کراچی میں انسانی جان کی قیمت ایک موبائل فون کے برابر رہ گئی ہے۔ ایک موبائل کے بدلے انسانی جان لینے کا کلچر دنیا میں شاید ہی کہیں اور ملتا ہو گا۔ موبائل فون کے عوض ڈاکو‘ لٹیرے‘ بدمعاش اور چور کراچی میں کسی بھی جان لے سکتے ہیں۔ غریب عوام کے پاس مہنگے برانڈز کے فون نہیں‘ عوام بچت کرکے یا تو بٹن والا فون لیتے ہیں یا چین کے سستے ٹچ سکرین والے موبائل مگر ڈاکو وہ بھی ان کے پاس نہیں رہنے دیتے۔ کراچی میں سرعام دندنانے والے یہ چور‘ ڈاکو اتنے سفاک اور نیچ کیوں ہیں؟ ایک موبائل کے لیے‘ ایک پرس کے لیے یہ لوگوں کو گولیاں مارد یتے ہیں۔ ایک موبائل فون بیچ کر کتنے دن گزارہ کیا جاتا ہو گا؟ کیا انہیں خدا‘ آخرت اور روزِ حشر کا کوئی خوف نہیں ہے؟ یقینا اللہ کی پکڑ سے کوئی بچ نہیں پائے گا مگر اس دنیا میں‘ مرنے والا کا احساس کون کرے گا؟ ڈکیتی میں مزاحمت پر قتل کیے جانے والا فرد بہت سے لوگوں کا کفیل ہوتا ہے۔ چور‘ ڈاکو یہ سوچتے ہی نہیں کہ وہ ایک شخص کو نہیں ایک خاندان کو قتل کر رہے ہیں۔
کراچی سے ایک خاتون کی وڈیو منظرِ عام پر آئی ہے‘ جسے دیکھ کر دل بہت اداس ہو گیا ہے۔ چوروں نے اس کو مارا پیٹا‘ اس کا دوپٹہ تک نوچ لیا‘ انہیں اس کی جیولری‘ فون اور پرس چاہیے تھا۔ اس سے سب کچھ لے لیتے لیکن یہ بدتمیزی ؟ اس خاتون کو مارا پیٹا گیا‘ اس کی چادر تک نوچ ڈالی گئی۔ اسی طرح ایک شہری بینک سے پیسے لے کر گھر آرہا تھا کہ اس کو ڈاکوئوں نے لوٹ لیا اور زدوکوب بھی کیا۔ اگرچہ کراچی کے حالات نوے کی دہائی میں بھی کافی کشیدہ رہتے تھے مگر اب تو حالات بہت بدتر ہو چکے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب نوے کی دہائی میں میرے والدین نے شہرِ قائد چھوڑا تھا‘ اور ہم کراچی سے اسلام آباد جا رہے تھے تو ایئرپورٹ کے راستے میں جگہ جگہ شیلنگ ہو رہی تھی‘ لوگ سڑکوں پر ٹائر جلا رہے تھے‘ پتھرائو ہو رہا تھا اور دور سے فائرنگ کی آوازیں بھی آ رہی تھی۔ اس وقت میرے امی ابو کی آنکھیں نم تھیں۔ جگہ جگہ سیاسی لیڈران کے بڑے بڑے بل بورڈز لگے ہوئے تھے‘ مظاہرین نے ان کے چہرے سیاہ کرکے ان پر جوتوں کے ہار لٹکائے ہوئے تھے۔ ہر طرف دھواں تھا‘ سانس لینے میں تکلیف ہورہی تھی۔ کون کس سے لڑ رہا تھا‘ کچھ معلوم نہیں تھا۔ میرے دادا‘ دادی نہیں چاہتے تھے کہ ہم کراچی میں رہیں‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ تین بار کاروباری لین دین کے دوران میرے والد کے دفتر میں ڈاکو گھس آئے تھے‘ لہٰذا ان کے والدین یعنی میرے دادا‘ دادی نے فیصلہ کیا وہ اسلام آباد چلے جائیں۔ میں اس وقت بہت چھوٹی تھی۔ میرا بچپن بھوربن‘ اسلام آباد میں گزرا لیکن میرے والدین کا دل آج بھی کراچی کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ کراچی ان کی زندگی کا پہلا رومانس ہے۔ وہ ہمیں اکثر ستر اور اسّی کی دہائی والے کراچی کے قصے سناتے ہیں لیکن میں نے تو نوے کی دہائی کا پُر آشوب کراچی دیکھا ہے۔ بعد میں بھی جب کبھی ہم چھٹیوں پر کراچی جاتے تو ہمارے کزنز باربار ہمیں یہی تاکید کرتے کہ کیمرا چھپا لو‘ بیگ چھپا لو‘ کوئی جیولری نہ پہنے۔ ہم اسلام آباد کے پروردہ‘ بے فکری کے ماحول کے عادی تھے‘ سو وہاں جاکر عجیب سے تنگی ہوتی تھی کہ یہ اتنا بڑا‘ اتنا حسین شہر ہے اتنا اعلیٰ کھانا اور اتنی اچھی شاپنگ‘ آخر ہم یہاں آزادی سے کیوں نہیں گھوم سکتے۔ جہاں میرے دادا کی رہائش تھی‘ اس علاقے میں سب مل کر رہتے تھے۔ کوئی پی پی پی‘ کوئی جماعت اسلامی تو کوئی ایم کیو ایم کا سپورٹر تھا۔ سب ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ پھر وقت بدلتا گیا یہاں تک کہ جب کسی غمی‘ خوشی میں میرا کراچی جانا ہوتا تو میں کوئی جیولری ساتھ نہیں لے کرجاتی تھی اور فون بھی چھپا کر رکھتی تھی۔ ایک انجانا خوف‘ ایک اَن دیکھا دشمن دماغ پر سوار ہو گیا تھا‘ ہر وقت یہی کھٹکا لگا رہتا کہ نجانے کب کس سگنل پر کون پستول دکھا کر سب چیزیں لوٹ لے جائے۔ میرا شاید ہی کوئی رشتہ دار ہو جس نے کراچی میں دہشت گردی اور ڈاکوئوں کا سامنا نہ کیا ہو۔ کسی کی جیولری گئی تو کسی کا فون‘ کسی کی گاڑی چھینی گئی تو کسی کے پلاٹ پر قبضہ ہو گیا‘ کسی کے گھر میں مسلح ڈکیتی ہوئی تو کسی کے فیلٹ پر چوری‘ غرض ہر کوئی اس طرح کے صدمات سے گزرا ہے۔ اسی طرح میرے کولیگز‘ جو میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ بھی اس قسم کی تکالیف سے گزرے ہیں۔ 2013ء میں جب ہم الیکشن کی کوریج کے لیے کراچی گئے تو میرے اہلِ خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ مجھے شدید افسوس ہوا کہ جس شہر میں میرا جنم ہوا‘ وہ اب مافیاز‘ بدمعاشوں اور بھتہ خوروں کے نرغے میں ہے۔ کراچی میں اپنے قیام کے دوران میں جب کبھی بھی باہر گئی‘ گھڑی تک گھر میں اتار کرگئی۔ لیپ ٹاپ بھی ساتھ نہیں رکھا‘ نہ ہی کوئی بیگ۔ بس ایک سادہ سا فون اور چھوٹا سا والٹ ساتھ ہوتا تھا۔ ساحلِ سمندر پر جب جانا ہوا تو بہت دیر تک ساحل کے گندے پانی کو دیکھ کر سوچتی رہی کہ اس شہر کا مجرم کون ہے؟ اس شہر کو کس نے تباہ کیا ہے؟ آج بھی یہ دبئی بن سکتا ہے‘ بڑا سیاحتی مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر آلودگی، ٹارگٹ کلنگ، سٹریٹ کرائمز اور غربت نے اس شہر کو اجاڑ دیا ہے۔
اسی شہر میں حامد میر کو گولیاں مار گئیں‘ اسی شہر میں رپورٹر ولی بابر کو قتل کیا گیا‘ سندھ کے وزیر میر ہزار خان بجارانی کو ان کی اہلیہ سمیت قتل کر دیا گیا‘ اسی شہر میں معروف قوال امجد صابری کو ہم سے چھین لیا گیا‘ اس شہر میں سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کو قتل کیا گیا‘ پروین رحمن جیسی بہادر سماجی کارکن کو بھی یہیں مارا گیا۔ کراچی کے لوگ بہت تکلیف میں ہیں‘ لیکن کوئی ان کی داد رسی نہیں کر رہا۔ ٹوٹی سڑکیں، پانی نایاب، غربت، ٹریفک جام، درختوں کا قتلِ عام، غرض مسائل کا ایک انبار ہے مگر عوام کی کوئی شنوائی نہیں۔ گرمی آئے تو لوگ ہیٹ ویوو سے مرجاتے ہیں‘ بارش آئے تو سیلاب کا شکار ہو جاتے ہیں‘ کھمبوں سے کرنٹ لگنے سے مر جاتے ہیں۔ کوئی بھی عوام کے مسائل کا حل نہیں نکالتا۔ ماضی میں بھی شہر کا امن و امان بحال کرنے کے لیے رینجرز کو بلایا گیا تھا‘ ان کی وجہ سے ہی دہشت گردی اور سٹریٹ کرائمزکا زور کم ہوا تھا لیکن انتظامی بدنظمی اب تک ویسے ہی ہے۔ کراچی کو یتیم کردیا گیاہے‘ کراچی پر جو بھی حکمران آیا‘ اس نے اس میگا سٹی کے وسائل پر ہاتھ صاف کیا اور چل دیا۔
اب پھر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور سٹریٹ کرائمز میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔ پچھلے دنوں ایک بیکری کے گارڈ کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا‘ گزشتہ ماہ شادی کے اگلے روز ہی دلہا کو ڈکیتی میں مزاحمت پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ڈاکو ا س کی ماں اور بہن سے موبائل اور چین چھین رہا تھا‘ وہ گھر سے انہیں بچانے کے لیے نکلا تو اس پر گولیاں برسا دی گئیں۔ بینک سے 75 لاکھ روپے لے کر نکلنے والے شخص کو بینک کے سامنے لوٹ کر قتل کردیا گیا۔ ایک چار سالہ بچی بھی گولیوں کا نشانہ بنی۔ آخر کراچی میں ہوکیا رہا ہے؟ حکومت اور پولیس نام کی کوئی چیز کراچی میں نظر نہیں آ رہی۔ گزشتہ ہفتے سینئر صحافی طارق متین کے بھائی اطہر متین ڈاکوئوں کی سفاکیت کا شکار ہوگئے۔ وہ بچوں کو سکول چھوڑ کر آرہے تھے کہ دیکھا ڈاکو ایک شہری کو لوٹ رہے تھے‘ انہوں نے اپنی گاڑی سے ڈاکوئوں کی موٹر بائیک کو ٹکر ماری اور شہری کو ڈاکوئوں سے بچانے کی کوشش کی؛ تاہم ڈاکوئوں نے ان کو سینے پر گولیاں برسا دیں۔ ایک ہونہار صحافی منوں مٹی تلے جا سویا۔ اس خبر پر پورا پاکستان سوگوار ہے۔
اگر سکیورٹی ادارے اپنا کام درست طریقے سے نہیں کر سکتے تو شہریوں کو اسلحہ لائسنس دے دیں تاکہ روڈ پر شہری نہتے نہ مارے جائیں۔ چوری کے موبائل فون کی خرید و فروخت پر نظر رکھی جائے‘ اس دھندے کے پیچھے کون ہے‘ پولیس کے مخبر اس بات کا پتا بہ آسانی لگا سکتے ہیں لیکن شاید پولیس میں کوئی جذبہ‘ کام کرنے کی کوئی لگن نہیں ہے۔سرکاری شخصیات کی سکیورٹی کم کرکے نفری عوام کی حفاظت پر مامور کی جائے۔یہ لوگ تو پرائیوٹ سیکورٹی بھی لے سکتے ہیں‘ انہیں تو کوئی خطرہ نہیں‘ خطرہ تو عوام کو ہے۔ جگہ جگہ پولیس اور رینجرز کے ناکے لگائے جائیں اورسٹریٹ کرائمز کے خلاف بھرپور آپریشن کیا جائے۔ قتل کرنے والے مجرموں کو پھانسی سے کم سزا نہ دی جائے اور سزائوں پر فوری عمل کیا جائے تو شہر کا امن و امان بہت حد تک بحال کیا جا سکتا ہے۔ اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ کراچی میں عملاً ڈاکو راج نافذ ہے اور حکومت سو رہی ہے۔