آہ ! ارشد شریف شہید …(3)

پیارے ارشد! تم نمود و نمائش سے دور بھاگتے تھے۔ اتنا مشہور و معروف ہوکر بھی تم میں کوئی غرور نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جتنا تمہیں عزت‘ دولت اور پیار سے نوازا‘ اتنا ہی تم ملنسار اور عاجزی و انکساری والا بن گئے۔ اتنے برسوں میں شاید ہی میں نے تمہیں غصے میں دیکھا ہو مگر نا انصافی‘ کرپشن اور خواتین کی توہین پر تمہیں فوری غصہ آجاتا تھا۔ اس سال تم بہت چپ رہنے لگے تھے‘ بس ایک دھیمی سی مسکراہٹ تمہارے چہرے پر ہوتی تھی اور تم کام کرتے رہتے یا کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔ ٹی وی پروگرام کے علاوہ شاید ہی میں نے تمہیں بولتے ہوئے دیکھا ہو۔ لاکھوں لوگ تمہیں فالو کرتے تھے‘ تم جو لکھتے تھے‘ جو کہتے تھے‘ وہ ٹرینڈ بن جاتا تھا۔ تم تو اپنا موقف دے کر آف لائن ہوجاتے تھے مگر تمہاری پوسٹوں پر ہزاروں‘ لاکھوں ری ٹویٹس اور لائکس آتے تھے۔ تم کبھی ان چیزوں کی پروا نہیں کرتے تھے۔ میں اگر تمہیں کبھی بتاتی کہ آج تمہارے فالورز اتنے لاکھ ہوگئے ہیں تو تم کہتے کہ میں یہ سب شہرت یا فالوورز کے لیے نہیں کرتا‘ میں صرف اس چیز کا خواہاں ہوں کہ اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہوجائے۔ میں کہتی کہ تم اتنے بے خوف کیوں ہو؟ ذرا سا بھی ڈر نہیں لگتا تو تم کہتے کہ میں صرف اُس سے ڈرتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری زندگی اور موت کا فیصلہ ہے۔ تم اس زعم میں تھے کہ تمہاری وطن سے محبت کے سامنے سب ماند پڑجائے گا اور کرپٹ لوگ راہِ راست پر آ جائیں گے مگر تمہاری آواز خاموش کرا دی گئی۔ کرپشن آج بھی ہورہی ہے لیکن تم نہیں ہو۔ پتا ہے تم آج بھی اپنے افکار‘ اپنے کام اور اپنی جاندار صحافت کی وجہ سے زندہ ہو۔ آج بھی تمہارے کام کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ ارشد! تمہیں صرف کام کرنا پسند تھا‘ تم پر کوئی اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکا۔ جب تمہیں خریدا نہیں جاسکا‘ دبائو میں نہیں لایا جاسکا تو تمہیں قتل کرادیا گیا۔ پوری قوم جانتی ہے کہ تم پر سولہ ایف آئی آرز ہوئیں‘ پورے پاکستان میں مقدمے درج ہوئے لیکن تم نے تب بھی حوصلہ نہیں ہارا۔
جب ارشد کو آف ایئر کرایا گیا تو وہ کام کو بہت مس کرتے تھے میں نے ان کو کہا: میں نے 2017ء میں آپ کا یوٹیوب چینل بنایا تھا‘ آپ اس کو کیوں نہیں استعمال کرتے؟ آپ کا فیس بک اکائونٹ بھی ویریفائیڈ ہوچکا ہے‘ اس کو بروئے کار لائیں؛ تاہم وہ رپورٹنگ اور پروگرام اینکرنگ میں مصروف رہے اور وقت نہیں نکال سکے۔ غریب الوطنی اور گھر والوں سے دوری کے دوران پہلی بار انہوں نے ٹویٹر پر اپنے فینز اور فالوورز کو رپلائی کرنا شروع کیا۔ ان کے فینز ان کے رپلائی سے بہت خوش ہوتے۔ ان کو زندگی میں بھی بہت پیار ملا اور وہ شہید ہوکر بھی امر ہوگئے۔
ارشد کی شہادت کو ساٹھ دن ہوچکے ہیں‘ آج بھی ان کی قبر پر تازہ پھول اور گلدستے پڑے تھے۔ اتنی خوشبو تھی کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ آس پاس ہوں۔ اس سال وہ بہت پریشان رہے لیکن کبھی شکوہ کناں نہیں ہوئے۔ انہوں نے کبھی ملک سے باہر جائیداد نہیں بنائی۔ قتل کی دھمکیوں کے باوجود کسی بھی ملک میں اسائلم نہیں لیا۔ اس ملک پہ حکومت کرنے والے بھی اپنے بچوں کو یہاں رکھنا پسند نہیں کرتے‘ اشرافیہ کے بچے بھی باہر ہیں‘ ان کی جائیدادیں بھی باہر ہیں مگر ارشد نے اسی ملک میں رہنا اور یہیں دفن ہونا پسند کیا۔ اس سال وہ ملی نغمے اونچی آواز میں سنتے تھے۔ میں انہیں کہتی تھی کہ انقلاب اس ملک میں نہیں آنا‘ وہ ہر بار یہی جواب دیتے کہ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟ ہمت کے ساتھ جدوجہد جاری رکھنی چاہیے‘ قطرہ قطرہ سمندر بنتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ وہ جینے کی آرزو کے بجائے شہادت کے طالب بن گئے تھے۔
ارشد کہتے تھے کہ کرپشن اس ملک کے تمام مسائل کی جڑ ہے‘ جب تک یہ ختم نہیں ہوگی ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ ارشد! تم اپنی جان کا نذرانہ دے گئے‘ ہمیں تنہا چھوڑ گئے مگر تم قوم کو جھنجھوڑ گئے‘ لوگ آج بھی تمہارے لیے نوحہ کناں ہیں لیکن ارشد...! یہ ملک‘ یہ معاشرہ اب بھی ویسا ہی ہے۔ اشرافیہ کو این آر او مل رہا ہے‘ ان کے کیسز ختم ہوگئے ہیں‘ جن پر مقدمات چلنے چاہئیں‘ ان کو پروٹوکول مل رہا ہے‘ دہشت گردی کا عفریت ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ یہ وہ پاکستان نہیں جس کے بارے میں تم کہتے تھے کہ بس دسمبر تک میں لوٹ کر آ جائوں گا۔ تم تو کہتے تھے کہ جلد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تم کتنے پُرامید تھے۔ ہماری آخری وڈیو کال کافی طویل تھی‘ تم واک کررہے تھے اور ساتھ ساتھ پھل کھا رہے تھے۔ میرے سامنے تم ملک کے بہترین مستقبل کی منظرکشی کررہے تھے۔ تم ویسے تو چپ رہنا پسند کرتے تھے لیکن اگر وطن سے کوئی خوشی کی خبر آتی تھی تو تم بہت مسکراتے تھے۔ ارشد تم اس ملک سے‘ اس کے اداروں سے اتنا پیار کرتے تھے‘ تمہیں کیا پتا کہ تمہارے جانے کے بعد ہمیں کتنا ستایا گیا‘ پولیس نے اپنی مدعیت میں تمہارے کیس کی ایف آئی آر درج کی۔ جب میں نے کہا کہ میرے خاندان کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کریں تو کہا گیا کہ ایک کیس کی دو ایف آئی آرز درج نہیں ہوسکتیں۔ ایسے لگتا ہے کہ انصاف بھی اشرافیہ کی مرضی سے دیا جائے گا‘ ورنہ نہیں دیا جائے گا۔ ارشد مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں انصاف ملے گا‘ پوسٹ مارٹم رپورٹ پہلے میڈیا اور سوشل میڈیا پر لیک کی جاتی ہے‘ پھر خاندان والوں کو ملتی ہے۔ ہر چیز کے لیے گھنٹوں‘ دنوں اور مہینوں کا انتظار کرایا جاتا ہے۔ ارشد! تمہارا اس ملک و قوم کے ساتھ پیار یکطرفہ تھا‘ وہ جن کو تم اپنا بھائی کہتے تھے‘ جن پر فخر کرتے تھے‘ جن پر نازاں تھے‘ وہ بہت کمزور ثابت ہوئے۔ تمہارے انصاف کی جنگ ہم عورتوں پر آگئی ہے، مگر ہم ڈٹی ہوئی ہیں کیونکہ ہمارے ساتھ پاکستانی قوم کھڑی ہے۔ وہ سبھی جن کو تم اپنے دوست کہتے تھے‘ منافق‘ ڈرپوک اور بزدل ثابت ہوئے۔ وہ سبھی بھاگ گئے‘ کوئی ایک بھی ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔ مگر عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ تمہاری امی تمہاری طرح بہادر ہیں اور پوری قوم کو ان پر فخر ہے۔
لوگ تمہاری قبر پر پھول کبھی نہیں مرجھانے دیتے۔ تمہارے لیے فاتحہ خوانی کرنے والے کم نہیں ہوتے۔ شاعر تمہیں اپنی شاعری میں خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔ میں نے اسلام آباد کے قبرستان میں پہلے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کسی صحافی کی قبر پر اتنا رش ہو۔ چھوٹے چھوٹے بچے وہاں آتے ہیں‘ ان کے والدین انہیں تمہاری حق گوئی اور بہادری کے قصے سناتے ہیں۔ اگر کسی جگہ پر لوگ مجھے پہچان جائیں تو مجھ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہیں اور تمہارے قاتلوں کو بدعائیں دیتے ہیں۔ مجھے یہاں اور کینیا میں انصاف کی امید تو بالکل نہیں لیکن اتنا ضرور علم ہے کہ خدا کی لاٹھی ضرور حرکت میں آئے گی۔ مکافاتِ عمل ہوگا اور پوری دنیا دیکھے گی کہ تمہارے قاتل نشانِ عبرت بنیں گے۔
ارشد!تمہیں ہیومن رائٹس کمیشن نے اعلیٰ ایوارڈ دیا ہے۔ جس یونیورسٹی سے تم نے ماسٹرز کیا تھا‘ آئرلینڈ کی اس السٹر یونیورسٹی نے تمہارے نام پر ہر سال ایک ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔ مگر سب سے بڑا ایوارڈ تمہیں عوام نے دیا ہے۔ تمہارے پیار اور عقیدت میں لاکھوں آنکھیں روئی ہیں۔ تمہارے لیے لاکھوں ہاتھ دعائوں کے لیے اٹھتے ہیں۔ مجھے تمہارے لیے ایصالِ ثواب اور ہدیہ میں پڑھے گئے درود شریف اور قر آن پاک موصول ہو رہے ہیں،عوام تمہارے نام سے فلاحی کام کررہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تمہارے قاتل گمنامی میں مرجائیں گے لیکن تم دنیا میں سرخرو ہوگئے اور ان شاء اللہ آخرت میں بھی سرخرو ٹھہرو گے۔
اگر اس ملک کے صحافی حق‘ سچ اور عوام کا ساتھ دیں تو کرپشن کا عفریت اپنی موت آپ مر جائے۔ لیکن ارشد ایسا ہوگا نہیں‘ کیونکہ کچھ لوگوں کو ملک و قوم کا نہیں‘ صرف اپنا مفاد عزیز ہے۔ اس وقت ملک افراتفری کا شکار ہے‘ ہر روز کوئی آڈیو‘ وڈیو لیک ہو رہی ہے۔ اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ نفرت بہت بڑھ گئی ہے۔ غربت کی شرح میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے۔ عوام کی قوتِ خرید ختم ہو کر رہ گئی ہے مگر حکومت سب اچھا ہونے کا نعرہ لگا رہی ہے۔ ارشد! تمہارے جانے کے بعد میرے خواب اور سبھی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔ مجھے مستقبل میں بھی اس ملک کے حالات اچھے نظر نہیں آرہے۔ اب تو غیر ملکی سفارت خانے بھی یہ الرٹ جاری کررہے ہیں کہ اسلام آباد ان کے شہریوں کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ میں تو کہتی ہوں کہ غیر ملکی افراد کیا‘ اسلام آباد تو اپنے شہریوں کے لیے بھی محفوظ نہیں ہے۔ کون کب کس کو گرفتار کرکے اس پر تشدد کرے‘ اس کو غائب کر دے‘ اس پر پرچے درج کرا دے‘ کچھ معلوم نہیں۔ ارشد! تمہارے جانے کے بعد میرا دل ٹوٹ گیا ہے‘ مجھے اب کسی کرشمے کی امید نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ معاشرہ جیسا تھا‘ ویسا ہی رہے گا‘ یہاں کچھ نہیں بدلے گا۔ اگر کوئی حق اور سچ کا عَلم اٹھائے گا تو اس کی آواز کو خاموش کرا دیا جائے گا۔ میں نے تو کبھی تمہیں بخار سے بھی تپنے نہیں دیا تھا‘ جب تم اکتوبر میں واپس آئے تو تمہارے جسم میں تین گولیاں لگی ہوئی تھی۔ وہ تین زخم مجھے آج بھی سونے نہیں دیتے۔ گولیوں سے ہونے والے وہ سوراخ مجھے رلاتے رہتے ہیں۔ مجھے جب بھی تمہارا خیال آتا ہے‘ میرے دل سے تمہارے دشمنوں اور قاتلوں کے لیے تین بدعائیں نکلتی ہیں۔ یااللہ! جنہوں نے ارشد پر زمین تنگ کی‘ آپ ان پر ان کی قبریں تنگ کر دینا۔ جنہوں نے میرے ارشد کا ناحق خون کیا‘ ان کو دنیاوی سکون سے محروم کردے۔ یا اللہ! جنہوں نے میرے ارشد کی جان لی‘ ان کا حساب ظالمین کے ساتھ کرنا‘ آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں