ملک کی سیاست میں غصہ‘ نفرت اور الزام تراشیاں اس وقت عروج پر ہیں۔ یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ یہ لاوا بہت عرصے سے پک رہا تھا۔ اب یہ آتش فشاں پھٹ چکا ہے اور لاوا باہر بہہ رہا ہے جس سے سب متاثر ہورہے ہیں۔ سیاست میں یہ چلن اب سے نہیں‘بہت پرانا ہے۔ ایک دوسرے پر فتوے بازی، انگریزوں کا غلام اور یہودی ایجنٹ ہونے کے الزامات عائد کیے گئے۔ اس کے بعد غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا خطاب اور غدار ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی عام بانٹا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ مذہب کارڈ کھیلتے ہوئے ایک دوسرے پر توہین کے فتوے بھی لگائے گئے۔ پاکستان کے سیاست دان یہ سب کچھ کرتے آئے ہیں اور یہی کچھ اب ان کے کارکنان کر رہے ہیں جس کی وجہ سے لڑائی میں شدت آ گئی ہے۔ ایک بات تو سمجھ آتی ہے کہ سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے کام پر تنقید کرتے ہیں‘ مخالفین کی پالیسیوں کو نشانہ بناتے ہیں لیکن ایک دوسرے پر نجی نوعیت کے حملے کیوں کیے جا رہے ہیں؟ مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں بینظیر بھٹو کے خلاف بہت سی منفی مہمات چلائی گئی تھیں۔ ان کی کردار کشی کی گئی‘ فیک تصاویر بنا کر پھیلائی گئیں یہاں تک کہ ان کے لباس کو بھی مذاق اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے کام پر تنقید ہوتی تو سمجھ بھی آتا لیکن ان کی نجی زندگی یا پہناوے پر تنقید اخلاق سے گری ہوئی حرکت تھی۔ ایسے ہی اور بہت سی خواتین‘ جوسیاست یا صحافت کا حصہ تھیں‘ کی کردار کشی کی گئی یہاں تک کہ ادکارائیں بھی اس مہم سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت بھی سیاسی مخالفین کھل کرایک دوسرے کی خواتین کی کردارکشی کررہے ہیں جو نہایت افسوسناک ہے۔ سب سے زیادہ منفی مہم کا شکار بشریٰ بی بی، مریم نواز، شیریں مزاری، مریم اورنگزیب، زرتاج گل وزیر، حنا پرویز بٹ، کنول شوزب اور ثانیہ عاشق بنیں۔ ماضی قریب میں ماروی میمن، کشمالہ طارق، پلوشہ خان، شیری رحمن اور سمیرا ملک منفی مہمات کی زد میں رہیں۔ پہلے تو لوگ ایسے الزامات کو نظر انداز کر دیتے تھے لیکن اب اس حوالے سے قانونی چارہ جوئی بھی کی جا رہی ہے۔
پہلے اس نوعیت کے حملے زیادہ تر لوکل قیادت کرتی تھی یا گمنام اکائونٹس کے ذریعے سے پروپیگنڈا کیا جاتا تھا مگر اب تو سب اتنے دلیر ہوگئے ہیں کہ کھلم کھلا ایک دوسرے کے کردار پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے سابقہ خاتونِ اول کو متنازع بنانے کی ہر ممکن کوشش کی‘ ان پر جو الزمات عائد کیے گئے‘ ان کے وڈیوکلپس آج بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ بطورِ وزیر اعظم عمران خان نے ان الزامات کا کبھی جواب نہیں دیا اور نہ ہی کبھی کسی کے خلاف کارروائی کی۔ لوگ اس خاموشی سے مزید شیر ہوگئے۔ ان کے خلاف مضامین لکھے گئے‘ یوٹیوب وڈیوز بنائی گئیں‘ کچھ نام نہاد تجزیہ کاروں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ سیاسی مخالفین کی جانب سے پریس کانفرنسز میں ہرزہ سرائی کی گئی۔ عمران خان نے اب پہلی بار جواب دیا ہے جومیرے نزدیک قطعی مناسب نہیں۔
دوسری جانب مریم نواز اپنے جلسوں میں اس سے پہلے کئی بار متعدد نجی نوعیت کے زبانی حملے کرچکی ہیں۔ ان کی تقاریر میں سیاسی مخالفین پر الزامات کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اپنے ہر جلسے میں مخالفین پر کھل کر تنقید کرتی ہیں‘اب جب انہیں جواب دیا گیا ہے تو سب نے اس کو توہین قرار دے دیا ہے۔ اس وقت مریم نواز کی پارٹی حکومت میں ہے‘ انہیں چاہیے کہ عوام کی بات کریں‘ ان کی فلاح کے لیے کام کریں۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز‘ دونوں ایسے جلسے کررہے ہیں جیسے اپوزیشن میں ہوں۔اب پی ڈی ایم کی حکومت ہے‘ اہم وزارتیں بشمول وزارتِ عظمیٰ مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے‘ ان کو اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے۔ ملتان کے جلسے میں عمران خان نے جو تنقید کی تو وہ ایک جملہ تھا جو اخلاقیات کے منافی تھا لیکن اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے آفیشل اکائونٹس اور سیاسی رہنمائوں کی طرف سے جو ٹویٹس کیے گئے یاجو زبان استعمال کی گئی‘ وہ بہت افسوسناک تھی۔
اس وقت عمران خان کے ایک جملے کو لے کر‘ جسے میں نامناسب اور اخلاقیات کے منافی کہہ چکی ہوں‘ خواتین کی توہین کا شور مچایا جا رہا ہے۔ یہ توہین اس وقت کیوں نہیں ہوئی جب پردے کا مذاق اڑایا گیا؟ چنداین جی اوز والے صرف اپنے دوستوں کے لیے آواز بلند کرتے ہیں‘ باقی تمام مسائل پر وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ یہ سیلکٹِو آئوٹ ریج اور جعلی ایکٹوازم ہے۔ آواز اٹھانی ہے تو سب کے لیے اٹھائیں‘ ورنہ چپ رہیں۔ سب سے پہلے مسلم لیگ کے لیڈران کو چاہیے کہ اپنی تقاریر میں سے عمران خان کو مائنس کریں اور عوام کو یہ بتائیں کہ اب ان کے پاس کیا پلان ہیں جس سے وہ عوام کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ عوام کو مہنگائی‘ غربت‘ افلاس اور بیروزگاری سے کیسے بچانا ہے ‘اس پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔ پریس کانفرنس ہو یا کسی جلسے سے خطاب‘ ایک دوسرے پر تنقید میں تقریر ختم ہوجاتی ہے۔
اسی طرح عمران خان کو بھی شریف خاندان پر نجی طور پر کوئی الزام نہیں لگاناچاہیے۔ ان کے کام‘ گورننس پر تنقید کریں مگر کسی کی نجی زندگی پر بات نہیں کی جانی چاہئے۔تحریک انصاف کے ورکرز لندن میں نواز شریف کے گھر کے باہر جمع ہوجاتے ہیں اور مسلم لیگی ورکرز جمائما خان کے گھر کے باہر پہنچ کر نعرہ بازی شروع کردیتے ہیں‘ یہ طرزِ عمل بھی غلط ہے۔ ایک دوسرے کی سیاسی مخالفت ضرور کریں لیکن ایک دوسرے کے اہلِ خانہ‘ گھروں اور نجی زندگی کو چھوڑ دیں۔ کس سیاست دان کے کتنے بچے ہیں‘ کتنی بیویاں ہیں‘ اس نے پسند کی شادی کی یا اس کی طلاق ہوگئی‘ اس طرح کے ایشوز کو موضوعِ بحث بنانا اخلاقیات کے منافی ہے۔ ایک دوسرے کی نجی زندگی کا پردہ رکھیں۔ ایک دوسرے کی سیاست‘ ایک دوسرے کی گورننس‘ ایک دوسرے کی پالیسیوں پربات کریں‘ ان پر تنقید کریں اور اصلاح کے لیے تجاویز دیں مگر کسی کی نجی زندگی کو متنازع مت بنائیں۔ مذہب کارڈ‘ عورت کارڈ‘ لسانی کارڈ اور صوبائیت کارڈ مت کھیلیں۔ اس سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ اب عوام بہت باشعور ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہورہا ہے اور پسِ پردہ مقاصد کیا ہیں۔ اپنی سیاست کا مرکز و محور عوام کو بنائیں اور ان کے مسائل کے حل پر بات کریں۔
سیاست میں الزامات‘ گالی گلوچ اور بہتان تراشی کا کلچر عام ہوگیا ہے۔ جلسوں جلوسوں‘پریس کانفرنسز سمیت سوشل میڈیا پر کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ اس وقت عمران خان کے خلاف سیاسی مخالفین کی طرف سے جو تین ٹرینڈز چلائے جا رہے ہیں‘ وہ سب گالیوں پر مبنی ہیں۔ یہ سلسلہ تھمتا دکھائی نہیں دے رہا۔ دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جلسے میں مولانا صاحب مذہب کارڈ کھیلتے رہے۔ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ ہمارے دشمن ہمارے اندر وہ افتراق و انتشار جو دہائیوں میں بھی نہیں پھیلا سکے‘ رجیم چینج کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر وہ پورے معاشرے میں سرایت کر گیا۔ شہری ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں‘ لیڈران اپنے مخالفین پر حملہ آور ہیں۔ سوشل میڈیا پر جھگڑے ہورہے ہیں۔ ہمیں باہر کا دشمن کیا نقصان پہنچائے گا‘ ہم تو آپس کی لڑائیوں میں ہی پورے ہوجائیں گے۔ جب لیڈران ایک دوسرے سے لڑتے ہیں تو کارکنان بھی ایک دوسرے سے جھگڑنے لگتے ہیں۔ اس لیے سب کو احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک مزید لڑائیوں اور فسادات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس وقت ایسی شخصیات کو سامنے آنا چاہیے جو متنازع نہیں ہیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے حالیہ دنوں میں ایسی چند کوششیں کی ہیں۔ دیگر افراد کو بھی چاہیے کہ وہ سامنے آئیں‘ سیاست دانوں کو سمجھائیں اور ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔ اس وقت ہم سب کو اتحاد کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے غصے کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ تمام سیاست دانوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور اختلاف کو سیاست سے آگے مت بڑھنے دیں۔