مسکان سے آفرین تک

ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے! شاید یہ بات مودی سرکار کونہیں پتا اور اپنی طاقت کے زعم میں وہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے میں مصروف ہے لیکن کب تک؟ جلد ہی ظلم و ستم کا یہ دور ختم ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ! مودی سرکار سے کوئی خوش نہیں ہے نہ سکھ‘ نہ مسلمان‘ نہ ہی دیگر اقلیتیں۔ بھارت میں سب خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ سبھی مودی سرکار سے نالاں ہیں۔ حال ہی میں ایک پنجابی گلوکار سدھو موسے والا کا قتل ہوا‘ وہ کسان تحریک کو کھلم کھلا سپورٹ کررہا تھا اور انقلابی گانے گاتا تھا۔ اس کے قتل کے بعد سے بھارتی پنجاب میں شدید غصہ پایا جاتا ہے اور خالصتان کے نعرے ایک بار پھر بلند ہو رہے ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے اور جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔ حالیہ کچھ ہفتوں میں دو نوجوان مسلم بچیاں ہیرو کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ان میں ایک تو مسکان خان ہے اور دوسری آفرین فاطمہ۔
مودی حکومت خواتین کے اسلامی لباس یعنی برقع‘ عبایا اور نقاب پر پابندی لگانا چاہتی ہے۔ وہاں مسلمان بچیوں اور عورتوں کو تنگ کیا جاتا ہے‘ ان کے نقاب نوچ لیے جاتے ہیں۔ ان کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ہندو خواتین پر کوئی پابندی نہیں کہ زعفرانی رنگ کے دوپٹے پہنیں‘ مانگ میں سندور بھریں یا تلک لگائیں، کئی ریاستوں میں سکولوں‘ کالجوں اور دیگر پبلک مقامات پر مسلمان خواتین کو منع کیا جارہا ہے کہ وہ پردہ نہ کریں۔ مسکان خان‘ جوکالج کی طالبہ ہے‘ بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی اور اس نے اپنی مرضی سے کالج جوائن کرنے سے حجاب لینا شروع کر دیا۔ وہ مکمل حجاب اور برقع میں بہت باوقار لگتی ہے۔ وہ اس وقت بی کام سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہے۔ وہ خود سکوٹی چلا کر کالج جاتی ہے۔ اس کا لباس اس کی اپنی مرضی سے ہے‘ اس کا پردہ اس کی زینت اور اس کا اپنا انتخاب ہے۔ کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ مسکان سے مرضی کے لباس کا اختیار چھین لے۔ مگر ہندوتوا اور آر ایس ایس کے پیروکاروں نے اس کا نقاب نوچنے کی کوشش کی، اسکو ہراساں کیا؛ تاہم وہ اتنی بہادر ہے کہ اس نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا اور ہجوم کے سامنے اکیلی کھڑی ہو گئی۔ ہجوم کے نعروں کے جواب میں اس نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور تمام بلوائیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ وہ پوری دنیا میں حجاب اور پردے کی علامت بن کر ابھری۔ مودی سرکار کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے لوگ اقلیتوں کو اپنی نفرت کا نشانہ بنارہے ہیں۔مسکان کو بھی اس کے شہر میں اوباش لڑکے تنگ کرنا شروع ہوگئے۔ ان کا تعلق بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی سے ہے اور وہ ہندوتوا کے پیروکار ہیں۔ انہوں نے مسکان سمیت سبھی باحجاب لڑکیوں کو تنگ کرنا شروع کردیا اور انتظامیہ اور پولیس یہ سب تماشا دیکھتی رہیں۔ آوارہ لڑکے ہر روز کالج کے باہر جمع ہوجاتے ہیں اور تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کو تنگ کرتے ہیں۔ اقلیتوں پر تشدد کرنے کے حوالے سے ریاستی سرکار اور مودی حکومت نے انہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ مسکان اور دیگر طالبات کو اب ہر روز ہراساں کیا جارہا ہے۔ ان کی پڑھائی میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔ ان کے لباس پر تنقید ہورہی ہے ۔مودی سرکار کا گودی میڈیا بھی ان مسلمان بچیوں کے خلاف ہوگیا ہے۔ ان کو انتہاپسندقرار دیا گیا ۔کیا بھارت میں رہنے والے کروڑوں مسلمان انتہاپسند ہیں؟ کیا انہیں اپنی زندگی اپنے مذہبی عقائد کے مطابق گزارنے کا حق حاصل نہیں؟ ریاستی عدالت میں جب حجاب کے حوالے سے کیس چلا تو عدالت نے بھی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے حجاب کے خلاف فیصلہ دیا اور یہ موقف اپنایا کہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں بچوں کی مذہبی شناخت ظاہر نہیں ہونی چاہیے۔ حالانکہ اس کے برعکس سکھوں، ہندوئوں حتیٰ کہ عیسائیوں پر بھی ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ سکھ اپنے مخصوص کڑوں اور پگڑیوں، ہندو اپنے مخصوص دھاگوں اور عیسائی صلیب کے نشان کے ساتھ تعلیمی اداروں میں آتے جاتے ہیں مگر ان پر کوئی پابندی نہیں۔ تمام پابندیاں صرف مسلمانوں کے لیے ہیں۔ اسی طرح محض طالبات نہیں بلکہ مسلمان ٹیچرز کو بھی حجاب اور برقع پہننے سے منع کیا جا رہا ہے اور سکول‘ کالج میں داخل ہونے سے پہلے ہی ان سے حجاب وغیرہ اتروا لیا جاتا ہے۔ اسی متعصب سلوک کی وجہ سے کئی مسلم بچیاں پڑھائی چھوڑ کر گھر بیٹھ چکی ہیں۔ مسکان سمیت سب کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزاریں اور اسی طرز پر لباس پہنیں۔ میں نے مسکان کا کلپ بار بار دیکھا ہے‘ جس طرح اس نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے‘ اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ کتنی بہادر ہے‘ بلوائیوں سے بھی ڈری نہیں اور کلمہ حق بیان کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں جب بھی مشکل میں ہوتی ہوں تو اللہ تعالیٰ کا نام لیتی ہوں اور ڈر‘ خوف دل سے نکل جاتا ہے۔ مسکان کی بہادری کے سبب بھارت کی مسلم خواتین کو پردہ کرنے کے حوالے سے تقویت ملی ہے۔ اب بھارت کے مسلمانوں میں سے ایک اور لڑکی ہیرو بن کر ابھری ہے۔ یہ ہے آفرین فاطمہ۔
آفرین ایک نوجوان سٹوڈنٹ لیڈر ہے۔ بلوے کا الزام لگا کر ریاستی حکومت نے اس کا گھر مسمار کردیا ہے حالانکہ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ بھارتی ٹی وی چینل پر ہوئی گستاخی کے خلاف آواز اٹھا رہی تھی۔ آفرین الہ آباد سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے والد جاوید محمد مقامی سیاست دان ہیں۔ 21 سالہ آفرین طلبہ تنظیم فرٹرنیٹی موومنٹ کے ساتھ منسک ہے۔ اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ بی جے پی کی گستاخ لیڈر نوپور شرما کے خلاف مظاہروں میں اس نے اپنے والد کا ساتھ دیا۔ اس کے والد اور اہلِ خانہ کو پولیس نے گرفتار کرلیا اور ان کا سالوں کی محنت کے بعد بنایا گیا گھر مودی سرکار نے چند لمحوں میں مسمار کردیا۔ یہ ایک غیر انسانی فعل ہے کہ اقلیتوں کو گرفتار کیا جائے اورمحض الزامات پر ان کے گھروں پر بلڈوز چلا دیے جائیں۔دنیا کے کسی مہذب ملک میں ایسا قانون نہیں ملے گا۔ ایسے فاشسٹ قوانین یا مودی کے بھارت میں ہیں یا اسرائیل میں۔جہاں مسلمانوں کو بات کرنے کا حق دیا جاتا ہے نہ ہی ان کو احتجاج کا حق حاصل ہے اور نہ ہی وہ مذہبی آزادی سے جی سکتے ہیں۔
ایک طرف بی جے پی نے مسلمانوں کے مذہبی شعائر اور مقدس شخصیات کی توہین کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ دوسری طرف جب مسلمان اس پر احتجاج کرتے ہیں تو ان کو پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے‘ ان کے گھر بلڈوز کر دیے جاتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس پر عالمی برادری نوٹس لے اور بھارت پر سفارتی دبائو ڈالے کہ مسلمانوں کے مذہبی عقائد کااحترام کیا جائے اور مقدس شخصیات اور مذہبی شعائر کی توہین کا سلسلہ فی الفور بند کر کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ چاہے کشمیری مسلمان ہوں یا بھارت میں بسنے والے مسلمان‘ سبھی مودی سرکار کے زیرِ عتاب ہیں۔ میں نے جب سوشل میڈیا پر بھارتی مسلمانوں پرہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی تو بی جے پی کے ویریفائیڈ اکائونٹس مجھ سے ٹویٹر پر لڑنا شروع ہوگئے۔ میں نے ان کو تحمل سے بتایا کہ دین کی رو سے بھارتی مسلمان میرے بہن‘ بھائی ہیں لیکن ہندوستانی ہونے کے سبب وہ آپ کے بھی بہن‘ بھائی ہیں، اگر آپ سمجھیں تو یہ بڑی بات ہے مگر وہ مسلمانوں پر ہوئے تشدد پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے جس پر مجھے بہت افسوس ہوا۔ اسی وقت میں نے قائداعظم محمد علی جناح کے ایصالِ ثواب کے لیے دعا کی اور اکابرینِ تحریک پاکستان کی مغفرت کے لیے دعا کی کہ وہ ہمیں آزادی جیسی قیمتی نعمت دے کر گئے۔ ان کے اس احسان کو ہم کبھی نہیں چکا سکتے۔ ان کے ایصالِ ثواب کے لیے جتنی دعا کریں‘ کم ہے۔ مسکان ہو یا آفرین‘ دونوں ہمارے لیے ہیرو کا درجہ رکھتی ہیں۔ ظالم حکومت کے سامنے ڈٹ جانا ہی اصل جہاد ہے۔ جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنا اصل بہادری ہے۔ اب بھارتی مسلمانوں کو ہماری اخلاقی حمایت کی ضرورت ہے۔اس وقت ہم سب کومتحد ہوکر بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی۔ جب تک او آئی سی اور تمام مسلم ممالک مل کر بھارت پر سفارتی دبائو نہیں ڈالیں گے‘ تب تک یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں