سیاسی انگزائٹی

عوام گزشتہ کچھ ہفتوں سے شدید بے چینی کا شکار ہیں۔ سب کے لبوں پر ایک ہی سوال ہے کہ آگے کیا ہو گا‘ کیا ہونے والا ہے؟ ہر طبقۂ فکر کو اس سیاسی کشمکش نے متاثر کیا ہے کیونکہ اگر ملک کے سیاسی حالات تنائو کا شکار ہوں یا بگڑ جائیں تو سب سے زیادہ معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ معیشت کا بگاڑ عوام کی کمر توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ان دنوں ہر کوئی مجھ سے سوال کرتا رہا کہ کیا ہونے والا ہے؟ میں پہلے تو یہ کہہ کر تسلی دیتی رہی کہ کچھ نہیں ہوگا لیکن پھر میں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ لگتا ہے کہ حکومت اسمبلی میں معاملہ سنبھال لے گی۔ مجھے ذاتی طور پر سیاست سے دلچسپی نہیں ہے اور میں اس ایشو پر زیادہ بات کرنا یا لکھنا بھی پسند نہیں کرتی۔ میرے کم ہی کالم سیاست پر ہوتے ہیں۔ مجھے متفرق موضوعات پسند ہیں‘ ایک ہی موضوع پر لکھنے سے تحریر میں یکسانیت آجاتی ہے مگر اب حالات ایسے بن گئے ہیں کہ سب کو اپنے کام سے زیادہ سیاسی حالات کی فکر ہے۔ گزشتہ دو ہفتے یہی کشمکش رہی کہ کیا ہوگا ؟حکومت جارہی ہے یا نہیں؟ کیا عمران خان وزیراعظم رہیں گے؟ کیا اپوزیشن نمبر پورے کرپائے گی؟ یہی سوالات ہر ذہن میں گردش کررہے تھے۔ ٹی وی چینلز‘ ٹویٹر‘ فیس بک‘ انسٹاگرام‘ غرض ہر فورم پر سیاسی بحث ہی جاری تھی اور اب بھی ہے۔ اس بحث میں الجھ کر لوگ آپس میں بھی لڑتے رہے۔ صحافیوں نے بھی اپنی اپنی فکر کے مطابق مختلف تبصرے کیے۔ایک طرف گرما گرم سیاسی بحث جاری تھی تو دوسری جانب موسم نے بھی اپنے تیور دکھانا شروع کر دیے اور ملک سردی کے فوراًبعد شدید گرمی کی لپیٹ میں آگیا۔ درمیان کا معتدل موسم بیچ میں ہی کہیں گم ہو گیا۔
اس بار یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پہلے روزے کے ساتھ ہی سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں حالانکہ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ ملک بھر میں رمضان المبارک کے دوران سیاسی سرگرمیاں ماند پڑجاتی ہیں؛ تاہم اتوار کی صبح کا انتظار تمام پاکستانیوں کو تھا کیونکہ اس دن فیصلہ ہونا تھا کہ حکومت جیتے گی یا فتح اپوزیشن کی ہو گی۔بہت سے لوگوں نے یہ افواہ اڑا دی پی ٹی آئی کے کارکنان اراکینِ اسمبلی کہ راہ میں رکاوٹ
بن جائیں گے اور اسلام آباد میں ہنگامہ آرائی کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے باعث تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہو سکے گی، الحمدللہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پولیس نے پورا علاقہ سیل کررکھا تھا۔ ارکانِ اسمبلی آرام سے آئے اور ایوان میں چلے گئے۔ پی ٹی آئی کے کارکنان بولنے کی حد تک تو سرگرم رہتے ہیں مگر پُرتشد نہیں ہیں۔اتوار کے روز اپوزیشن اور تحریک انصاف کے کارکنان سمیت پوری قوم کے دل زور زور سے دھڑک رہے تھے کہ کیا ہونے والا ہے۔ عوام بے چینی کا شکار تھے۔ فواد چودھری نے اسمبلی میں تاریخی تقریر کی اور اس کے بعد ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری نے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا۔ پھر جب یہ اعلان ہوا کہ وزیراعظم قوم سے خطاب کریں گے تو مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وزیر اعظم اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سفارش کریں گے اور جلد انتخابات کی طرف جانے کا عندیہ دیں گے، پھر یہی ہوا۔وزیر اعظم نے اسمبلی توڑنے کی درخواست صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھجوا دی جو انہوں نے فوری طور پر قبول کرلی۔ یوں اپوزیشن ایوان میں ہی بیٹھی رہ گئی۔ شیروانیاں الماریوں میں ہی لٹکی رہ گئیں۔ جو ایم این اے حکومت گرانے کے لیے ایوان میں آئے تھے جب وہ اجلاس کے بعد ایوان سے نکلے تو رکنِ اسمبلی بھی نہیں رہے تھے۔البتہ اب اپوزیشن نے یہ معاملہ عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے اور عدالت روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت کر رہی ہے‘ دیکھیں کیا فیصلہ آتا ہے۔
اپنے کرکٹ کیریئر میں عمران خان ویسے تو ایک آل رائونڈر تھے مگر ان کی شہرت ایک فاسٹ بائولر کی تھی اور سیاست کے کھیل میں بھی وہ ایسی گیند بازی کرگئے کہ سب یاد رکھیں گے۔ ان کا حالیہ فیصلہ ایک ایسا بائونسر ہے جو منحرف ارکان سمیت پوری اپوزیشن کو زخمی کر گیا۔ خان صاحب نے سیاسی بساط پر اپنے کارڈز بہت سوچ سمجھ کر کھیلے اور اتوار کو پوری اپوزیشن کو کلین بولڈ کردیا۔ اس وقت ان کی مقبولیت کا گراف 2013ء اور 2018ء سے بھی بلند ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ عوام کی حمایت بھی جیت گئے ہیں۔ اپوزیشن کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ وہ تو اقتدار حاصل کرنے آئی تھی لیکن یہاں تو قومی اسمبلی کی سیٹ بھی ہاتھ سے چلی گئی۔
ابھی جو جلسے ہوئے ہیں‘ ان میں یہی دیکھا گیا ہے کہ جتنا کرائوڈ تمام اپوزیشن مل کر نہیں لاسکی‘ اس سے کہیں زیادہ عوام عمران خان کے جلسے میں شریک تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ معاملہ کس کروٹ بیٹھے گا اور آگے کیا ہونے جارہا ہے۔ خان صاحب نے اسمبلیاں تو تحلیل کردی ہیں‘ اب اپوزیشن کے پاس کیا فیس سیونگ رہ گئی ہے۔ بہتر ہوتا کہ اپوزیشن مقدمہ بازی میں پڑنے کے بجائے عوام میں واپس جاکر الیکشن کی تیاری کرتی کیونکہ موجودہ سیاسی حالات میں قومی اسمبلی کے اکثر نمائندوں کے پاس عوامی حمایت یا مینڈیٹ نہیں رہ گیا۔ اپوزیشن تو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا سکتی ہے‘ عوام اپنے مینڈیٹ کا کس طرح تحفظ کریں؟ اس لیے میری نظر میں یہی بہتر ہے کہ انتخابات کی طرف جایا جائے اور دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلیوں میں آیا جائے۔
عوام بھی اب بہت ہوشیار ہوگئے ہیں۔ وہ ووٹ دینے سے پہلے اپنے حلقے کے ایم این اے‘ ایم پی اے سے سوال کریں گے کہ آپ نے گزشتہ ساڑھے تین سال میں کون کون سے کام کیے ہیں؟ جن اراکینِ اسمبلی نے اپنے حلقوں میں کام کرائے‘ خود کو کرپشن سے دور رکھا‘ وہ تو منتخب ہو کر دوبارہ اسمبلیوں میں آجائیں گے لیکن جو لوٹا بنے‘ اور تھوڑے سے مفادات کی خاطر مشکل وقت میں اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے نہ رہ سکے‘ ان کو عوام مسترد کردیں گے۔ اب کارکردگی کی بنا پر ووٹ ملیں گے۔ لوگ محلاتی سازشوں سے کرپٹ چہروں کو خود پر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔جس نے اسمبلیوں میں آنا ہے وہ آئے تو ووٹ لے کر آئے‘ عوام کی طاقت کے ساتھ آئے۔ چھپ چھپ کر ملاقاتوں سے عوامی جذبات تبدیل نہیں ہوں گے۔
ویسے میرا نظریہ یہی ہے کہ ایک جمہوری حکومت اور اسمبلی کو پانچ سال کی آئینی میعاد پوری کرنا چاہیے۔ ایک وزیر اعظم کو اپنی 5 سالہ مدت پوری کرنا چاہئے؛ تاہم جب سیاستدان ہی سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہو جائیں تو کیا کیا جائے؟ یہاں سیاست دان ہی جمہوریت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو جاتے ہیں، ہارس ٹریڈنگ اور خریدوفروخت کی وہ منڈیاں لگتی ہیں کہ دیکھنے پر بھی یقین نہیں آتا۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں منحرف ارکان اور حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے جو منفی رول پلے کیا ہے‘ وہ بھلایا نہیں جائے گا۔ اگر وہ ساڑھے تین سال بعد حکومت کو بیچ منجدھار میں نہ چھوڑتی تو حکومت کو یہ انتہائی اقدام نہ کرنا پڑتا۔ نہ اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑتے‘ نہ اسمبلیاں تحلیل ہوتیں۔ جوکچھ ہوا‘ میری نظر میں اس کی ذمہ دار ی اپوزیشن پر عائد ہوتی ہے۔ اب ایک منتخب حکومت گھر چلی گئی، ساری اسمبلی گھر چلی گئی۔ کیا ملا اپوزیشن کو یہ سب کرکے؟ کچھ بھی نہیں۔ یہ تو کھایا پیا کچھ نہیں‘ گلاس توڑا بارہ آنے والا معاملہ ہو گیا۔ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی شیروانیاں ٹنگی رہ گئیں۔ حمزہ شہباز کا تو اب بھی چانس ہے مگر لگتا ہے کہ شہباز شریف کو لمبا انتظار کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف عوام میںیہ شعور بھی اجاگر ہوتا جا رہا ہے کہ اب موروثی سیاست نہیں چلے گی۔ صرف وہ سیاستدان چلے گا جو کرپٹ نہیں‘ جو محنتی ہے اور ملک و قوم سے محبت رکھتا ہے۔
اس وقت سب سے زیادہ غیر یقینی صورتحال حکومت کی عدم موجودگی کے سبب ہے۔ اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ نگران سیٹ اَپ کا ہیڈ کون ہوگا؟ نئے الیکشن کب ہوں گے اور کیا وہ الیکٹرانک ووٹنگ سے ہوں گے؟ عوام اس وقت سیاسی انگزائٹی میں مبتلا ہیں۔ کیا ہوگا؟ کیاہونے والا ہے؟ بس یہی تلوار ان کے سروں پر لٹک رہی ہے۔اب کتنے ہی منصوبے التوا میں چلے جائیں گے۔ رمضان میں عوام کو ریلیف پیکیج ملنا چاہئے تھا‘ ان کی دادر سی ہونا چاہیے تھی لیکن یہاں تو سب گھر چلے گئے۔ بساط ہی الٹ دی گئی۔ کاش کہ سیاست دان ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ہنر سیکھ سکیں‘ وہ دوسروں کو کام کرنے دیں۔ افسوس کہ یہاں ایسی روایت جڑ نہیں پکڑ سکی، الٹا قوم مزید حصوں میں تقسیم ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت ہونا تو یہ چاہیے کہ سب متحد ہوکر اس سازش کو بے نقاب کرتے جو حکومت کی تبدیلی کے خلاف یہاں رچائی گئی مگر یہاں الزام تراشی کا نیا بازار گرم ہو گیا ہے۔ ہمیں ملک کے خلاف تمام سازشوں کا مل کر مقابلہ کرنا چاہیے؛ تاہم یہاں کوئی متحد ہی نہیں۔ آخر کسی بھی وزیر اعظم کو پانچ سال کی مدت مکمل کیوں نہیں کرنے دی جاتی؟ ہم ایک باشعور قوم ہیں‘ کیا ہمیں ان چیزوں پر کام کرنے کی ضرورت نہیں کہ جمہوریت کو اس ملک میں کیسے مضبوط کیا جائے؟ اس ملک میں جمہوری سسٹم کو چلنے دیا جائے اور حکومت‘ وزیراعظم اور اسمبلی کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں