بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھنے والی مسکان خان 19 سالہ ایک طالبہ ہے۔ اگرچہ وہ ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی؛ تاہم اس نے اپنی مرضی سے کالج جوائن کرنے سے پہلے حجاب لینا شروع کیا۔ وہ حجاب اور برقع میں بہت باوقار لگتی ہے۔ اس وقت وہ بی کام سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہے اور خود سکوٹی چلا کر کالج آتی‘ جاتی ہے۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ حجاب آپ کو کسی کام سے نہیں روکتا۔ مسکان باحجاب اور باپردہ رہتی ہے مگر وہ بائیک (سکوٹی) چلاتی ہے‘ گھر سے باہر جاتی ہے‘ تعلیم حاصل کرتی ہے اور زندگی کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کا لباس اس کی مرضی ہے‘ اس کا پردہ اس کی زینت ہے‘ کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ مسکان سے اس کی مرضی کے لباس کا اختیار چھین لے۔
نریندر مودی کے دور میں بھارت اقلیتوں کے لیے جہنم بن کر رہ گیا ہے۔ ان کی منظم نسل کشی کی جا رہی ہے‘ ان کو مارا پیٹا جا رہا ہے‘ ڈرایا اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔ نت نئے قوانین سے ان کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ اس سب صورتِ حال میں مسکان نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے مودی سرکار کو للکارا ہے اور آج مودی سرکار ایک 19 سالہ طالبہ سے کی آواز سے لرز رہی ہے۔ آج بہادر مسکان مزاحمت‘ ہمت اور بہادری کی مثال بن چکی ہے۔ مسکان نے یہ ثابت کیا کہ اللہ پر توکل اور اس کی کبریائی کا اظہار ایک نہتی بچی کو سینکڑوں بلوائیوں کے نرغے میں بھی ثابت قدم رکھتے ہیں۔ مسکان کا اللہ تعالیٰ پر اتنا کامل ایمان اور توکل تھا کہ وہ اس ہجوم سے بھی نہیں ڈری جو مودی سرکار اور آر ایس ایس کی ٹریننگ کی وجہ سے بھارت کے کونے کونے میں پیدا ہو چکا ہے اور جو جارحانہ انداز میں اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ان اوباش لڑکوں کا ہجوم صرف ایک کام کرتا ہے اور وہ ہے اقلیتوں کو تنگ کرنا اور دھونس و زبردستی سے ان پر ہندوتوا کے نظریات مسلط کرنے کی کوشش کرنا۔
یہی نفرت مسکان نے دیکھی کہ اس کی ریاست کرناٹک میں اوباش لڑکے باحجاب لڑکیوں کو تنگ کرنا شروع ہو گئے اور انتظامیہ تماشا دیکھتی رہی۔ یہ لڑکے روز کالج کے باہر جمع ہو جاتے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والی باحجاب لڑکیوں کو ہراساں کرتے۔ کیا ان لڑکوں کے پاس کوئی کام دھندہ نہیں کہ یہ سڑکوں پر ہی دندناتے پھرتے ہیں اور تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ اصل میں ان کا یہی کام دھندہ ہے۔ یہ اوباش نوجوان بی جے پی کے پے رول پر ہیں ان کا کام غنڈہ گردی کرنا اور اقلیتوں پر تشدد کرنا ہے۔ مسکان اور دیگر طالبات کو کافی دن سے ہراساں کیا جا رہا تھا۔ ان کے لباس پر‘ حجاب پر تنقید ہو رہی تھی۔ مودی سرکار کا گودی میڈیا بھی ان مسلمان بچیوں کے خلاف زہر اگلنے میں مشغول ہے۔ ان کو طالبان قرار دیا گیا‘ کیا بھارت میں رہنے والے کروڑوں مسلمان طالبان ہیں؟ وہ تو پشتوں سے ہندوستان میں آباد ہیں اور ان کو اپنی زندگی اپنے مذہبی عقائد کے مطابق گزارنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ مسکان کے نعرۂ تکبیر نے پورے عالم اسلام کو ہلا کر رکھ دیا اور ان کو غفلت کی نیند سے جگا دیا۔ یہاں پر ان کے لیے بھی خاموش پیغام ہے جو روٹی بنانے سے انکار کرنے یا ٹانگیں کھول کر بیٹھنے کو وومن امپاورمنٹ سمجھتے ہیں۔ وومن امپاورمنٹ عورتوں کو معاشرے میں مساوی حقوق دلانا اور اس کے لیے آواز اٹھانے کا نام ہے۔ مسکان نے یہی کیا ہے۔ اس کو اور دیگر بھارتی لڑکیوں کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزاریں اور اسی طرز پر اپنے لباس کا انتخاب کریں۔
میں نے مسکان کا وڈیو کلپ بار بار دیکھا ہے‘ جس طرح سے اس نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے‘ اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اس بچی کا اللہ پر ایمان اور توکل کتنا مضبوط ہے۔ وہ انتہاپسند ہندوئوں کے سامنے ڈٹ گئی۔ اس نے جس جوش و جذبے سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا‘ اس کی آواز ضرور عرش تک گئی ہو گی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی غیبی مدد ہوئی ہو گی کہ وہ انتہا پسندوں کے ہجوم سے ڈری نہیں‘ ان کے آگے کمزور نہیں پڑی۔ اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتی ہوئی وہ کالج میں داخل ہو گئی۔ اس کا حجاب میں ملبوس ہونا‘ سکوٹی چلا کر کالج آنا اور سکوٹی پارک کر کے کالج کی طرف بڑھنا‘ یہ انداز دنیا کو بتا گیا کہ حجاب کرنے والی لڑکی کسی سے کم نہیں۔ وہ آج کے دور کی لڑکی ہے جو جدید روایات کے ساتھ اپنے دینی افکار کو بھی لے کر چل رہی ہے۔ دوسرا، اس نے ہالی وُڈ اور بالی وُڈ کے اس اثر کو بھی زائل کر دیا کہ معاذ اللہ‘ اللہ اکبر کا نعرہ لگانے کے بعد دہشت گردی ہوتی ہے۔ مسکان نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ اللہ اکبر کہنے سے اتنی طاقت ملتی ہے کہ ایک نہتی لڑکی بھی سینکڑوں بلوائیوں کا سامنا کر سکتی ہے۔ اس نے دنیا کو یہ بھی بتا دیا کہ آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند تنظیمیں کس طرح سے بھارت میں مسلمانوں کو تنگ کر رہی ہیں‘ ان کا جینا اجیرن کر رہی ہیں‘ انہیں تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ مسکان نے بھارت کے سیکولر چہرے کا جھوٹا نقاب بھی اتار پھینکا ہے۔ اگر بھارت سیکولر ہوتا تو مسکان کو حجاب کرنے پر کوئی ہراساں نہ کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت صرف ایک ہندو ریاست ہے اور اس کی باگ ڈور آر ایس ایس کے پیرکاروں کے ہاتھوں میں ہے‘ اسی لیے اقلیتیں اب وہاں محفوظ نہیں ہیں۔ مسکان نے میڈیا کو بتایا کہ اللہ کو یاد کرنے سے ان کو ہمت ملی‘ اللہ اکبر کا نعرہ لگانے سے انہیں حوصلہ ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی سے خوفزدہ نہیں۔ ''جب ان لڑکوں نے جے شری رام کا نعرہ لگایا تو میں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگا دیا‘‘۔ مسکان نے کہا: جب ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں بہت طاقت اور ہمت ملتی ہے‘ سو میں نے بلند آواز سے نعرہ لگایا اللہ اکبر۔
کسی کو اختیار نہیں کہ وہ بچیوں کے سکولوں اور کالجوں کے باہر کھڑا ہو اور اپنے طور پر ڈریس کوڈ لاگو کرنے کی کوشش کرے۔ کرناٹک میں آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے اوباش نوجوان مسکان کے کالج سمیت دیگر تعلیمی اداروں کے باہر کھڑے ہوکر حجاب میں ملبوس لڑکیوں کو ہراساں کرتے ہیں‘ ان کا مقصد مسلمان لڑکیوں کو ڈرانا‘ ان کو تعلیم کے حق سے روکنا اور انہیں بے حجاب کرنا ہے؛ تاہم مسکان کی بہادری نے ان کمزور افراد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔درجنوں لڑکے اس پر حملہ آور تھے؛ تاہم اللہ اکبر کی صدا پوری دنیا میں گونج رہی ہے۔ اب ساری دنیا اس کی حمایت میں سامنے آ گئی ہے، سب اس کی بہادری کی تعریف کر رہے ہیں۔ ظلم کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا ہر دور میں بہادر لوگوں کا شیوہ رہا ہے۔ مسکان بھی انہی بہادر لوگوں میں شامل ہے جو جابروں کے سامنے کلمۂ حق بیان کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس وقت ''مسکان‘‘، ''حجاب میری پہچان‘‘، ''حجاب میرا فخر‘‘ اور ''اللہ اکبر‘‘ ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ سب مسکان کی بہادری کو سراہ رہے ہیں۔ دوسری طرف انتہا پسند ہندو بھگوا‘ جو نارنجی رنگ کا دوپٹہ ہے‘ کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ یہ بھگوا مودی سمیت بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکنان اپنے گلے میں ڈالے رکھتے ہیں۔ اب انتہا پسند کہہ رہے ہیں کہ اگر لڑکیاں سکولوں‘ کالجوں میں برقع یا حجاب پہنیں گی تو ہم بھی بھگوا پہن کر تعلیمی اداروں میں جائیں گے۔ بہت سے بی جے پی لیڈران انتہا پسند لڑکوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ مسکان کی فیک تصاویر سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی ہیں اور اس کو بدنام کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے؛ تاہم اس کو سپورٹ کرنے والے بھی کم نہیں ہیں۔ پوری دنیا اس کی بہادری کی تعریف کر رہی اور اس کے جذبے کو سلام پیش کر رہی ہے۔ مسکان عالم اسلام کی بیٹی ہے‘ پوری مسلم دنیا کو اس بچی کو داد و تحسین اور ایوارڈز سے نوازنا چاہیے۔ اسے حج و عمرہ پر مدعو کرنا چاہیے اور اس کی تعلیم کو سپانسر بھی کرنا چاہیے۔ مسکان جیسی بچیاں ہم سب کے لیے اور پوری دنیا کے لیے مثال ہیں کہ حجاب پہنے والی بچیاں بھی باقیوں کی طرح ہیں۔ وہ بھی اتنی ہی لائق اور قابل ہیں جتنی دوسری بچیاں۔ نئی نسل اسلامی شعائر کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔ حجاب ہمارا فخر اور ہماری تکریم ہے۔ یہ ہماری وہ پہچان ہے جو اللہ نے ہمیں دی ہے۔ باحجاب خواتین کی حفاظت ہر ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عالم اسلام کو پوری دنیا میں پھیلتے اسلامو فوبیا کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا چاہئیں۔