یا دشوار گزار راستوں پر کھائیوں میں جا گرتی ہیں، اس کے باوجود ڈرائیوروں کی روش تبدیل نہیں ہوتی۔ اگر رکشوں، موٹر سائیکل رکشوں، گدھا گاڑیوں اور تانگوں کی بات کریں تو وہ بالکل الگ نوعیت کے ہیں مگر اسی ٹریفک کے نظام کا حصہ ہیں۔ اسی طرح موٹر سائیکل سوار ہیں۔ میرے نزدیک موٹر سائیکل سب سے خطرناک سواری ہے مگر ہمارے عوام کی اکثریت محدود آمدن کی وجہ سے صرف یہی افورڈ کرسکتی ہے۔ سب سے زیادہ حادثات کا سامنا موٹر سائیکل سوار ہی کرتے ہیں۔ اگر ہیلمٹ پہنا ہو تو کچھ بچت ہو جاتی ہے ورنہ اکثر ایسے حادثات میں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ون ویلنگ بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے بہت سے لوگ ہر روز حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔ نوجوان شرارت میں یہ سب کرتے ہیں۔ اکثر وہ موٹر سائیکل کے پھسل جانے پر گرتے ہیں تو کسی گاڑی کے نیچے آ کر کچلے جاتے ہیں۔ وہ خود تو جان سے جاتے ہی ہیں لیکن ان کی لاپروائی اور بے احتیاطی کی وجہ سے گاڑیوں والے پھنس جاتے ہیں۔
گاڑیوں کی ریس لگانا بھی ہمارے ہاں عام مشغلہ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ چھوٹی گاڑی والے بھی ایسا کرتے ہیں اور بسوں‘ ٹرکوں سمیت پبلک ٹرانسپورٹ والے بھی اس ضمن میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اسی وجہ سے شدید حادثات رونما ہوتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان میں ہرسال لاکھوں لوگ ٹریفک حادثات میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جبکہ ہزاروں لوگ عمر بھر کے لیے اپاہج ہوجاتے ہیں۔ اگر ٹرک اور ٹرالر والوں کی بات کریں تو شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سڑک صرف ان کے لیے ہی ہے‘ باقی گاڑیوں والے تو ان کے نزدیک حقیر مخلوق ہیں۔ سڑکوں پر ان کی بدتمیزی‘ بے صبری اور لاپروائی کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد لقمہ اجل بن جاتی ہے۔ ان کو نہ تو ٹریفک قوانین کا پاس ہوتا ہے اور نہ ہی انسانی زندگی ان کے نزدیک کوئی اہمیت رکھتی ہے۔ ایک دفعہ میں اپنے والدین کے ساتھ ایک سگنل پر کھڑی تھی کہ ٹرک نے دائیں طرف سے ہماری گاڑی پر ٹرک چڑھا دیا جس سے گاڑی بری طرح ڈیمیج ہوئی۔ میں اور والد صاحب بائیں طرف سے گاڑی سے باہر نکلے۔ اسی طرح ایک بار جی 15‘ جہاں سے ہیوی ٹریفک اسلام آباد میں آتی ہے‘ میں ایک ٹرک والے نے جانتے بوجھتے مجھے اور میری بہن کو ہٹ کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب جب بھی میں کسی ٹرک کو دیکھتی ہوں تو ایک انجانا خوف محسوس ہوتا ہے۔ میری رائے میں ان کو رات گئے سے پہلے سڑکوں پر آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ عام شاہراہوں پر صرف رات کو آنے چاہئیں تاکہ عام ڈارئیورز‘ خواتین، موٹرسائیکل سوار اور چھوٹی گاڑیوں والے ان کے عتاب سے محفوظ رہیں۔ یہ سڑکوں پر قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور جان بوجھ کر لین چینج کرتے اوراوور سپیڈنگ کرتے ہیں‘ اکثر اسی چکر میں شہریوں کو کچل دیتے ہیں۔ اتنی اونچائی سے انہیں نیچے کچھ نظر نہیں آ رہا ہوتا، اسی باعث موٹر سائیکل اور سائیکل والے سب سے زیادہ ان کی زد میں آتے ہیں۔
اب ان مسائل کا حل کیا ہے؟ سب سے پہلے ایک اچھا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بنایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ شہری اس سے مستفید ہوں۔ میٹرو بس ایک مخصوص روٹ پر چلتی ہے۔ ہمیں اچھی ہائی روف گاڑیوں پر مشتمل پبلک ٹرانسپورٹ متعارف کرانی چاہیے جو ہر علاقے اور ہر سیکٹر کو کور کرے۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ مؤثر ہو گی تو یقینا ٹریفک کا بہائو کم ہوگا۔ اسی طرح جن گھروں میں متعدد گاڑیاں ہیں‘ انہیں چاہیے کہ سب مل کر ایک ہی گاڑی میں سفر کریں۔ ایک ہی جگہ پر الگ الگ گاڑیوں میں جانا حماقت ہے۔ اسی طرح اگر نجی اور سرکاری دفاتر اپنی بسیں اور کوسٹر خرید لیں اور اپنے ملازمین کو خود پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دیں تو ملازمین کو اپنی گاڑیاں آفس میں لانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ فیلڈ ورکر بھلے اپنی گاڑیاں ساتھ لائیں مگر آفس ورک والوں کو آفس کی سواری استعمال کرنی چاہیے۔ اس سے جیب اور ماحولیات‘ دونوں پر اچھا اثرپڑے گا۔ تیزرفتاری‘ لین اور لائن کی عدم پابندی‘ سگنل کی خلاف ورزی اور گاڑیوں کے دھواں چھوڑنے پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں اور ایسی گاڑیاں بند کردی جائیں۔ جو شخص جان بوجھ کر کسی کو زخمی کرے‘ اس کا لائسنس تاحیات کینسل کردینا چاہیے تاکہ وہ دوبارہ سڑک پر نہ آسکے۔ اکثر حادثات تیز رفتاری کی وجہ سے پیش آتے ہیں‘ اس لیے مقررہ رفتار کی بھی سختی سے پابندی کرانی چاہیے۔ وی آئی پی روٹس کا خاتمہ ہونا چاہیے‘ ان کی وجہ سے عوام اذیت اٹھاتے ہیں اور ان کا وقت اور ایندھن ضائع ہوتا ہے۔ ایسے مقاصد کے لیے ہیلی کاپٹر کیوں نہیں استعمال کیا جاتا؟
عوام کو چاہیے کہ ایک دوسرے کا احترام کریں، چوکوں‘ چوراہوں پر لڑائی جھگڑے سے گریز کریں۔ اگر کوئی حادثہ ہوجائے تو سب سے پہلے پولیس کو اطلاع دیں اور مریضوں کو ہسپتال پہنچائیں۔ اکثر لوگ اس موقع پر وڈیو بنانا شروع کردیتے ہیں حالانکہ زخمیوں کے لیے ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہوتا ہے لہٰذا پہلے زخمی شخص کی جان بچائیں۔ گاڑی کو مناسب رفتار سے چلائیں، اس کی ہر ماہ ٹیونگ کرائیں، اپنی لین میں رہیں، اونچی موسیقی اور بار بار ہارن بجانے سے گریز کریں اور اپنے مہذب شہری ہونے کا ثبوت دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں