آہ! ارشد شریف شہید …(آخری حصہ)

ارشد! تم پر تو کتابیں اور ناول لکھے جاسکتے ہیں لیکن تم پر لکھے جانے والے میرے کالموں کی سیریز کا یہ آخری حصہ ہے۔ مجھ سے اب مزید نہیں لکھا جاتا۔ تمہارا ذکر کرتے ہی میری آنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتی ہیں۔ آنکھوں سے مسلسل برستے آنسو مجھے لکھنے نہیں دیتے۔ میرا چہرہ‘ لیپ ٹاپ‘ سب آنسوئوں سے بھر جاتے ہیں۔ میں گھر کے ایک کونے میں چپ کرکے بیٹھی رہتی ہوں۔ زیادہ وقت روتی رہتی ہوں یا قرآنِ پاک پڑھتی ہوں یا پھر تمہارے انصاف کے لیے کوئی پوسٹ کردیتی ہوں۔ تمہارے ظالمانہ قتل کا کیس بھی چل رہا ہے۔ وہ سب کام جو تمہارے انصاف کے لیے کرنے چاہئیں‘ ہم اپنے تئیں کررہے ہیں۔
جب تمہاری شہادت ہوئی تو اس کے بعد میں نے تمہاری بہت سی تصاویر پوسٹ کیں‘ جو تمہاری زندگی میں بطور فوٹوگرافر اور بطور بیوی میں نے لی تھیں۔ یہ تصاویر میں نے اس لیے شیئر کیں کہ جنہوں نے تمہاری گولی لگی تصاویر شیئر کرکے حق سچ کی آواز بننے والے صحافیوں کو ڈرانے‘ دھمکانے کی کوشش کی‘ ان کی دھمکیاں دب کر رہ جائیں۔ یقینا تم بہت بہادر انسان تھے اور بہت شان سے رخصت ہوئے۔ بعد از مرگ بھی تمہارے چہرے پر ایک نور اور ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ لاکھوں افراد نے تمہارا جنازہ پڑھا۔ اس میں بچے‘ عورتیں‘ بزرگ حتیٰ کہ خصوصی افراد بھی شامل تھے۔ میں شاہ فیصل مسجد کی گیلری میں موجود تھی اور یہ سوچ کر حیران تھی کہ یہ کون لوگ ہیں‘ کہاں سے اور کیوں آئے ہیں۔ لیکن وہ سب تمہارے لیے آئے تھے۔ تمہارے جنازے میں سبھی لوگ رو رہے تھے۔ میں بالکل پیچھے کھڑی تھی تاکہ لوگ مجھے پہچان نہ جائیں لیکن اس کے باوجود بہت سی خواتین گیلری میں مجھے دیکھ کر ملنے آگئیں۔ جہاں انہوں نے مجھے بہت پیار دیا‘ وہیں مجھ سے معافی بھی مانگی۔ ان سب نے تمہاری بہادری پر فخر کا اظہار کیا۔یقینا تمہارے جنازے میں لاکھوں افرادموجود تھے اور سبھی نعرے لگا رہے تھے: ارشد تیرے خون سے انقلاب آئے گا۔
ارشد! تمہیں لاکھوں لوگ پیار کرتے ہیں۔ تمہیں زندگی میں بھی بہت پیار ملا اور جانے کے بعد بھی تم امر ہوگئے ہو۔ آج بھی لوگ تمہارے لیے دعاگو ہیں، تمہاری تصاویر اپنی پروفائل پر لگاتے ہیں‘ تمہارے لیے ٹویٹس کرتے ہیں۔ اِدھر میرے زخم ہیں کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ میں بہت کوشش کرتی ہوں کہ بنا آواز کے روئوں‘ تاکہ کوئی میری آواز نہ سن لے لیکن گھر والے مجھے ہر وقت اپنی محبت اور شفقت کے حصار میں رکھتے ہیں۔ کوئی لائبریری یا میرے کمرے میں آجائے تو میں جلدی جلدی آنسو صاف کرکے یہ ظاہر کرتی ہوں کہ میرے زخم بھر رہے ہیں‘ اب مجھے قرار آ رہا ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ زخم کبھی بھر ہی نہیں سکتے۔ تم ایک مثالی شوہر تھے‘ ایک بہترین دوست اور میرے لیے سب سے مضبوط سائبان تھے۔ میرے گھر والے‘ جو تمہارا سسرال تھا‘ تمہارے حسنِ سلوک اور اخلاق کے گرویدہ تھے۔ تم تمام بڑوں سے شفقت اور چھوٹوں سے محبت سے ملتے تھے۔ سب کو تمہاری بہت یاد آتی ہے۔ ہر کوئی تمہارے لیے روتا رہتا ہے۔ امی‘ ڈیڈی‘ آنٹی‘ سب بہت رنجیدہ ہیں۔ میرے بہن بھائی‘ میری سہیلیاں‘ خاندان کے بچے‘ میرے کولیگز‘ کون ہے جو تمہارے لیے اشک بار نہیں۔ ایسا لگتا ہی نہیں کہ تم چلے گئے ہو۔
لوگ تمہارے ایصالِ ثواب کے لیے مختلف فلاحی و رفاہی کام کررہے ہیں۔ کسی نے قرآنِ پاک پڑھ کر ہدیہ کیا تو کسی نے لاکھوں مرتبہ درود شریف پڑھ کر تمہارے لیے تحفہ بھیجا۔ یہاں تک کہ تمہاری قبر پر بھی لوگ عقیدت و محبت سے صفائی کرتے ہیں۔ تمہاری قبر ہر وقت پھولوں سے مہکتی رہتی ہے۔ تمہارے وہاں ہونے سے اب مجھے قبرستان سے بھی ڈر نہیں لگتا۔ تم ایک درخت کے سائے میں آرام کررہے ہو۔ ہر وقت وہاں فاتحہ خوانی کرنے والوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ جب بھی تمہارا ذکر ہوتا ہے‘ لوگ تمہارے قاتلوں کو ہاتھ اٹھا کر بددعائیں دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کسی نہ کسی کی دعا ضرور قبول ہو گی اور تمہارے قاتلوں کا حشر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔
میں نے خود تمہارا جنازہ پڑھا، تمہاری قبر پر بھی جاتی ہوں لیکن اس کے باوجود اب بھی ایسا لگتا ہے کہ ابھی تمہارا فون آئے گا‘ ابھی تمہارا میسج آئے گا ہم سب انتظار میں رہتے ہیں۔ تمہارے کپڑے‘ جوتے‘ کتابیں‘ کف لنکس‘ بک مارکس‘ دل کے عارضے کی دوائیاں‘ ایوارڈز‘ تصاویر غرض سب کچھ وہیں پڑا ہے جہاں تم چھوڑ کر گئے تھے مگر تم نہیں ہو۔ تمہارے پالے ہوئے جانور تمہیں یاد کرکے روتے رہتے ہیں‘ میں نے ان کو بہت بار یہ بتانے کی کوشش کی کہ تم جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے ہو لیکن وہ مجھے دیکھتے ہی چھپ جاتے ہیں۔ تمہارے لگائے ہوئے دو پودے پھل دینے لگے ہیں۔ سب کچھ ویسا ہی ہے مگر تم نہیں ہو۔ اب تمام عمر کا انتظار ہے۔
بہت سے سوال ہیں جو ہمیں سونے نہیں دیتے مگر ہمارے سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ تمہارے قتل کے بعد‘ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسی خبر آتی ہے کہ ہمارا دل دہل جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ قتل سے پہلے تم پر تشدد ہوا‘ کوئی کہتا ہے کہ اس کی وڈیو بھی بنائی گئی اور یہ ایک فرمائشی قتل تھا۔ ارشد! ہم تو تمہیں سرد خانے میں دیکھنے کے بعد ہی زندہ لاشیں بن گئے تھے۔ اگرایسا کچھ بھی موجود ہوا تو شاید اسے دیکھنے کے بعد ہمارے دل بند ہوجائیں گے۔ بہت سے لوگوں کے لیے اب ہم ایک خبر کا میٹریل ہیں۔ ہم نے اپنی نجی زندگی کو ہمیشہ اپنے کام سے الگ رکھا۔ مجھے یہ چیز اب بھی پسند نہیں کہ کوئی ہمارے رشتے یا ہماری نجی زندگی کو زیرِ بحث لائے۔ میاں بیوی کا رشتہ ریٹنگ یا شہرت لینے کے لیے نہیں ہوتا‘ اس لیے تم اور میں اپنی نجی زندگی کو دنیا سے اوجھل رکھتے تھے۔
ارشد! تمہارے جانے کے بعد میں نے ایک بار بھی کیمرہ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ تمہیں یاد ہے نا ہم سال کا آخری سورج ایک ساتھ کور کرتے تھے، لیکن اس بار میں نے سورج کو ڈوبتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہماری زندگیوں کا سورج تو 23 اکتوبر کو ہی غروب ہوگیا تھا۔ اب تمہارے کیس کی تاریخ ہے‘ مجھے پوری امید ہے کہ سپریم کورٹ سے ہمیں انصاف ضرور ملے گا۔ صحافی برادری ہمارے ساتھ کھڑی ہوگی۔ تمہیں ہر کسی نے خراجِ تحسین پیش کیا اور ہمیں حوصلہ دیا۔ اگر اس وقت تمہارے لیے آواز نہ بلند کی گئی تو آگے بھی صحافیوں کے لیے حالات سازگار نہیں ہوں گے۔ انہیں بات کرنے‘ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے‘ سوال پوچھنے پر تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا‘ گرفتار کیا جائے گا اور پھر آخر میں مار دیا جائے گا۔ اب صحافی برادری کو متحد ہوکر اس کیس پر اپنی اپنی آواز بلند کرنا ہوگی۔
میری یہ خواہش ہے کہ اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی میں اہم شاہراہوں کو ارشد شریف شہید کے نام سے منسوب کیا جائے اور ارشد شریف کے نام پر جرنلزم سکول تعمیر کیا جائے تاکہ آنے والی نسل بھی ارشد کے کام سے کچھ سیکھ سکے۔ وہ ہمیشہ حق بات کرتا تھا‘ ہر بات کے حوالے سے اس کے پاس دستاویزی ثبوت ہوتے تھے ‘وہ کرپشن کے خلاف جہاد کررہا تھا‘ وہ کبھی کسی کی نجی زندگی پر بات نہیں کرتا تھا اور ہمیشہ صرف کام پر بات کرتا تھا۔
ارشد! گیارہ سال کے ازدواجی رشتے میں مَیں نے کبھی نہیں دیکھا کہ تم نے کسی کی نجی زندگی پر بات کی ہو۔ تم ویسے بھی خاموش طبع تھے‘ ایک دھیمی سی مسکراہٹ اور محض پڑھنے لکھنے میں مصروف۔ تمہیں فوٹوگرافی‘ ڈرائنگ اور ہائکنگ کا بہت شوق تھا۔ جب فرصت ہوتی تو اپنے پپی کو لے کر واک پر جاتے تھے۔
جہاں ارشد شریف شہید کی پروفیشنل لائف بہترین تھی‘ وہاں اپنی نجی زندگی اور دونوں خاندانوں کے مابین بھی وہ بہت انصاف پسند تھے۔ اللہ تعالیٰ ارشد شریف کی قبر کشادہ کرے اور اسے نور سے بھر دے‘ ان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں