سیاسی میوزیکل چیئر

جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو ایک کھیل بہت شوق سے سکول میں کھیلا جاتا تھا اس کو میوزیکل چیئر کہتے تھے۔ اب بھی بچے یہ کھیلتے ہیں۔ میوزک چلتا ہے‘ سب بچے کرسی پر بیٹھنے کے لیے دائرے میں گول گول گھومتے ہیں‘ جو کرسی پر بیٹھنے سے رہ جاتا ہے وہ گیم سے باہرہوجاتا ہے۔ میوزک چلتا ہے تو بچے گول دائرے میں بھاگتے ہیں اور جیسے ہی میوزک رکتا ہے کرسی پر بیٹھنا ہوتا ہے۔اس طرح کرسی پر نہ بیٹھ سکنے والے بچے گیم سے آؤٹ ہوتے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ مزا اس وقت آتا ہے جب ایک کرسی ہوتی ہے اور دو بچے اس کے دعوے دار ہوتے ہیں۔ میوزک بج رہا ہوتا ہے‘ دو بچے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوتے ‘ ساتھ کرسی پر نگاہ ہوتی ہے پھر میوزک بند ہوتا ہے اورایک بچہ کرسی پر بیٹھ جاتا ہے اور دوسرا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔کبھی کبھی تو اس گیم میں بچے کرسی کے لیے ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہیں‘ یہاں تک کہ بال اور کپڑے تک نوچ دیتے ہیں ‘تاہم جہاں اساتذہ یا پی ٹی سر ہاتھ میں ڈنڈا لیے سر پر کھڑے ہوں وہاں یہ کھیل تمیز سے کھیلا جاتا ہے۔ جوں ہی بڑے سر سے ہٹیں بچے اودھم مچانا شروع کردیتے ہیں۔
اس وقت ملک کی صورتحال بھی یہی ہے کہ سیاسی میوزیکل چیئر جاری ہے۔یہ بھاگ دوڑ اور سیاسی کشمکش عوام کے لیے نہیں ہے‘ یہ سب کرسی کا کھیل ہے۔بس اقتدار چاہیے‘ اسی کے لیے یہ سب ہورہا ہے۔ اپوزیشن میں رہنے میں وہ لطف نہیں آتا جو اقتدار میں رہنے سے آتا ہے۔ آپ سیاہ سفید کے مالک بن جاتے ہیں‘اسی لئے سیاست کی جاتی ہے کہ اقتدار میں رہا جائے‘ اپنے خاندان کو نوازا جائے۔ اس کے ساتھ دوست احباب اوررشتہ دار وںکو بھی نوازا جاتا ہے۔ آف شور اکاؤنٹ بن جاتے ہیں‘ اربوں کی جائدادیں بن جاتی ہیں اور منی ٹریل نہیں ہوتی۔ جب منی ٹریل مانگو تو جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے۔ اس وقت جو سیاسی میوزیکل چیئر ملک میں جاری ہے اس کا مقصد بھی اقتدار کا حصول ہے۔ عوام مہنگائی سے مریں یا بیماری سے‘ کسی کو کوئی پروا نہیں۔سوشل میڈیا پرایک دوسرے پر حملے ہورہے ہیں‘ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے‘ بدزبانی‘ الزامات اور طعنے عروج پر ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف تقاریر اور بیانات کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بھی چلائے جارہے ہیں۔
میں اکثر سوچتی ہوں کہ شخصیت پرستی بھی بت پرستی کی طرح ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں جس کو جو شخصیت پسند آجائے وہ اس کو پرستش کی حد تک چاہنا شروع ہوجاتا ہے۔ مسلم لیگ نواز ‘ پیپلز پارٹی ‘ تحریک انصاف ‘ مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم‘ ان کے کارکنان میں سے اکثر اپنی اپنی پسندیدہ شخصیات کے سحر میں گم ہیں۔ ان کی صرف تعریف کی اجازت ہے‘ ان پر مثبت تنقید نہیں کرسکتے۔جماعت ِاسلامی کے کارکنان بہت تہذیب سے کام لیتے ہیں باقی جماعتوں میں اس کا فقدان ہے۔ ان کے اکثر کارکنان اپنے لیڈروں کے پیچھے ایک دوسرے سے دوستیاں اور رشتہ داریاں تک خراب کرلیتے ہیں۔ ایک دوسرے سے بات چیت ختم کردیتے ہیں۔ پھر انہی کو ان کے ان کے لیڈرز کبھی گاڑی کے نیچے کچل دیتے ہیں‘ کبھی ان کے سکیورٹی والے ان کو دھکے مارتے ہیں تو کبھی وہ اگر ان لیڈرز کے پروٹوکول کے درمیان آجائیں تو ان کے لیڈرانہیں حقارت سے ہٹانے کا اشارہ کرتے ہیں۔کارکنوں کو میلے کچیلے اور اچھوت سمجھا جاتا ہے کہ ان کے ہاتھ لگنے سے امیر کبیر لیڈر میلے ہوجائیں گے ۔ویسے بھی جتنے پیسوں کے یہ لیڈر جوتے پہنتے ہیں اتنی تو غریب کارکن کی سال بھر کی کمائی نہیں بنتی۔ پھر بھی یہ ان کے لیڈر ہیں اور رہیں گے۔
سب سیاست دان برے نہیں لیکن سب اچھے بھی نہیں‘ خاص طور پر وہ جن کو خاندان کی وجہ سے کرسی اور دولت ملی ہے۔ میرے نزدیک وہ بالکل بھی پاکستان کے لیے فائدہ مند نہیں ہیں۔ ایک بچہ کرپشن کے پیسے پر پروان چڑھتا ہے‘ جس نے کبھی غربت دیکھی نہیں ‘وہ کیا عوام کے درد کو سمجھے گا؟
ابھی لانگ مارچ ہوا‘ پی پی پی نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ‘کچھ جگہوں پر ان کے جلسے کامیاب رہے اور کچھ جگہوں پر حاضری بس مناسب ہی تھی‘ تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ اس ملک کے مقتدر حلقے بلاول بھٹو کو پسند کرتے ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اسلام آباد اور پنجاب میں پی پی پی اب وجود نہیں رکھتی جبکہ 90 ء کی دہائی میں یہاں پی پی کا ہولڈتھا۔ اگر پی پی پی اگلے الیکشن میں کچھ سیٹیں یہاں سے نکالنا چاہتی ہے تو ابھی سے کام شروع کردے ورنہ پی پی پی صرف سندھ تک محدود رہے گی۔ زرداری صاحب تو سیاسی بساط کے بادشاہ ہیں‘ وہ ہاری ہوئی بازی کو جیت سکتے ہیں۔اسی طرح مریم نواز ہیں ان کی جماعت پنجاب میں بڑی قوت ہے تاہم ان کی شعلہ بیانی اور لوگوں کے خلاف نفرت آمیز بیانات جاری ہیں‘ فی الحال ان کے حکومت میں آنے کے چانس نہیں ہیں۔ اب اگر تحریک عدم اعتماد آتی ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ حکومت کے نمبر کم یا اپوزیشن کے پاس نمبر زیادہ ہوجائیں۔ رائے شماری میں اپوزیشن کبھی اپنے نمبر پورے نہیں کرپاتی۔ ہر بار یہی ہوا ہے اور ممکنہ طور پراب بھی یہی ہوگا۔میرا خیال ہے جلسے ہوں‘ دھرنے ہوں یا ریلیاں ہو ںیا تحریک عدم اعتماد‘ حکومت نہیں جانے والی۔
اپوزیشن اس وقت پوری طرح حکومت کے خلاف سرگرم ہے۔ نئے سیاسی اتحاد بن رہے ہیں اور حکومت بھی ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہے‘ تاہم کیا ہونے والا ہے‘ کیا اگلے 48گھنٹے اہم ہیں‘ یہ ایک مذاق ہی ہے۔ جو حکومتی ہمدرد گزشتہ تین برس سے کہہ رہے ‘ یہی کرتے کرتے تین سال گزر گئے اور اگلے دو سال بھی گزرجائیں گے‘ تاہم افواہیں معیشت کوبری طرح متاثر کرتی ہیں۔ جو لوگ خود کو جمہوری کہتے ہیں وہ کیسے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کا جال بُن سکتے ہیں؟ کیا یہ سیاست دان‘ صحافی‘ اینکرز جمہوری ہوسکتے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ حکومت گر جائے اور وزیر اعظم گھر چلے جائیں؟ اتحادی نیا موقع دیکھ کر پر تول رہے ہیں۔ حکومت اتحادیوں کے ساتھ مل کر اسمبلی میں 179ووٹ رکھتی ہے اور اپوزیشن کے 162 ارکان ہیں ‘ تو مقابلہ بہت سخت ہے۔ اگر ایم کیو ایم اور ق لیگ ساتھ چھوڑ گئی توعمران خان اکثریت کھو دیں گے۔جمہوریت کو سب سے زیادہ خطرہ ایسے لوگوں سے ہیں جو دوسروں کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں‘ حکومت کو چلنے نہیں دے رہے ‘ ہارس ٹریڈنگ کررہے ہیں اور وفاداریاں خرید رہے ہیں۔ کیا جمہوری اقدار یہ ہیں؟ تو پھر آمریت کس چڑیا کانام ہے؟
اپوزیشن کے کھیل تماشے 23 مارچ اور او آئی سی سمٹ کے بعد بھی ہوسکتے تھے‘ لیکن ایک جماعت نے 23 مارچ کو احتجاج کا اعلان بھی کررکھا ہے۔یہ سب کچھ بہت حیرت ناک ہے کہ قومی دن پر کیا دھرنادینا اورجلسہ کرنا زیب دیتا ہے؟اقوام اپنے اہم دن پورے جوش و خروش سے مناتی ہیں‘ اس لئے اس سیاسی ہنگامے کو 23 مارچ اور او آئی سی اجلاس تک مؤخر کردینا چاہیے۔ اس کے بعد جوکرنا ہے شوق سے کریں۔ ابھی پھر پارٹیاں تبدیل ہورہی ہیں ‘گلے شکوے چل رہے ہیں‘ دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی بساط کس طرح سے تبدیل ہوگی‘ تاہم تجزیہ نگار یہی کہہ رہے ہیں کہ حکومت جا نہیں رہی۔
اب حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کو ریلیف دے۔ عوام اس وقت بے روزگاری اورمہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ حکومت اگر چاہتی ہے کہ ان کے خلاف سازشیں کارآمد ثابت نہ ہوں تو عوام کی خدمت کریں اور عوام کے دل جیت لیں۔ اس وقت عوام سب سے زیادہ مہنگائی اور مہنگے علاج کی وجہ سے پریشان ہیں۔ فوری طور پر رمضان پیکیج کا اعلان کریں تاکہ غریب عوام روزے اطمینان سے رکھ سکیں۔ راشن حکومت خود غریبوں کو ان کے گھروں میں فراہم کرے۔اگر عوام کی طاقت حکومت کے ساتھ ہوگی تو کوئی ان کووقت سے پہلے گھر نہیں بھیج سکتا۔ سیاسی داو ٔپیچ میں عوام کو مت بھولیں۔ یہ کرسی انہی کی طرف سے دی گئی ہے‘ اس لئے ان کاحق ادا کریں۔ جو یہ کرے گا اس کو اگلی باری ملے گی اور جو یہ نہیں کرے گا وہ کچھ عرصہ میں اس سیاسی میوزیکل چیئر سے باہر ہوجائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں