تحریکِ عدم اعتماد اور لانگ مارچ

اس بار پاکستان کی اپوزیشن نے سب کو حیران کردیا‘ بہت متحد ہوکر حکومت کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ اس سے پہلے بھی تحریکیں اور جلسے ہوئے لیکن اپوزیشن اس سے پہلے اتنی متحد کبھی دکھائی نہیں دی جتنی اس بار۔ ہر بار ان کی اندرونی لڑائیوں سے فائدہ حکومت وقت ہی کو ہوا ‘ ،مگر اس بار اپوزیشن اپنی چالیں بہت سوچ سمجھ کر چل رہی ہے۔ شاید ہی سیاسی شطرنج کی بساط پر ایسا کوئی پتہ ہو جو اپوزیشن سامنے نہ لائی ہو۔ سندھ ہاؤس میں نمبر پورے کرنی کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے‘ لیکن خرید و فروخت جو بھی کرے قابلِ مذمت ہے ۔لوٹا ازم اور ہارس ٹریڈنگ پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہیے۔
اس سب سیاسی بحران میںعوام پِس کر رہ گئے ہیںاور معیشت بری طرح متاثر ہے۔ اس دوران سیاسی لوٹے کروڑوں روپے کماجاتے ہیں مگر عوام ‘تاجر وںور سٹاک ایکسچینج کا معاشی طور پر جو نقصان ہورہا ہے اس کا اشرافیہ کو اندازہ بھی نہیں۔ وہ تو کرسی کا کھیل کھیل رہے ہیں‘ اس کے علاوہ انہیں کچھ سمجھ نہیںآتا۔ اس دوران عوام چاہے مہنگائی سے مریں یا بیماری سے‘ اس سے اشرافیہ کو کوئی واسطہ نہیں ۔
بلاول بھٹو زرداری اپنا لانگ مارچ لے کر نکلے‘ خوب دھواں دار تقاریر ہوئیں کچھ جگہوں پر ان کا خوب استقبال ہوا اورہزاروں کارکنوں نے شرکت کی تاہم ان جلسوں اور دھرنوں سے عوام کو کیا فائدہ ہوتا ہے ؟کچھ بھی نہیں۔عوام کو جلسوں دھرنوں سے کچھ نہیں ملتا ۔اس وقت کی سیاسی جہدوجہد عوام کے لیے نہیں ہے‘ یہ صرف کرسی کی جنگ ہے کہ اقتدار مل جائے۔ ایک حکومت کو پانچ سال پورا کرنے چاہئیں۔ اسی طرح ایک وزیراعظم کو پانچ سال پورے کرنے چاہیں۔ پر یہاں تو سیاسی لوگ خود ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اور جمہورت کو ڈی ریل کرنے کے خواہاں ہیں۔
سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ کل کے دوست آج دشمن ہیں اورآج کے مخالف کل کے اتحادی ہوسکتے ہیں۔ جیسا تحریک انصاف کے ساتھ ہوا کہ ان کو ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کے ساتھ مل کر حکومت بنانا پڑی۔ اسی لئے پاکستانی سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں۔ اس وقت جس چیز پر مجھے شدید حیرانی اور رنج ہے وہ اس بات پر ہے کہ سیاست دان ہی سیاست کی بساط لپٹنے پر لگے ہوئے ہیں۔ سیاست دان ‘ ان کے میڈیا سیل اور ان کے چہیتے لکھنے اور بولنے والے اس میں زور وشور سے حصہ ڈال رہے ہیں۔ میرے لئے یہ چیز باعث ِرنج ہے۔میری پرورش ایک جمہوری خاندان میں ہوئی ہے۔ مجھ سمیت بہت سے بچے پرویز مشرف کے خلاف احتجاج کرتے تھے اور شاہراہ ٔدستور پرحکومت کے خلاف نعرہ بازی کرتے تھے۔ ہم جمہوریت کے ساتھ رومانس میں تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ جیسے ہی غیر جمہوری حکومت ہٹے گی تو ملک جنت نظیر بن جائے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہوا اور ہم نے جمہوری آمر یت بھی دیکھ لی۔ کوئی میڈیا کی آواز دبانا چاہتا ہے تو کسی کا غرور تکبر عروج پر تھا‘ کوئی کرپشن کے ریکارڈ قائم کرگیا۔ ہم سب یہ تماشے دیکھتے رہے ہیں اور حیران رہ ہیں کہ یہ ہیں اس ملک کی جمہوریت کے رنگ؟ یہ دیکھتے ہوئے لگتا ہے جمہوریت آمریت میں کوئی خاص فرق نہیں۔ اس ملک کی جمہوریت میں پارٹی کا سربراہ ایک آمر ہی کی طرح ہوتا ہے ۔ موروثیت اتنی زیادہ ہے کہ لیڈر کے بعد اس کی پارٹی کی صدارت صرف بیوی‘ شوہر‘ بیٹا ‘بیٹی‘ بہو اور داماد ہی کو ملتی ہے۔ پارٹی کا کوئی کارکن یا سینئر لیڈر اس کا اہل نہیں ہوتا۔
ملک کی سیاسی پارٹیوں کی طرف توجہ مرکوز کریں تو واضح ہو گا کہ خود ان جماعتوں میں جمہوریت نہیں‘ تو ملک میں کیسے جمہوریت پھلے پھولے؟ اب یہ سب مل ایک منتخب حکومت کو گرانا چاہتے ہیں ۔یہ بھی نہیں دیکھ رہے کہ 23 مارچ‘ یوم پاکستان اور اوآئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کا 48 اجلاس اسلام آباد میں جاری ہے ۔وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کا موضوع ''اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری‘‘ ہے۔ اس وقت خطے کے ممالک اور دنیا مسلم ممالک کی سب سے بڑی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اس سب سے بڑے اکٹھ پر ہے۔کچھ دن پہلے ہندوستان نے براہموس میزائل پاکستان میں مار دیا اس پر بھی میڈیا اور اپوزیشن چپ رہے۔ ہمارے ملک میں صرف سیاست پر بات ہورہی ہوتی ہے اور سیاست دان میڈیا اکثر ملکی دفاع بھول جاتے ہیں۔ابھی ایک باپ نے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا‘ ایک جوان لڑکی نے گھریلو تشدد سے تنگ آکرخود کشی کرلی اور ایک غریب شخص نے مہنگائی کے باعث خود کو پھندے سے لٹکا کر جان دے دی۔ میڈیا کی70 فیصد کوریج اپوزیشن کی خبروں پر مبنی ہے۔ عالمی‘ دفاعی اور سماجی خبریں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ اپنے ملک کی نظریاتی حدود کی نگہبانی کریں‘ لیکن یہاں تو سارا دن سیاست سیاست ہی کھیلا جاتا ہے۔ میں اکثر کہتی ہوں کہ شخصیت پرستی بت پرستی کی طرح ہے۔ اس میں انسان اچھا برا دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔اس لئے شخصیت پرستی سے باہرآئیں۔ اللہ نے ہم سب کوآنکھیں ‘دماغ اور ضمیر دیا ہے۔ تو کرپشن کو کیوں سپورٹ کرنا ہے؟ موروثیت کو کیوں سپورٹ کرنا ہے؟ کیا اس ملک میں ٹیلنٹ کی کمی ہے ؟ایسا ہرگز نہیں ۔ نئے چہروں کو سامنے آنا چاہیے‘ جن کا ماضی کرپشن فری ہو۔
اس وقت اپوزیشن اور حکومت اپنے اپنے جلسوں کی رونق بڑھانے اور نمبر پورے کرنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔اس وقت مائنس ون کی آوازیں سننے میںآرہی ہیں۔ اپوزیشن عمران خان کو ہٹانے کی خواہاں ہے‘ وہ چاہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے وزیر اعظم استعفیٰ دے جائیں۔ وزیر اعظم ایسے موڈ میں بالکل نہیں کہ وہ کسی بلیک میلنگ میںآجائیں۔ اپوزیشن اور حکومت کو تمام معاملات آن دی فلور حل کرلینے چاہیں کیونکہ آف دی فلور بہت سی چیزیں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں۔سیاسی معاملات کو سیاسی سوجھ بوجھ سے حل کرنا چاہیے۔
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو طلب کیا ہے تاہم اپوزیشن اجلاس میں تاخیر پر خوش نہیں‘ لیکن اوآئی سی کانفرنس کے دوران قومی اسمبلی کا اجلاس تو ممکن نہیںتھا مگر شاید اپوزیشن کچھ زیادہ جلدی میں ہے۔ بلاول بھٹو بھی مریم نواز کی ڈگر پر چل پڑے ہیں ۔ہر وقت شعلہ بیانی اور غصے سے بھرے رہتے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اوآئی سی کانفرنس کیسے ہوتی ہے۔ وہ بھول گئے کہ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے سر یہ سہرا جاتا ہے کہ انہوں نے اوآئی سی کی سربراہی کانفرنس کا پاکستان میں انعقاد کروایا اور امت مسلمہ کو یہاں اکٹھا کیا۔
حکومت پُرامید ہے کہ وہ نمبر پورے کرجائے گی جبکہ اپوزیشن یہ کہہ رہی کہ 172 کا ہندسہ پورا کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں۔ تحریک انصاف نے چودہ منحرف ارکان کو نوٹس بھی جاری کردیے ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ناراض ارکان واپس آجائیں۔ تحریک عدم اعتماد ایک سیاسی عمل ہے جس کا حق آئین دیتا ہے‘ لیکن اس سے پہلے خرید و فروخت ‘ہارس ٹریڈنگ اور وفاداریاں تبدیل کرنا بہت افسوس ناک ہے۔ میرے نزدیک وفاداریاں تبدیل کرنے والوں اور خرید و فروخت کرنے والوں پر تاحیات سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ سندھ ہاؤس کو وفاق میں صوبے کی علامت رہنے دیں ‘اس کو خرید و فروخت کی منڈی مت بنائیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جو ایم این اے غلطی کر بیٹھے ہیں وہ واپس آجائیں ۔ اب دیکھنا ہے یہ کہ اتنی بڑی آفر کے بعد منحرف ارکان واپس آتے ہیں یا نہیں۔ جو کچھ سندھ ہاؤس میں ہوا وہ افسوسناک ہے اور سندھ ہاؤس پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کا حملہ بھی افسوس ناک ہے۔اسی لیے تو کہتے ہیں کہ یہ جلسے دھرنے مؤخر کرنے چاہئیں کیونکہ پھر سیاسی عمل پر امن نہیں رہے گا۔ عوام ایک دوسرے سے لڑتے پھریں گے اور املاک کو بھی نقصان پہنچے گا۔اگر جلسے بہت ہی ضروری ہیں تو شہر سے باہر کرلیں۔ اقتدار کے چکر میں شہرِ اقتدار کے باسیوں کو تو تنگ مت کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں