بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جوکچھ ہورہا ہے‘ اس سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔میں خود بھی ان ایشوز پر بار بارآواز بلند کرتی ہوں کہ دنیا ہوش کے ناخن لے اور وہاں اقلیتوں کے لیے زندگی کو آسان بنانے کے لیے بھارت سرکارپر دبائوڈالے۔ دیگر ممالک کی طرح انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی پر مودی سرکار پر بھی پابندیاں لگائی جائیں۔ اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ بھارت کا موجود وزیر اعظم نریندر مودی ہی گجرات کے مسلمانوں قاتل ہے۔ ایک وقت تھاجب ا س کے جرائم کی وجہ سے امریکہ اور یورپ اس کو ویزہ نہیں دیتے تھے؛ امریکی عدالتوں نے مودی کے وارنٹ جاری کر رکھے تھے؛ تاہم بھارت نے اپنی سفارت کاری کے جوہر دکھا کر ایک قاتل کو وزیراعظم بنا دیا اس کی امیج بلڈنگ کی۔ ایک جنونی شخص کو ایسے پیش کیا جانے لگا جیسے وہ کوئی سادھو ہو؛ تاہم ماضی کبھی چھپتا نہیں‘ وہ بار بار سامنے آتا ہے۔
2002ء میں بھارتی ریاست گجرات میں مسلم کش فرقہ وارنہ فسادات ہوئے تھے جن میں لگ بھگ ڈھائی ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا تھا۔ریاستی سرکار کی طرف سے نہ صرف فسادیوں اور دنگے کرنے والوں کی بھرپور سرپرستی کی گئی بلکہ اس بات کے بھی ثبوت موجود ہے کہ جنونی ہندوئوں کو یہاں تک کہا گیا کہ تین دن تک وہ جو کر سکتے ہیں‘ کر لیں‘ کسی سے کوئی پوچھ نہ ہو گی۔ ان دنگوں میں مسلمانوں کے گھر جلائے گئے‘ ان کوان کے گھروں اور محلوں سے بیدخل کر دیا گیا، ان کے بازار جلا دیے گئے اور مسلم خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ ان فسادات میں ایسے ایسے سنگین جرائم ہوئے کہ ہر حساس دل تڑپ کر رہ گیا؛ تاہم ایک شخص پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ تھا گجرات کا وزیراعلیٰ نریندر مودی۔ وہ یہ سب کچھ دیکھتا رہا اور قاتلوں کی سرپرستی کرتا رہا۔ گجرات میں جو کچھ ہوا اس کی ذمہ داری براہِ راست نریندر مودی اور بی جے پی پر عائد ہوتی ہے۔ گجرات میں ایسے ایسے ہولناک واقعات رونما ہوئے کہ ہر واقعے پر الگ سے ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ ظلم و بربریت کی ایسی داستانیں شاید ہی دنیا نے کبھی سنی ہوں۔
1969ء میں بھی گجرات میں فسادات ہوئے تھے جن میں 600 سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں‘املاک کا نقصان ہوا تھا اور مسلمانوں کو بے دخل کیا گیا تھا۔ جب یہ سب دہرایا گیا تو اس وقت ان فسادات کو وزیراعلیٰ نریندر مودی اور ریاستی حکومت کی بھرپور سرپرستی حاصل تھی اس لیے 2002ء میں زیادہ ہولناک سانحات پیش آئے۔ مسلم عورتوں‘ لڑکیوں حتیٰ کہ بچیوں کے ساتھ بھی وہ حیوانیت برتی گئی کہ ایسی داستان پڑھنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرکے بچے مار دیے گئے تاکہ مزید مسلمان پیدا نہ ہوں۔ گینگ ریپ سمیت کون سا جرم تھا جو نہیں ہوا؟ کتنی ہی خواتین بعد میں زندہ درگور ہوگئیں۔ ہر کیس میں کوشش کی گئی کہ انتہاپسند ہندوئوں کو بچایا جائے۔ کیسز کو کمزور کیا گیا، شواہد مٹائے گئے، گواہان کو دھمکیاں دی گئیں اور آہستہ آہستہ سبھی ملزمان بری ہوتے چلے گئے۔ ریاستی سرکار کا یہ رویہ دیکھ کر مسلمان بھی چپ ہو گئے اور خاموشی سے نقل مکانی کر گئے۔ ان کی املاک جلائی جاچکی تھیں‘ معاشی بدحالی اور جان کا خوف ان کو مقدمات کی پیروی سے روک رہا ہے؛ تاہم کچھ مسلمان سماجی کارکنان اور صحافیوں کی بدولت اپنا مقدمہ لڑنے کے قابل ہوئے۔یاد رہے بعض صحافیوں نے ایک ''سٹنگ آپریشن‘‘ بھی کیا تھا جس میں انتہا پسند ہندو رہنمائوں کی یہ کہتے ہوئے وڈیو ریکارڈنگ کی گئی کہ انہیں سرکار کی طرف سے بھرپور حمایت حاصل تھی اور یہ کہ اگر وہ پکڑے بھی گئے تو جلد چھوٹ جائیں گے۔ ایک بدبخت انسان نے تو یہ تک کہا کہ وہ رات کو جاتا تھا‘ مسلمانوں کے گھر جلاتا، عورتوں کا ریپ کرتا تھا، مسلمانوں کو قتل کرتا تھا اور آکر صبح سکون سے گھر میں سو جاتا تھا۔ یہ وڈیو بیان اب بھی یوٹیوب پر مل جائے گا۔ ایسی وڈیوز کے سامنے آنے پر حکومت کو کچھ حرکت دکھانا پڑی اور کچھ لوگوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔
19 سالہ بلقیس بانو گجرات کی رہائشی تھی۔ 3 مارچ 2002ء کو ہندو انتہاپسند اس کے گھر میں گھس گئے‘ اس کو اور گھر کی دیگر خواتین کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا اور گھر کے 14 افراد کو قتل کردیا۔ ان 14 افراد میں بلقیس کی ایک بیٹی صالحہ بھی شامل تھی۔ جس وقت بلقیس بانو کا ریپ ہوا‘ وہ حاملہ تھی۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اس پر کیا گزری ہوگی؟ وہ کس کرب اور دکھ سے گزری اور اب بھی گزر رہی ہے؟ بلقیس بانو کو وہ لوگ مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے مگر معجزانہ طور پر بلقیس کی جان بچ گئی۔ بعد ازاں بلقیس نے قتل کی دھمکیوں کے باوجود کیس لڑنے کا فیصلہ کیا اور مقدمہ دائر کیا۔ چونکہ اس واردات میں کچھ مقامی افراد بھی شامل تھے‘ جن کو بلقیس پہچانتی تھی‘ لہٰذا کچھ آسانی ہوئی۔ دو سال بعد جا کر ابتدائی طور پر ملزموں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ ریاستی سرکار نے کیس کو خراب کرنے کے پوری کوشش کی، پولیس اہلکاروں نے بھی تعاون نہیں کیا مگر بھارتی سپریم کورٹ نے اس میں کردار ادا کیا اور ریاستی پولیس کے بجائے یہ کیس 'سی بی آئی‘ کو دے دیا۔بعد ازاں ثبوت مٹائے جانے کے خدشے کے سبب اس کیس کو گجرات سے ممبئی شفٹ کر دیا گیا۔ آخر کار عدالت نے 2008ء میں اس کیس میں 11افراد کو عمر قید کی سزا سنائی۔ پولیس اہلکاروں سمیت سات افراد کو بری کر دیا گیا۔ عدالت نے بلقیس بانو کو سرکاری گھر اور معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا تھا مگر 2019ء میں بھارتی سپریم کورٹ میں دائر ایک درخواست میں بلقیس بانو نے بتایا کہ ابھی تک انہیں معاوضہ اور گھر نہیں دیا گیا۔ اب اس کیس میں یہ پیش رفت سامنے آئی ہے کہ آزادی کی پلاٹینم جوبلی کی خوشی میں مودی سرکار نے اس کیس کے تمام مجرموں کو رہاکر دیا ہے۔ مجرم جب جیل سے رہا ہوئے تو بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکنوں نے ہاروں‘ پھولوں اور مٹھائی سے ان کا استقبال کیا۔ ہندو انتہا پسندوں نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہارکیا ہے۔ ایک ہائی پروفائل کیس میں اگر مسلمانوں کو انصاف نہیں ملا تو عام مقدمات میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا‘ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بلقیس بانو‘ جو ابھی تک پچھلے صدمے سے باہر نہیں نکل سکی تھی‘ کو ایک اور صدمہ پہنچایا گیا ہے۔ اب پھر سے اس کے زخم تازہ ہو گئے ہیں۔ بھارت میں اس وقت رپپ کے واقعات تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں۔ سماجی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر اسی طرح مجرموں کو آزاد کیا جاتا رہا تو ریپ کرنے والوں کا حوصلہ بڑھے گا۔ اس کیس میں صرف ریپ ہی جرم نہیں‘ 14 بے گناہ افراد کو قتل کیا گیا‘ مذہبی منافرت اور دہشت گردی بھی پھیلائی گئی۔ اب بلقیس اور اس کے شوہر کی جان خطرے میں ہے کیونکہ ان کے مجرم آزاد ہوگئے ہیں۔ بلقیس کا اپنے شوہر اور بچوں کے علاوہ دنیا میں اور کوئی نہیں ہے کیونکہ اس کے سارے خاندان کو قتل کردیا گیا تھا۔
ریاستی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ چونکہ مجرم ''سنسکاری برہمن‘‘ ہیں لہٰذا ان کے اچھے رویے کی وجہ سے ان کی سزا معاف کی گئی ہے۔ اب گجرات بھر میں مسلمان دوبارہ ڈر اور خوف کا شکار ہیں۔ مسلمان وہاں دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری گردانے جاتے ہیں۔ فسادات‘ قتل و غارت گری اور انتہا پسند حکومت کے قیام کے بعد سے وہ اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ زیادہ تر مسلمانوں کے گھر، دکانیں، بازار وغیرہ جلا دیے گئے تھے۔ اب اس فیصلے کے بھی دور رس بھیانک نتائج نکلیں گے۔بعض حلقے سوال کر رہے ہیں کہ دہلی کے مشہور ریپ کیس میں مجرموں کو پھانسی دی گئی تھی مگر بلقیس بانو کے مجرموں کو چھوڑدیا گیا ہے؟ کیوں؟ اس لیے کہ بلقیس مسلمان ہے؟ صاف دیکھا جا رہا ہے کہ بلقیس کے کیس میں بھارتی میڈیا اور عوام کی وہ دلچسپی نہیں جو دہلی کی نربھیا کے کیس میں دیکھی گئی۔ ذکیہ جعفری‘ جن کے شوہر مشہور سیاستدان اور سابق رکن اسمبلی تھے اور ان فسادات میں قتل ہوئے تھے‘ کی درخواست پر بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے نریندر مودی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اس سے پہلے بی جے پی کی ایک وزیر 'مایا کوڈنانی ‘کو بھی بری کردیا گیا تھا حالانکہ اس پر 97 مسلمانوں کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ آگ مزید بھڑکے گی کیونکہ مودی سرکار اپنی سیاست کی بقا اسی میں دیکھ رہی ہے۔ مسلم منافرت ہی بی جے پی کی انتہا پسندانہ سیاست کی بنیاد ہے مگر اسے شاید یہ نہیں پتا کہ اس آگ سے صرف مسلمانوں کا نہیں‘ پورے بھارت کا نقصان ہوگا۔