آہ! ارشد شریف شہید… ( 2)

یہ 23 اکتوبر کی رات تھی، میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا‘ مجھے لگا کہ شاید کورونا کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ ہے لیکن کسے خبر تھی کہ اس وقت میرے ارشد کے ساتھ کینیا میں ظلم ہو رہا تھا۔ میں نے ارشد کو پانچ‘ چھ میسجز کیے، پہلے تو کچھ میسج ڈِلیور ہو گئے مگر پھر میسج بھی ڈِلیور نہیں ہوئے اور فون بند ہو گیا۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ کہ 23 اکتوبر میری زندگی کو اندھیر کر جائے گا۔ اکتوبر کا مہینہ اور 2022ء کا سال‘ یہ دونوں میرے لیے اب قابلِ نفرت ہو گئے ہیں۔ وہ شخص جس کے گرد میری کائنات گھومتی تھی‘ وہ کیسے جا سکتا ہے؟ اس کو پتا تھا کہ اس کے بغیر تو ایک دن گزارنا بھی مشکل تھا اور اب تو پچاس دن مکمل ہونے کو ہیں۔ اس خونِ ناحق کا حساب اللہ لے گا، میں نے اپنا مقدمہ اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں پیش کر دیا ہے۔ یہ سسٹم مجھے انصاف دے یا نہ دے‘ قاتلوں کو خدا نشانِ عبرت بنائے گا۔ کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں۔ عوام جس طرح سے ہمارے ساتھ ہیں‘ ایسا ساتھ پہلے کبھی کسی صحافی یا اس کے لواحقین کا نہیں دیا گیا۔ وہ جن کے بغیر ہم ایک پل نہیں گزار سکتے‘ ان کے بعد زندگی گزارنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی طویل سزا کاٹنی ہو۔ وہ چلا گیا لیکن جس طرح سے اس کو مجھ سے چھینا گیا‘ وہ ظلم مجھے سونے نہیں دیتا، مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتا۔ میں نے روتے ہوئے پمز اور قائداعظم انٹرنیشنل ہاسپٹل کے ایک ایک ڈاکٹر سے پوچھا کہ ارشد کو بہت درد ہوا ہو گا؟ اس نے کس کس کو پکارا ہو گا‘ میں نے تو کبھی اس کو بخار کی تکلیف بھی محسوس نہیں ہونے دی تھی۔ وہ ذرا سا بیمار ہوتے تھے تو گھر پر ڈاکٹرز اور میل نرس آ جاتے تھے۔ ارشد چھٹی کرنا پسند نہیں کرتے تھے، بیماری کی صورت میں بھی ان کی کوشش ہوتی کہ اپنے شو سے پہلے وہ ٹھیک ہو جائیں۔
اب ایسا لگتا ہے کہ آپ کا محافظ چلا گیا ہو اور آپ کسی صحرا میں‘ بنا سائبان کے کڑی دھوپ میں کھڑے ہوں۔ ارشد نے مجھے اتنا محفوظ رکھا کہ میں نے کبھی معاشرے کی سردی‘ گرمی اور سرد رویے محسوس ہی نہیں کیے۔ وہ مجھے ملکہ کا درجہ دیتے تھے اور میں ان کو بادشاہ کی تکریم دیتی تھی۔ میں اپنے شوق سے نوکری کرتی تھی اور گھر کی ساری ذمہ داریاں وہ نبھاتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ کوئی دوست ادھار مانگتا تو انکار نہ کرتے اور بڑی بڑی رقمیں انہیں ادھار دے دیتے، پھر مجھے کہتے: جیا! اس ماہ زیادہ خرچہ مت کرنا‘ اگلے مہینے میں ڈبل پیسے دے دوں گا‘ تب کر لینا زیادہ خرچے۔ میں ہنستے ہوئے پوچھتی: کتنے لاکھ کا عطیہ دیا ہے؟ یا کتنے پیسے ادھار دیے ہیں؟ جواباً وہ زیرلب مسکرا دیتے۔ اس سال ہم نے کافی مشکلات دیکھیں۔ اپنے کسی جاننے والے کو ایک خطیر رقم بھیج دی۔ میں نے کہا کہ اتنی فراخ دلی میں نے کم ہی لوگوں میں دیکھی ہے۔ مشکل وقت میں ان کے کچھ ''بہترین دوست‘‘ منظر سے بالکل غائب ہوگئے مگر ایسے ''دوستوں‘‘ کی کمی بھی محسوس نہیں ہوئی کیونکہ ان کی جگہ پاکستان کے لاکھوں عوام نے لے لی۔ ہم سے محبت اور ہمدردی کا وہ اظہار کیا گیا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ میں جہاں بھی گئی‘ چاہے ہسپتال ہوں یا قبرستان‘ یا ارشد کا جنازہ‘ سبھی بزرگوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا‘ کچھ لوگوں نے مجھ سے میرے ناقابلِ تلافی نقصان پر معافی مانگی۔ کچھ عورتیں تو میرے ہاتھ چومنے لگ گئیں، یہ ان کی شہید ارشد شریف سے عقیدت تھی۔ ارشد کے وہ دوست جن کے ساتھ وہ کھانا کھاتے تھے یا ان کی خوشی کے مواقع پر کیک کاٹتے تھے‘ ان میں چند اگر غائب ہو بھی گئے تو اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جب ارشد کے لیے حالات مشکل بنائے جا رہے تھے تو وہ اس وقت بھی بزدلوں کے طرح پیچھے ہٹ گئے تھے۔ ارشد نے مجھے بتا دیا تھا کہ کس سے رابطہ رکھنا ہے اور کس سے نہیں۔ ایسے لوگوں کو میں نے پہلے ہی فون پر بلاک کر دیا ہوا ہے اور وہ ساری زندگی بلاک رہیں گے‘ مجھے ان سے رابطہ نہیں رکھنا۔
جون میں ہم نے اپنی آخری چھٹیاں مری میں گزاری تھیں۔ میں کہتی رہی کہ میری کچھ تصویریں اتار دیں مگر وہ کتابیں پڑھنے میں مشغول رہے۔ میں نے مذاقاً کہا کہ بھگت سنگھ بس کر دو! انقلاب اس ملک میں کبھی نہیں آئے گا۔ اس بات پر وہ ٹیرس پہ آ گئے اور پہاڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: کوئی نہ کوئی تو پہلا قطرہ بنے گا۔ میں نے ان کی سوچ کو پڑھتے ہوئے کہا: ایسے مت کریں‘ مجھے آپ کی صحت و سلامتی کی فکر ہے۔ وہ کہنے لگے: اللہ مالک ہے! جو رات قبر میں آنی ہے‘ وہ قبر میں ہی آئے گی۔ پھر کہنے لگے: یہ دیکھو جیا! بھگت سنگھ پر جو الزامات لگے تھے‘ وہی مجھ پر لگے ہیں۔ میں نے کہا: ارشد! اگر آپ محب وطن نہیں تو کون ہے؟ ایک مدت سے کرپشن کا پردہ چاک کر رہے ہیں‘ آپ ہمیشہ اپنے وطن اور عوام کا بھلا سوچتے ہیں‘ مجھے آپ پر فخر ہے کہ آپ بہت ایماندار ہیں لیکن آپ کو سب سے پہلے اپنی صحت‘ سلامتی اور فیملی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ انہوں نے کہا: جیا! ایک بات کہوں؟ ہم مری میں کھڑے ہیں‘ یہاں پر میری ضمانت کارآمد نہیں کیونکہ مجھے صرف اسلام آباد کی حد تک ضمانت ملی ہے۔ یہ بات سن کر میری تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ مجھے ڈرا کر وہ خود ہنسنے لگے‘ پھر کہا: کچھ نہیں ہو گا‘ پریشان نہ ہوا کرو‘ اب بہادر بن جائو۔ ارشد اس قدر نڈر تھے کہ مجھے ان کی بہادری سے خوف آتا تھا۔ ہر بیوی کچھ ڈرپوک ہوتی ہے‘ یہ ایک فطری عمل ہے۔ ہر عورت چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اس کو اور گھر کو زیادہ توجہ دے‘ مگر ارشد کا پاکستان سے‘ اپنے ملک سے‘ اپنی دھرتی سے پیار ہر چیز پر حاوی آ گیا۔ اس نے امر ہونا تھا اور وہ امر ہو گیا۔ لیکن ارشد...! میں اکیلی رہ گئی ہوں۔ ہماری خواہش تھی کہ اللہ پاک ہمیں ایک بیٹی کی نعمت سے نوازے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حالیہ کچھ سالوں سے میں اولاد کی کمی کو بہت محسوس کرنے لگی تھی اور تم ہمیشہ مجھے کہتے تھے کہ اللہ تم سے اور بڑے کام کرائے گا‘ تم اس طرف فوکس کرو۔ تم نے کبھی مجھے قرآن کلاسز یا آفس کے کام کے دوران ڈسٹرب نہیں کیا‘ میں بار بار آ کر پوچھتی کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟ تم نفی میں سر ہلا دیتے۔ بادام‘ پستہ‘ انار‘ ناریل‘ امرود‘عجوہ کھجور اور مالٹا تمہیں کتنے پسند تھے۔ وہ سب آ گئے ہیں لیکن تم نہیں ہو۔ مجھ سے اب وہ چیزیں نہیں کھائی جاتیں جو تمہیں پسند تھیں۔ تمہیں مچھلی بالخصوص سیلمن مچھلی بہت پسند تھی‘ سنا ہے مارکیٹ میں وہ بھی آ گئی ہے لیکن تم نہیں تو امی وہ چیزیں خرید کر ہی نہیں لائیں۔ تمہارے دراز میں تمہاری چاکلیٹس اور تمہاری دوائیاں ویسے ہی پڑی ہیں۔ تمہاری کتابیں‘ بک مارکس‘ ہائی لائٹر سب کچھ ویسے ہی پڑا ہے‘ تمہاری سب چیزیں موجود ہیں‘ لیکن تم کہاں ہو؟
ہر کوئی تمہیں یاد کرکے روتا رہتا ہے‘ میں بھی بہت روتی ہوں۔میں تمہیں کہا کرتی تھی کہ میں کبھی کسی کے سامنے نہیں روئی‘ میں بہت بہادر ہوں مگر تمہارے جانے کے بعد میں 22 کروڑ عوام کے سامنے روئی ہوں کیونکہ کسی کو اس نقصان اور غم کا احساس نہیں جو میرا ہوا ہے۔ یہ گیارہ سال جو تمہاری رفاقت میں گزرے‘ میں نے کوئی کام اکیلے نہیں کیا مگر اب سب کرنے پڑتے ہیں۔ میں بھی اب تمہاری طرح سوچنے لگی ہوں‘ مجھے بھی کرپشن کرنے والوں اور ان کا دفاع کرنے والوں سے سخت نفرت ہو گئی ہے۔ مجھے اب عوام کی محرومیاں بھی نظر آنے لگ گئی ہیں۔ اکثر سوچتی ہوں کہ تمہارے پاس ایسے کون سے راز تھے کہ تمہیں ہمیشہ کیلئے چپ کرا دیا گیا۔ بہت سے لوگ ہیں جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ملک کے مفاد کے خلاف کام کر رہے تھے‘ ان کو تو معافی مل گئی ہے۔ تم تو اس ملک سے پیار کرتے تھے اور کرپشن کا خاتمہ چاہتے تھے تو تمہیں کیوں سر میں گولی مار دی گئی۔ تمہاری تو کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی‘ تم تو کبھی ذاتیات پر بات نہیں کرتے تھے۔ تم تو سب کا بہت احترام کرتے تھے۔ تم اکثر کہتے تھے کہ ہم صرف کام پر تنقید کرتے ہیں‘ کسی کی نجی زندگی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
تم مجھے ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ جیا! لوگوں کو معاف کرنا سیکھو‘ سب کو معاف کر دیا کرو، لیکن... میں کسی کومعاف نہیں کروں گی، نہ قاتلوں کو، نہ سہولت کاروں کو، نہ منافقوں کو۔ اگر کسی نے میرے شہید شوہر یا میرے خاندان کی کردارکشی کی کوشش کی تو میں سالوں عدالتوں کے چکر لگانے کو بھی تیار ہوں۔ اب میرے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا۔ میرا شوہر‘ میرا سب سے قیمتی اثاثہ منوں مٹی تلے جا سویا ہے۔ جس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ ہو‘ اس کے ساتھ لڑائی بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں