جب سے ہوش سنبھالا ہے‘ ایک ہی بات سنتے آرہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ملک کی معیشت ہر چند سال بعد تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے مگر پھر بھی یہ ملک چل رہا ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور بزرگوں کی دعائیں ہیں‘ یہ ملک 27 رمضان المبارک کو بنا تھا‘ یہ شاید اس کی برکت ہے ورنہ یہاں اشرافیہ نے ملک کو نوچ کھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ملک دو لخت ہوا تو وہ بھی اندرونی غلطیاں تھیں جن کا فائدہ بیرونی دشمن نے اٹھایا۔ جب عوام کا مینڈیٹ چوری کیا جائے اور اس میں مداخلت اور سازش ہو تو ردعمل بہت شدید ہوتا ہے۔ نوے کی دہائی میں جب میں سکول میں مطالعہ پاکستان پڑھتی تھی تو جس طرح سے وزیراعظم تبدیل ہوئے‘ وہ تاریخ یاد رکھنا آسان نہ تھا۔ اس وقت دو‘ تین سال بعد ہی اسمبلیاں توڑ دی جاتی تھیں۔ بعد ازاں جب پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو سیاست دانوں کو تھوڑی عقل آئی اورمسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے میثاقِ جمہوریت کرلیا۔ بعد ازاں سیاسی جماعتوں کو این آر او دے کر پرویز مشرف صاحب خود ملک سے باہر چلے گئے۔ اس کے بعد جمہوری دور کا آغاز ہوا جو ملک کو کافی بھاری پڑا۔ سب کو یہ لگتا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں زیادہ کرپشن ہوئی مگر مسلم لیگ (ن) کا دورِ حکومت بھی کچھ کم نہ تھا۔ پاناما پیپرز نے اس کا بھرم بھی توڑ دیا تھا۔
اِس وقت ملک واقعتاً نازک دور اور بدترین معاشی حالات سے گزر رہا ہے اور اس کی وجہ اشرافیہ کے چند غلط فیصلے ہیں ۔سیاست دانوں میں کوئی اتفاق نہیں‘ وہ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔ رہی سہی کسر کورونا کی عالمی وبا نے پوری کردی ۔ اس کی وجہ سے معیشت کو جو ٹھیس لگی‘ اب تک اس کا ازالہ نہیں ہو سکا۔ اب جبکہ معیشت کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کا وقت تھا‘ ہم سیاسی جھمیلوں میں الجھ کر رہی سہی کسر پوری کر رہے ہیں۔ جب تک ہم کرپشن‘ اقربا پروری‘ موروثیت اور امپورٹڈ لوگوں سے جان نہیں چھڑائیں گے‘ ملک کا یہی حال رہے گا۔ ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہم پر ایسے چہرے مسلط کر دیے جاتے ہیں جن کے پاس دیگر ملکوں کی شہریت ہوتی ہے۔ وہ پاکستان کے حالات سے ذرہ بھر بھی واقفیت بھی نہیں رکھتے مگر اس کی قسمت کے فیصلے کر رہے ہوتے ہیں۔ نگران وزیراعظم یا مشیران کے طور پر ایسے افراد کو مدعو کیا جاتا ہے جو صرف ہم پر حکومت کرنے آتے ہیںا ور حکومت ختم ہو جانے کے دوبارہ اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ جاتے ہیں۔ ہم امپورٹڈ چیزوں کے فوبیا سے کب باہر آئیں گے؟ ملک کے اندر اتنا ٹیلنٹ موجود ہے‘ ہمیں اپنے لوگوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے۔
مختلف سیاسی تجربوں نے اس ملک کی معیشت کو تباہ کردیا ہے، آخر کسی حکومت یا وزیر اعظم کو پانچ سال کیوں نہیں پورے کرنے دیے جاتے؟ یہ ملک ہے یا کوئی لیب کہ جہاں ہر وقت تجربات کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی لیب ہوتی تو مسلسل تجربات سے شاید کچھ فائدہ بھی ہو جاتا مگر ملک میں ایک ہی تجربے کو بار بار دہرایا جا رہا ہے‘ اس نیت سے کہ شاید اب کے مختلف نتائج برآمد ہوں گے۔ ہم پوری دنیا میں تماشا بن کر رہ گئے ہیں کہ ہمارے ملک کی جمہوریت کمزور ہے‘ یہاں کسی وزیراعظم کو اس کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی‘ یہاں حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر پاتیں‘ کرپٹ اشرافیہ سزائوں سے بچ جاتی ہے۔ اب اس وقت ملک کی یہ صورتِ حال ہوگئی ہے کہ مہنگائی اور غیریقینی معاشی صورتحال کی وجہ سے عوام پس رہے ہیں مگر کسی کو کوئی پروا نہیں۔
نئی حکومت سے کچھ نہیں سنبھل رہا‘ نہ تو سیاست اور نہ ہی معیشت، جبکہ عوام بھی اس کا مینڈیٹ تسلیم کرتے نظر نہیں آتے۔ جب بھی عوام کا مینڈیٹ محلاتی سازشوں سے چوری ہوگا‘ تو ردعمل شدید ہوگا۔ اب بھی یہی حالات ہیں؛ تاہم میری نظر میں پی ٹی آئی کی جدوجہد پُرامن ہے۔ اس کے جلسے‘ جلوس اور دھرنے وغیرہ ماضی میں پُرامن ہی رہے ہیں۔ پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ اس جماعت کا سپورٹر ہے۔ وہ لوگ کبھی قانون ہاتھوں میں نہیں لیتے۔ پی ٹی آئی نے لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا تو اس سے قبل ہی مختلف شہروں بالخصوص سندھ اور پنجاب کے شہروں میں ان کے خلاف کریک ڈائون شروع ہوگیا۔ حالانکہ یہ جماعت بہت پُرامن ہے اوراس کے کارکنان بالکل بھی پرتشدد نہیں۔ پیر کے جب رات گئے پنجاب پولیس نے تحریک انصاف کے کارکنان پر کریک ڈائون کیا تو چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا اور خواتین‘ بچوں اور بزرگوں کو ہراساں کیا گیا۔ رات گئے پنجاب پولیس نے تحریک انصاف کے کارکنان کے خلاف کریک ڈائون کیا اور پولیس اہلکار بلا اجازت لوگوں کے گھروں میں کود گئے‘ ان کے کمروں میں گھس گئے اور خواتین‘ بچوں کا بھی لحاظ نہیں کیا گیا۔ کراچی میں بھی پی ٹی آئی کی ریلی پر دھاوا بولا گیا اور شدید شیلنگ کی گئی۔ خواتین سے بدسلوکی کی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر کسی کارکن کو گرفتار کرنا ہے تو دن کی روشنی میں‘ ورانٹ کے ساتھ گرفتار کریں۔ اس کے اہلِ خانہ کو ہراساں نہ کریں؛ تاہم اس سے پہلے سوال یہ ہے کہ کسی سیاسی فرد کو گرفتار ہی کیوں کرنا ہے؟ جمہوریت میں احتجاج‘ جلسے اور دھرنے کا حق سب کو حاصل ہے۔ جب پاکستان کا آئین اور قانون عوام کو احتجاج کا حق دیتے ہیں تو حکومت عوام کو روک کیوں رہی ہے؟ عوام کو احتجاج کرنے دیں اور خود گورننس پر توجہ دیں۔ افسوس کہ پی ڈی ایم حکومت خود بھی اپوزیشن کی طرح درعمل دے رہی ہے‘ اسے اس وقت عوامی فلاحی منصوبوں پر کام کرنا چاہیے مگر اس کی ساری توجہ صرف تحریک انصاف پر ہے۔ حد تو یہ ہے کہ حکومتی رہنمائوں کی تقریروں میں بھی عمران خان کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح محاذ آرائی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید، کینسر کی مریضہ ڈاکٹر یاسمین راشد اور دیگر کئی گھریلو خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔ چھوٹے بچے‘ بچیاں روتے رہے کہ سب ہو کیا رہا ہے۔ کیا یہ سب پاکستانی نہیں ہیں؟ کیا ان کا کوئی حق‘ کوئی تحفظ نہیں؟ بالکل ہے! یہ بھی اتنے ہی محترم اور عزت دار ہیں جتنی ہماری اشرافیہ۔ اس لیے ایک دوسرے کے گھروں اور چار دیواری کا احترام کریں۔ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ انہیں ہراساں مت کریں۔ گرفتاریوں‘ خواتین کے ساتھ بدتمیزی‘ شیلنگ اور لاٹھی چارج جیسے اقدامات حالات کو مزید خراب کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کو دھرنا دینے دیں‘ ان کو طاقت کے استعمال کے ذریعے مت روکیں۔ ان کو احتجاج کرنے دیں‘ عوام خود ہی فیصلہ کرلیں گے کہ انہوں نے کس کا ساتھ دینا ہے اور کس کی حمایت کرنی ہے۔ افسوس کہ صورتحال کو قابو میں کرنے اور جلتی پر پانی ڈالنے کے بجائے ہمارے سیاستدان مزید اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لاہور میں مسلم لیگی رہنمائوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عمران خان کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کرکے ان کی جماعت‘ پی ٹی آئی پر پابندی عائد کی جائے۔ اس طرح کے بیانات سے ملک و قوم کا کوئی بھلا نہیں ہوتا بلکہ ان سے انتشار اور افتراق میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں اس وقت معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے سیاسی آگ کو بجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دوسری جانب ہماری پولیس خود بھی استحصال کا شکار ہے۔ اہلکاروں کو اچھی تنخواہ نہیں ملتی‘ ان کو کھانا پینا نہیں فراہم کیا جاتا‘ نہ ہی آرام اور ورزش کا موقع ملتا ہے جبکہ سارا سارا دن اور ساری ساری رات ان سے کام کرایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وی آئی پی اور سیاسی ڈیوٹیوں پر انہیں الگ سے مجبور کیا جاتا ہے جس سے عوام میں ان کی ناپسندیدگی بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے پولیس کو اپنی سیاست کے لیے مت استعمال کریں۔ ملک اس وقت معاشی بحران اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے‘ اس لیے سب مل کر بیٹھیں اور ان مسائل کا حل نکالیں۔