کرپشن فری پاکستان

ہمارے ملک میں عجیب چلن ہے کہ اشرافیہ کو تمام گناہ معاف ہیں اور عام عوام کو ایک روٹی چرانے پر بھی مار مار کر لہولہان کردیا جاتا ہے۔ اگرچہ میرے نزدیک دونوں چوریاں غلط ہیں‘ چاہے چھوٹی چوری ہو یا بڑی‘ یہ گناہ ہے اور بہرصورت ناقابلِ قبول۔ مگر اربوں کی چوری کو ایک روٹی کی چوری کے ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا۔ جو ایک روٹی چوری کرتا ہے‘ وہ بھوک سے مجبور ہوتا ہے لیکن بڑی چوری کرنے والا چوری اس لیے کرتا ہے کہ اپنی لالچ‘ طاقت اور ہوس کی تسکین کر سکے۔ اس ملک میں اربوں‘ کھربوں کے گھپلے ہوئے‘ اسی وجہ سے عوام کا ایک بڑا طبقہ روٹی‘ کپڑا اور مکان کا محتاج ہوکر رہ گیا؛ تاہم کچھ لوگ اس ملک میں کرپشن کے خلاف جہاد بھی کررہے ہیں‘ اور وہ ہیں اس ملک کے میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد۔ پاکستان میں بہت سے صحافی اور اینکرز ہیں جو سخت محنت کرکے مالیاتی سیکنڈل سامنے لاتے ہیں۔ ان کا سارا وقت اسی کام میں صرف ہوتا ہے کہ ملک کو کرپشن فری بنانا ہے۔ عوام کا پیسہ عوام کو واپس ملنا چاہیے جنہوں نے کرپشن کی‘ ان کو سزا ملنی چاہیے اور ان سے پیسے نکلواکرواپس ملک کے خزانے میں جمع کیے جانے چاہئیں۔
تحقیقاتی صحافی اپنی صحت خراب کرلیتے ہیں‘ اپنی جان تک خطرے میں ڈال دیتے ہیں‘ دھمکیوں کا سامنا کرتے ہیں لیکن اپنے کام سے رکتے نہیں۔ یہاں صحافیوں نے ڈنڈے‘ کوڑے اور گولیاںتک کھائیں لیکن سچ کا سفر جاری رکھا اور عوام کے سامنے حقائق لائے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان کے صحافی اب بھی قلم کا جہاد کررہے ہیں اور مالیاتی کرپشن کو بے نقاب کررہے ہیں۔ یہ کرپشن کرتا کون ہے‘ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ کرنے والے اس ملک کے طاقتور لوگ ہیں جن کو کوئی ڈر نہیں‘ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر کوئی بکائو مال ہے اور ان کی طاقت اور روپے پیسے کے سامنے چپ ہو جائے گا۔ ان کو دولت اور طاقت کے نشے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سب ان کے سامنے حقیر ہیں‘ وہ کسی کی بھی زندگی سے کھیل سکتے ہیں۔ قوم کے پیسے لوٹ کر باہر کے ممالک میں آف شور کمپنیوں میں جمع کرادیتے ہیں، عوام کے پیسے سے بیرونِ ملک محل اور جائیدایں بنالیتے ہیں۔ جب ان سے کوئی حساب مانگے تو شور مچانا شروع کردیتے ہیں کہ ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ ہمارے خلاف کمپین چلائی جا رہی ہے‘ ہم سے کوئی سوال نہ پوچھے‘ جمہوریت کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
ہم تو ایک پین‘ پنسل بھی خریدتے ہیں تو کارڈ سے لیتے ہیں تاکہ ریکارڈ رہے کہ شایدبعد میں کام آجائے مگر پاکستان کی اشرافیہ کے پاس اپنی اربوں کی جائیدادوں کی منی ٹریل اور رسیدیں نہیں ہیں۔ کیا اتنے امیر لوگ‘ جو لاکھوں روپے کا جوتا پہنتے ہیں‘ جو لاکھوں روپے کی گھڑی کلائی پر سجاتے ہیں‘ جو کروڑوں کی گاڑی میں سفر کرتے ہیں‘ وہ ایک منشی یا اکائونٹنٹ نہیں رکھ سکتے جوان کے گوشواروں کا حساب رکھ سکے‘ ان کی منی ٹریل اور اکائونٹس کو مرتب کر سکے؟ مسئلہ یہ ہے کہ کالے دھن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا اور یہ پیسہ ہیرا پھیری سے منتقل کیا گیا ہوتا ہے لہٰذا اس کی کوئی ٹریل نہیں ہوتی۔ پاکستان میں بھی ایسے بہت سے نام ہیں جو دِنوں میں فرش سے عرش پر پہنچ گئے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ سب کرپٹ ہیں لیکن کچھ کے شواہد تو عالمی صحافتی ادارے سامنے لے کر آئے ہیں۔ تب بھی یہاں ان کے کارکنان اور ان کے ہم نوالہ کہتے ہیں کہ ان کے لیڈران نے کوئی کرپشن نہیں کی‘ یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اگر عالمی صحافتی اداروں کی رپورٹ جھوٹ تھی‘ اگر پانامہ پیپرز غلط تھے تو اس ادارے پر مقدمہ کردیں‘ لیکن آپ دیکھیں گے کہ یہ ایسا کبھی نہیں کریں گے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ یہ سب باتیں غلط نہیں ہیں۔
جب پاکستان کے بڑے سیاسی خانوادے شریف خاندان کا نام پانامہ پیپرز میں آیا تو بہت شور مچا کیونکہ لوگوں کو لگتا تھا کہ یہ خاندان ملک کی ترقی کیلئے کوشاں رہا ہے اور ان کے ہاں کرپشن برائے نام ہے لیکن یہ خاندان لندن سمیت کئی ملکوں میں کئی جائیدادوں کا حامل ہے جس کی اس کے پاس کوئی منی ٹریل نہیں ہے۔ لندن میں شریف خاندان ایون فیلڈ کے جن فلیٹس میں رہتا ہے‘ان کی یہ منی ٹریل تک نہیں دے سکے۔ اس وقت شریف خاندان سے مریم نواز بہت سرگرم ہیں اور سب کو آڑے ہاتھوں لیتی ہیں‘ جس کے بارے میں جو چاہے‘ کہہ ڈالتی ہیں حالانکہ وہ ضمانت پر باہر ہیں۔ ایسے ہی نواز شریف عدالتی ضمانت پر علاج کے لیے بیرونِ ملک گئے اور اب واپس آنے کا نام نہیں لے رہے مگر کوئی ان پر بات نہیں کر رہا۔ ان کو ڈھیل دی جارہی یا ڈیل‘ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے عتاب سے حکومت‘ ادارے اور اہم شخصیات سمیت کوئی نہیں بچ پایا۔ابھی حال ہی میں دو کال ریکارڈنگز لیک ہوئی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کے لیے تنقیدی آوازیں کتنی ناگوار ہیں‘ جو مدح سرائی کرتے ہیں‘ ان کے نزدیک بس وہی ٹھیک ہیں۔ ان ریکارڈنگز میں جو کچھ کہا گیا‘ وہ بہت افسوسناک ہے مگر دونوں کی طرف سے اس پر کوئی معذرت یا معافی سامنے نہیں آئی بلکہ انہوں نے پورے دھڑلے سے تسلیم کیا کہ وہ ان کی نجی گفتگو تھی‘ اگرچہ ان کی یہ بات درست ہے کہ کسی کو بھی کسی دوسرے کی کال یا نجی گفتگو ریکارڈ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے مگر اب جو کچھ منظر عام پر آ گیا ہے‘ انہیں کم از کم اس پر تو معذرت کرنی چاہیے لیکن لگتا ہے کہ انہیں کوئی پشیمانی اور کوئی افسوس نہیں۔ مریم نواز اپنے حریفوں سے اعلانیہ جنگ لڑرہی ہیں‘ مجھے ان کی خوش لباسی پسند ہے؛ تاہم ان کی شعلہ بیانی نہیں۔ وہ اکثر بات کو تولے بنا بول جاتی ہیں اور تنقید ذاتیات پر چلی جاتی ہے۔ جو بھی ان کے معاونین ہیں‘ وہ انہیں غلط گائیڈ کررہے ہیں۔ اداروں کو متنازع بنا کر وہ خود اپنی سیاست اور پوزیشن کو کمزور کر رہی ہیں۔ الزامات ان کے خاندان پر بھی بہت ہیں‘ پہلے وہ اپنے دامن سے ان چھینٹوں کو دھوئیں‘ پھر کسی دوسرے پر انگلی اٹھائیں۔
نون لیگ اس وقت وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہی ہے۔ ان کا یہ چلن ہے کہ ایک بھائی شعلہ بیان تقاریر کرتا ہے اور دوسرا ملاقاتیں کر کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خیر! ایک ہی خاندان میں سب کی سوچ الگ الگ بھی ہوسکتی ہے‘ اس پر تو کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی مگر پارٹی کا موقف اور بیانیہ کم از کم ایک اور واضح ہونا چاہیے۔ ایک طرف تنقید کی دکان سجائی جاتی ہے تو دوسری جانب ملاقاتوں اور ڈیل کی افواہوں کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔
میرے نزدیک‘ ڈیل ہو یا ڈھیل‘ ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان کو کرپشن فری قیادت کی ضرورت ہے۔ موروثی سیاست میں جو نسل سامنے آئی ہے‘ اس میں اتنی پختگی نہیں جتنی اس سے توقع کی جا رہی تھی۔ لوگوں کے خلاف ٹرینڈز بنانا، میڈیا کے اشتہارات بند کرنا، صحافیوں کی نوکریاں ختم کرانا یا کٹھ پتلیوں کو مختلف اداروں کا چیئرمین بنا کر اینکرز کو آف ایئر کرانا‘ یہ سب کچھ ہم گزشتہ دورِ حکومت میں دیکھ چکے ہیں۔ اس طرح کے حربوں سے کچھ نہیں ہوتا، سچ کا سفر کبھی نہیں رک سکا‘ نہ ہی یہ کبھی رکے گا بلکہ یہ ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔
جو لوگ رات کی تاریکیوں میں ڈیل یا ڈھیل کے ذریعے اقتدار کی راہداریوں کا راستہ تلاش کر رہے ہیں‘ وہ جان لیں کہ ووٹرز باشعور ہیں‘ وہ کرپٹ افراد کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اس لیے ڈیل یا ڈھیل سے من پسند افراد قوم پر مسلط نہیں کیے جا سکتے۔ اگر پاکستانی قوم ترقی کرنا چاہتی ہے تو اسے کرپشن فری سیاست دانوں کو آگے لانا ہوگا ورنہ ملک کے حالات کبھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اگر امیر مجرموں کو ڈیل اور ڈھیل ہی دینی ہے تو اس ملک سے جیلیں ختم کر دیں اور غریب مجرموں کو بھی آزاد کر دیں۔ جس ملک میں امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قانون ہو‘ وہ ملک کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں