گزشتہ ہفتے بھارت کے ایک صحافی محمد زبیر نے ایک کلپ شیئر کیا جس میں بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سپوکس پرسن نوپور شرما ایک لائیو ٹی وی شو میں ہمارے پیارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرتی دکھائی دی۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت صدمہ پہنچا کس طرح ایک انتہا پسند ہندو خاتون مکاری اور سفاکی کے ساتھ دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے گستاخانہ بکواس کر رہی تھی۔ 37 سالہ نوپور شرما آر ایس ایس کی پیروکار ہے، یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی نیشنل ترجمان تھی۔ دہلی یونیورسٹی سے اس نے سیاست کا آغاز کیا اور لندن سکول آف اکنامکس سے فارغ التحصیل ہے؛ تاہم یہ پڑھائی اس کے کسی کام نہیں آ سکی۔ وہ ایک پڑھی لکھی جاہل ہے۔2015ء میں اس نے عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجری وال کے مدمقابل الیکشن لڑا تھا اور 30 ہزار سے زائد ووٹوں کے مارجن سے ہار گئی تھی، اس کے بعد وہ بی جے پی کی ایک فعال رکن بن گئی ۔ ٹی وی پروگرامز‘ سیاسی ریلیوں‘ جلسے اور جلوسوں میں کھل کر وہ ہندوتوا کا پرچار کرتی ہے۔ اس نے انتہائی بدتمیزی اور ڈھٹائی کے ساتھ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا۔ دہلی کے بی جے پی کے میڈیا ہیڈ نوین کمار جندال نے بھی اس کی حمایت کرتے ہوئے ایک گستاخانہ ٹویٹ کیا۔ ہم سب لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے اسے اسلاموفوبیا کا شاخسانہ قرار دیا کیونکہ کسی مذہب اور مذہب کی مقدس شخصیات کی توہین قطعاً آزادیٔ اظہارِ رائے نہیں ہے۔
بھارت سے یہ خبر پورے عالم اسلام میں پھیل گئی اور عرب ممالک میں اس کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ بھارت سے معافی کا مطالبہ کیا گیا اور نوپور شرما اور نوین جندال سمیت ان کی حمایت کرنے والے افراد کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد‘ دس دن تک بھارت سویارہا اور نوپور اپنی ڈھٹائی پر قائم رہی مگر جیسے ہی عرب ممالک کی طرف سے سفارتی دبائو آیا اور وہاں کے عوام نے بھارتی اشیا کا بائیکاٹ شروع کیا تو بھارت جاگا اور نوپور کو عہدے سے برطرف کرکے عرب دنیا کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ اب بظاہر دونوں افراد نے معافی مانگتے ہوئے اپنا بیان واپس لے لیا ہے لیکن دونوں کے اندر کی انتہا پسندی اور اکڑاب بھی جھلک رہی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ معافی جھوٹی اور صرف خانہ پری کے لیے ہے۔ بھارتی مسلمانوں سمیت ساری مسلم دنیا کی جانب سے نوپور کی مذموم حرکت پر اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے مگر بھارتی پولیس نوپور اور اس کے خاندان کو سکیورٹی فراہم کررہی ہے۔
مسلمان صحافی زبیر‘ جس نے اس معاملے کو سوشل میڈیا پر اٹھایا تھا‘ کے خلاف بھارت میں ایف آئی آر درج کر دی گئی ہے اور انتہا پسند ہندو اس کے خلاف ٹرینڈز چلا رہے ہیں، اس کوقتل کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔ اس کا قصور کیا ہے؟ اس نے تو صرف اس معاملے کی نشاندہی کی تھی۔ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ نوپور شرما کو سزا دینے کے بجائے الٹا مسلمان صحافی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور نوپور کو مکمل حمایت کا یقین دلایا جا رہا ہے۔ بھارت نے پاکستان کو سفارتی محاذ پر بہت نقصان پہنچایا اور ہر ممکن طریقے سے اسے دبانے کی کوشش کی، متعدد بار پاکستان کو بھارت کے سبب سفارتی محاذ پر شدید جھٹکا لگا مگر اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور ''انا شانئک ھو الابتر‘‘ کا پیغام یہی ہے کہ توہین رسالت جیسے معاملے پر قدرت خود سزا دیتی ہے۔ 2007ء میں سویڈن کے ایک کارٹونسٹ لارس ولکاس نے گستاخانہ خاکے بنائے تھے‘ اس کے بعد وہ پولیس کی سخت حفاظت میں رہا؛ تاہم قدرت کا انصاف دیکھیں کہ وہ ایک ٹریفک حادثے میں جل کر مرگیا اور 2021ء میں اس ملعون کی جلی ہوئی‘ ناقابلِ شناخت لاش اس کی گاڑی سے ملی۔ اس کی حفاظت پر معمور دو پولیس اہلکار بھی زندہ جل گئے۔ 2007میں اس نے گستاخی کی اور 2021ء میں وہ جہنم واصل ہوگیا۔ قدرت کبھی بھی نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کو برداشت نہیں کرتی اور جلد یا بدیر‘ ایسے ملعونوں کو نشانِ عبرت بنا کر رہتی ہے۔ بھارت‘ مغرب اور باقی دنیا کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ توہینِ مذہب آزادیٔ رائے نہیں ہے۔ اس سے کروڑوں افراد کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور ترکیہ (ترکی) کے وزیراعظم رجب طیب اردوان نے اس حوالے سے بہت کمپین چلائی کہ اسلامو فوبیا کو ختم ہونا چاہیے اوریہ کہ مقدس ہستیوں اور مقامت کی توہین اظہارِ رائے نہیں ہے۔ عمران خان کے دور میں پاکستان نے او آئی سی کی جانب سے مشترکہ تجویز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جس کے بعد اب ہر سال 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا۔ نوپور والا معاملہ بھی اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے عالمی فورمز پر اٹھانا چاہیے کیونکہ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کو اس بیان سے شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ اس وقت تمام مسلم ممالک اور مذہبی شخصیات نوپور کے بیان اور بی جے پی کی مسلم کش پالیسیوں کی مذمت کررہی ہیں اور عوام بھارتی چیزوں کا بائیکاٹ کررہے ہیں۔ اس وقت سوشل میڈیا پر مودی اور بھارت کے خلاف ٹرینڈز چل رہے ہیں۔ مودی کی ہندوتوا سوچ اور آر ایس ایس کے نظریات نے حالات کو یہاں تک پہنچایا ہے۔ قطر‘ سعودی عرب‘ مصر‘ بحرین‘ کویت‘ پاکستان‘ ایران‘ ملائیشیااور انڈونیشیا سمیت پوری مسلم ورلڈ میں بھارت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں اور بھارتی حکومت سے معافی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ عرب ممالک کا احتجاج اتنا سخت تھا کہ بھارت سخت سفارتی دبائو محسوس کررہا تھا، نوپور کو فوراً اس کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے اس کی پارٹی رکنیت معطل کر دی گئی۔ نریندر مودی اوپر اوپر سے عرب دنیا کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ وہ اس کے خلاف ہر ممکن اقدام کریں گے لیکن اندر خانے سے وہ انتہا پسندوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ نوپور شرمایوایک انٹرویو میں کہہ چکی ہے کہ اس کو مودی حکومت سے بھرپور مدد مل رہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو 25 لاکھ سے زائد بھارتیوں‘ جو اس وقت مڈل ایسٹ میں کام کررہے ہیں‘ کا مستقبل خطرے میں پڑجائے گا۔ بھارتی علما بھی حالیہ واقعے پر سخت احتجاج کررہے اور نوپور کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نئی دہلی پولیس نے ٹی وی ٹاک شو کے شرکا کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے‘ اس کے ساتھ کچھ سوشل میڈیا صارفین پر بھی مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ایک صحافی صبا نقوی پر بھی ایف آئی آر کاٹی گئی ہے جس پر ہندو دھرم کی تضحیک کا الزام لگایا گیا ہے۔ البتہ دہلی پولیس نے نوپور کے خلاف کوئی کیس نہیں درج کیا بلکہ اس کے خلاف مقدمہ مہاراشٹر میں درج کیا گیا ہے۔ اس سے قبل ایک انتہا پسند بھارتی اینکر سریش نے سعودی عرب پر میزائل حملے اور اسلام کے مقدس مقامات کو تباہ کرنے کی بات کی تھی۔ ایسے بیانات بھارت میں پھیلتی ہندو انتہاپسندی کی غمازی کرتے ہیں۔ وہاں کے سیاستدان اور میڈیا ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت پر اکسا رہے ہیں۔ پورا بھارت اسلاموفوبیا کا شکار ہو چکا ہے جس کی وجہ سے وہاں مقیم 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ مسلم دشمنی کے حوالے سے بھارت کی ایک تاریخ ہے۔ یہاں بابری مسجد شہید کی گئی، گجرات کے فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا، مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں‘ تبلیغی جماعت کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ حجاب کرنے والی بچیوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی۔ گائے ذبح کرنے کے الزام میں کئی مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ یہ سب انتہاپسندوں کی ریاستی سرپرستی کے سبب ہی ممکن ہوا۔ اب یہ اتنے سفاک اور دیدہ دلیر ہوگئے ہیں کہ مذہبی شخصیات کی توہین پر اتر آئے ہیں۔ افسوناک امر یہ ہے کہ ایسے واقعات اب تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں۔ دنیا کو اس حوالے سے اقدامات کرنا ہوں گے، کسی بھی مذہب کی توہین ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس سلسلے کو سفارتی دبائو سے روکنا ہو گا۔ بھارت پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں تاکہ آئندہ انتہا پسند اسلام اور مسلم مخالف اقدامات کرنے سے پہلے سو بار سوچیں۔