مسلمان صحافی بھارت میں زیرِ عتاب

ٹویٹر پر میں کچھ بھارتی صحافیوں کو بھی فالو کرتی ہوں جن میں ہندو مسلم‘ دونوں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر سے کام کرنے والے کچھ صحافیوں کو بھی فالو کیا ہوا ہے تاکہ حالات سے مکمل باخبر رہا جائے۔ بھارت کے مسلم صحافی تمام امور کو رپورٹ کرتے ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافی زیادہ تر انسانی حقوق کی پامالی کو رپورٹ کرتے ہیں جویقینا پُرخطر کام ہے۔ اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایسے حقائق عوام تک لانا بہت مشکل کام ہے۔ جہاں مودی جیسے حکمران ہوں وہاں پر صحافت مزید پُرخطر ہو جاتی ہے۔ صحافی سچ کی آواز اٹھاتے اٹھاتے اکثر خود بھی خبر بن جاتے ہیں۔ بھارت میں اس وقت مسلمان صحافیوں پر کڑا وقت ہے۔ ان پر مقدمات درج کیے جا رہے ہیں‘ انہیں جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے‘ ان کی آواز دبائی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں پریس کلب پر بھی تالے لگا رکھے ہیں۔
اس وقت بھارت میں چن چن کر مسلم صحافیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اب مودی سرکار کا نشانہ وہ صحافی ہے جس نے ملعون نوپور شرما اور اس چینل کے خلاف آواز اٹھائی تھی تا کہ اسلامی شعائر کی توہین کا سلسلہ بند ہو سکے۔ اس واقعے کے بعد سے نہ صرف نوپور آزاد ہے بلکہ پولیس اس کی حفاظت پر مامور ہے مگر اس واقعے کی خبر دینے والے محمد زیبر زیرِ عتاب آگئے ہیں۔ ان کا قصور کیا ہے؟ یہ قصور ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور فیک نیوز کا پردہ چاک کرتے رہتے ہیں۔ محمد زبیر نے ''فیکٹ چیکنگ‘‘ ویب سائٹ کی بنیاد رکھی اور اس کے ذریعے وہ فیک نیوز اور پروپیگنڈا کا پردہ چاک کیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مودی سرکار پر بھی وہ کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ وہ ہندو توا کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لائے ہیں۔اب ان کو چار سال پرانے ان کے ایک ٹویٹ کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے کہ انہوں نے مذہبی منافرت پھیلائی ہے حالانکہ وہ ٹویٹ ایک مووی کا سکرین گریب (screen grab) ہے۔ انہوں نے کوئی مذہبی منافرت نہیں پھیلائی‘ یہ سراسر جھوٹا الزام ہے۔ اصل میں سزا محمد زبیر کو اس بات کی دی جا رہی ہے کہ انہوں نوپورشرما والا معاملہ ٹویٹر پر اٹھایا اوردنیا کو بی جے پی کی انتہاپسند سیاست سے آگاہ کیا۔ انہوں نے نوپور کے علاوہ مذکورہ چینل پر بھی سوالات اٹھائے تھے جس نے اس سارے معاملے کو غلط طور پر ہینڈل کیا۔ نوپور شرما کو سزا دینے کے بجائے مودی سرکارمحمد زبیر کو جیل میں ڈال کر حق سچ کی آواز بلند کرنے کی سزا دے رہی ہے۔ جب نوپور کا معاملہ سامنے آیا تھا تو تمام مسلم ممالک میں شدید احتجاج کیا گیا اور بھارت سے معافی کا مطالبہ کیا گیا۔ محمد زبیر نے ٹویٹر پر سب سے پہلے نوپور شرما کا کلپ شیئر کر کے بی جے پی قیادت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا تھا کہ کس طرح وہ مسلمانوں، اسلام اور مقدس ہستیوں سے نفرت کا شکار ہے؛ تاہم انہوں نے کسی کے خلاف نفرت نہیں پھیلائی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ میڈیا چینلز کو خاص طور پر ایسے معاملات میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ محمد زبیر کا یہ ٹویٹ خاصا وائرل ہوا۔ کہنے کو نوپور ایک پڑھی لکھی خاتون ہے لیکن جس طرح اس نے اُس شو میں گفتگو کی وہ ہندوتوا اور آر ایس ایس کی اندھی پیروکار سے زیادہ کچھ نہیں۔ جن جن لوگوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی‘ ان سب کوجیل میں بندکر دیا گیا ہے مگر اس گستاخ کو مودی سرکار نے سکیورٹی دے رکھی ہے اور وہ آزادانہ گھوم پھر رہی ہے۔ اے ایل ٹی نیوزبھارت کا ایک میڈیا ادارہ ہے جو محمد زبیر نے بنایا ہے۔ اس ادارے نے بہت سی فیک نیوز کا پردہ چاک کیا ہے۔ جب محمد زبیر نے نوپور اور بی جے پی کا پردہ چاک کیا تو مودی کے بھگتوں نے محمد زبیر کے خلاف ٹرینڈز چلانا شروع کر دیا کہ محمد زبیر کو گرفتار کیا جائے۔ ان کے خلاف ٹویٹس ہونا شروع ہوگئے۔ نوپور کو تو پولیس پروٹیکشن مل گئی ہے لیکن جو لوگ اس کی گستاخی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں‘ ان کو گرفتار کیا جارہا ہے۔
محمد زبیر کو پولیس نے تفتیش کے لیے بلایا تھا مگر بعد ازاں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ سب نے اس کی مذمت کی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس کو آزادیٔ اظہارِ رائے پر قدغن قرار دیا ہے۔ صحافی برادری بھی اس گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کر رہی ہے کہ محمد زبیر کو رہا کیا جائے۔ محمد زبیر پہلے یا اکیلے صحافی نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی مسلمان صحافی زیرعتاب رہے ہیں۔ شمس تبریز ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں‘ وہ بھارت میں اردو کی ترویج کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان پر مدعیہ پردیش کی پولیس نے ایف آئی آر کردی ہے۔ ان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے فیک نیوز پھیلائی۔ حالانکہ شمس نے کانپور میں نسلی فسادات کی وڈیوز پوسٹ کی تھیں جس میں مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کو اجاگر کیا گیا تھا۔بجرنگ دَل کے کارکنوں نے مسلمانوں پر پتھرائو کیا جس کے جواب میں مسلمانوں نے پتھرائو کیا؛ تاہم مودی کے گودی میڈیا نے اس پورے واقعے کا ایک مخصوص حصہ ہی نشر کیا اور یہ تاثر دیا مسلمان پولیس اور ہندوئوں پر پتھرائو کر رہے ہیں۔ شمس تبریز نے جو ویڈیوز پوسٹ کیں ان میں اس پورے واقعے کو دکھایا گیا تھا کہ بجرنگ دَل والے پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں پر پتھرائو کررہے تھے جس کے بعد مسلمانوں کی جانب سے جوابی پتھرائو شروع ہوا۔ اس سچ کی پاداش میں شمس پر ایف آئی آر ہوگئی ہے۔ اسی طرح صحافی صبا نقوی جومعروف مصنفہ بھی ہیں‘ پر بھی ایف آئی آر درج کی گئی ہے کہ انہوں نے مذہبی منافرت پھیلائی‘ حالانکہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ معروف صحافی رعنا ایوب‘ جنہوں نے امیت شاہ کو بے نقاب کیا تھا‘ بھی مسلسل بی جے پی کے ٹارگٹ پر ہیں۔ ان کو آئے روز قتل اور ریپ کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ایک صحافی ارفع خانم شیروانی کو بدترین سائبر مہم کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی ایک تقریر میں سے چند سیکنڈز کا ایک کلپ کاٹ کر سوشل میڈیا پر پھیلا دیا گیا اور یہ ظاہر کیا گیا کہ وہ متازع شہریت بل کی حمایت کررہی ہیں۔ اس پر ان پر تنقید کی گئی، ان کو قتل، ریپ، تیزاب گردی کی دھمکیاں دی گئیں۔ ایک ایپ بنائی گئی جس میں ان کی تصاویر لگا کر ان کی بولی لگائی گئی۔ ایپ سکینڈل‘ جس میں بہت سی مسلم خواتین کی تصاویر لے کر ایک ایپ پر لگائی گئیں اور پھر ان کی بولی لگائی گئی‘ کردار کشی کی ایک منظم مہم تھی جس کی سرپرستی بی جے پی کے سوشل میڈیا گروپس میں ہو رہی تھی مگر کسی ذمہ دار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
بھارت سے تعلق رکھنے والے مسلمان صحافی افتخار گیلانی کو بھی بدترین انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ کشمیر ٹائمز کے بیورو چیف تھے۔ ان کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قید رکھاگیا۔ ان پر بھارت سرکار نے یہ مضحکہ خیز الزام لگایا تھا کہ انہوں نے بھارتی فوجیوں کی مقبوضہ کشمیر میں تعیناتی کے حوالے سے خبر دی تھی۔ یہ خبر پوری دنیا کے میڈیا نے بڑھا چڑھا کر نشر کی تھی کیونکہ الزام ہی اس قدر مضحکہ خیز تھا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت افتخار گیلانی سے بدلہ لینا چاہتی تھی کیونکہ ان کا اصل قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی اور بنیادی حقوق کی پامالیوں کو شواہد کے ساتھ سامنے لاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے تمام تر مصائب کے باوجود اپنا کام جاری رکھا اور مظلوموں کی آواز بنے رہے۔ اب وہ گزشتہ تین سال سے ترکی کی ایک عالمی خبر رساں ایجنسی کے ساتھ وابستہ ہیں۔
بھارتی حکومت نوپور والے معاملے کے بعد سے ان تمام صحافیوں کے اکائونٹس بھارت میں بلاک کر وارہی ہے جو مسلمانوں کے حق میں بات کررہے ہیں۔ ایک طرف صحافیوں پر مقدمے اور دوسری طرف ان کے سوشل میڈیا اکائونٹس پر حملے‘ مودی سرکار ہر اُس آواز کو کچلنا چاہتی ہے جو مسلمان کے حق میں اور سرکار کے جبر کے خلاف بلند ہو رہی ہے۔ مودی سرکار کا ایجنڈا ہے کہ مسلمان سے تمام حقوق چھین لو، ان کے گھر گرا دو، ان کی مقدس ہستیوں کی توہین کرو، ان سے شہریت چھین لو اور ان کو جان سے مار دو لیکن اگر کوئی آواز اٹھانے کی ہمت کرے تو اس کو جیل میں ڈال دو۔ اگر صحافیوں کے ساتھ سر عام یہ ناروا سلوک ہو رہا ہے تو ایک عام بھارتی مسلمان کی حالت کیا ہو گی‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ہم سب کا مطالبہ ہے کہ محمد زبیر کو رہا کیا جائے اور صحافیوں پر قائم مقدمات ختم کیے جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں