ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ صرف ایک دن کو خواتین سے کیوں منسوب کیا جاتا ہے‘ حالانکہ ہر دن ہی ان کا ہونا چاہیے۔ وہ اس دنیا میں محبت‘ خوبصورتی‘ وفا اور ایثار کی علامت ہیں۔ خواتین محبت کے خمیرمیں گندھی ہوئی پیدا ہوتی ہیں‘ ان کی وجہ سے نئے رشتے اور محبت جنم لیتی ہے۔ جہاں عورتوں کی محبت میں جنگیں ہوجاتی ہیں‘ وہیں دوسری طرف ان کے لیے نہریں تک کھو دی جاتی ہیں۔ باتیں چاند تارے توڑنے تک چلی جاتی ہیں لیکن ایسا عملاً ممکن نہیں۔ چاند تارے توڑ لانا محبت کی علامت سہی لیکن مرد جس عورت سے واقعتاً محبت کرتا ہے‘ اس پر اپنا سب کچھ نچھاور کردیتا ہے اور اس کو نکاح جیسے پاک رشتے میں باندھ لیتا ہے۔ شاعر کی شاعری ہو یا قلم کاروں کے افسانے‘ عورت ان کیلئے محبت‘ غم‘ جدائی اور دکھوں کا استعارہ ہے۔ کوئی اس کی غزال آنکھوں کے سحر میں مبتلا ہے تو کہیں اس کے بالوں کو کالی گھٹائوں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ کوئی اس کی یاد میں فن پارے بناتا ہے تو کوئی اس کو قلم سے خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ عورت صرف محبوبہ نہیں ہوتی‘ اس کے ساتھ مرد کے بہت سے رشتے ہیں‘ جن میں ماں‘ بہن‘ بیٹی‘ بھانجی‘ بھتیجی‘ دوست اور کولیگ وغیرہ شامل ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں مردوں کو عورتوں کے ساتھ مختلف رشتوں میں بندھا اور ان کو ہر طرح کی آسائش دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ بعض مرد تو اپنی کمائی کا ایک فیصد بھی خود پر نہیں خرچ کرتے اور اپنی ساری کمائی اپنی ماں‘ بیوی اور بیٹی پر خرچ کر دیتے ہیں۔ کتنے ہی مرد گھر میں بیٹی کی پیدائش کے بعد بری عادتوں سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ بعض اوقات جو بات ماں یا بیوی نہیں منوا پاتی وہی بات بہن یا بیٹی منوا لیتی ہے۔ اسی طرح کتنی ہی خواتین کو میں نے صبر و ایثار کا پیکر دیکھا ہے۔ انہوں نے ساری زندگی دوسروں کے لیے وقف کیے رکھی اور اپنے سے منسوب رشتوں پر اپنی زندگی تک نچھاور کردی۔ بچوں کی آنکھ صبح ماں کی پیاری آواز سے کھلتی ہے‘ اس کے ہاتھوں کا بنا ناشتہ‘ بہن کے ہاتھوں سے نوالے‘ پھراستانی کے ساتھ پڑھائی‘ کزنز اور دوستوں کے ساتھ کھیل کود۔ پھر جوانی میں کسی ایک سے محبت‘ اس کے ساتھ شادی اور بچوں کے ساتھ نئے رشتے میں جڑجانا۔ مرد اور عورتیں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں‘ اس لیے ان رشتوں میں نفاق پیدا نہیں کرنا چاہیے۔
مجھے یاد ہے کچھ سال پہلے خواتین مارچ میں ایک نعرہ لگا ''اپنے موزے خود ڈھونڈو‘‘ تو میں نے کہا: جب رکھے میں نے ہیں تو ڈھونڈ کر بھی میں ہی دوں گی۔ ہمارے گھر میں ملازمین کام کرتے ہیں‘ مگر اپنے مرحوم شوہر ارشد شریف کے بہت سے کام میں خود کرتی تھی۔ وہ صبح کے نکلے رات گئے واپس آتے تھے۔ ایسے میں اگر ان کو میں یہ کہتی کہ اپنا کھانا خود گرم کرو یا اپنے موزے خود ڈھونڈو تو یہ سراسر زیادتی کے مترادف ہوتا۔ ان کو نہ تو کچن میں لگے آلات چلانے آتے تھے نہ ان کو یہ پتا ہوتا تھا کہ کون سی چیز کون سی الماری کے کس حصے میں پڑی ہے۔ مجھے شروع میں گھریلو کام نہیں آتے تھے‘ اس وقت وہ میری معاونت کرتے تھے۔ جب ملازمین چھٹی پر ہوتے یا مجھے خود کام کرنا پڑتا تو وہ میری مدد کرتے اور مجھے بتاتے کہ کون سی چیزیں کس طرح سے کرنی ہیں پھر ایک وقت ایسا آیا جب میں تمام ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل ہوگئی۔ انہوں نے کبھی مجھے میرے صحافتی کام سے نہیں روکا، وہ کہا کرتے تھے: تم میں ٹیلنٹ ہے‘ اس کو ضائع مت کرو‘ وی لاگز بنایا کرو‘ فوٹوگرافی کرو‘ اگر چاہو تو مارننگ شوز کرو مگر میں سب سے پہلے اپنے گھر پر فوکس کرتی‘ پھر اگر وقت ملتا تو کالم نگاری اور بلاگنگ کرتی۔ مجھے لکھنا بولنے سے زیادہ پسند ہے۔ میں اکثر نوجوان بچیوں سے کہتی ہوں کہ تعلیم کے ساتھ گھریلو کاموں میں بھی دلچسپی لو‘ اپنا گھر خود چلانا چاہیے۔ جب میں چھوٹی تھی تو مجھے میری دادی اور والدہ کچن یا گھر کا کوئی کام کرنے نہیں دیتی تھیں۔ میرے ابو کو ہمیشہ یہ خدشہ رہتا کہ میری بیٹی کچن میں جائے گی تو اس کو کوئی چوٹ نہ لگ جائے‘ وہ ماچس یا چولہے سے دور رہے‘ چھری کو ہاتھ نہ لگائے‘ اس کو کوئی کٹ نہ لگ جائے؛ تاہم ان کو کیا پتا تھا کہ ارشد کی ناگہانی موت کے بعد میں آگ کے دریا سے گزروں گی۔ اتنی مشکلات آجائیں گی کہ بیان سے باہر ہوں گی۔ پہلے گھر کے باہر کی ساری ذمہ داریاں اور مالیاتی معاملات ارشد کے ذمے تھے‘ یہاں تک کہ اتنی مصروف زندگی کے باوجود مجھے پک اینڈ ڈراپ بھی وہ خود دیتے تھے۔ میں پتا نہیں کیا کیا باتیں کرتی رہتی‘ وہ چپ کرکے مسکراتے ہوئے سنتے رہتے۔ مجھے کسی چیز پر غصہ آتا یا الجھن ہوتی تو وہ مسکرا کر دلائل دیتے تاکہ میرا دھیان اس معاملے سے ہٹ جائے۔ میں چھوٹی چھوٹی چیز کو دل پر لے لیتی تھی اور وہ مجھے بہادر دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے مجھ پر کوئی سخت ذمہ داریاں نہیں تھیں۔ اب وہ نہیں ہیں تو میں نے بہادری کے ساتھ تمام چیزیں سیکھنا شروع کر دیں۔ وہ سب کام بھی کہ شاید ان کے گمان میں بھی نہیں ہوگا۔ وہ ضرور مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوں گے کہاں ایک زلزلے کے جھٹکے پر رونے والی‘ کہاں بجلی کی چمک سے تکیے میں منہ چھپانے والی‘ کہاں اندھیرے سے ڈر جانے والی‘ اور اب اتنے بڑے بڑے محاذوں پر اکیلی لڑرہی ہے۔ ارشدکو بیٹیوں سے بہت محبت تھی‘ ہمارے بھائی کی بیٹی علیزے جو تین سال کی ہے‘ اس کی کوئی فرمائش وہ رد نہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ میں اس کیلئے جو کھلونے لیتی‘ ارشدخود بھی علیزے کے ساتھ بیٹھ کر ان سے کھیلنے لگتے۔ وہ ہمیشہ کہتے کہ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ اپنی فیلڈ میں موجود خواتین کا بھی وہ بہت احترام کرتے تھے اور ان کے کام کو سراہتے اور شیئر بھی کرتے تھے۔
میں خود بھی جب پاکستانی خواتین کی طرف دیکھتی ہوں تو ان کی صلاحیتوں کو دیکھ کر حیران ہوجاتی ہوں۔ مجھے ان تمام عورتوں پر فخر محسوس ہوتا ہے جو محنتی اور سیلف میڈ ہیں۔ جنرل نگار جوہر کی مثال ہم سب کے سامنے ہے‘ جو خواتین فوج میں جانا چاہتی ہیں‘ وہ ان کے لیے رول ماڈل ہیں۔ اسی طرح ثمینہ بیگ پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کررہی ہیں اور پاکستان کا جھنڈا دنیا کے اونچے مقامات پر لہرارہی ہیں۔ عائشہ فاروق جنگی جہاز اڑا کر دشمن کے دلوں پر ہیبت طاری کررہی ہیں‘ بسمہ معروف گرائونڈ میں چھکے چوکے لگا کر ریکارڈ قائم کر رہی ہیں۔ زینب عباس کرکٹ کمنٹری کرکے اپنا سکہ جما رہی ہیں اور ماہرہ خان شوبز کے افق پر پوری آب و تاب سے چمک رہی ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد جہاں کینسر سے کامیابی سے لڑیں‘ وہیں انہوں نے سیاسی محاذ بھی سنبھالے رکھا۔ پاکستانی خواتین ادب‘ دفاع‘ کھیل‘ صحافت‘ تعلیم اور سائنس سمیت ہر شعبے میں اپنا لوہا منوارہی ہیں۔ دیکھنے میں صنفِ نازک لیکن اصل میں یہ صنفِ آہن ہیں۔ ہمیں بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینا ہوگی‘ ان کی صحت اور غذائی ضروریات کا خیال کرنا ہو گا کیونکہ ایک عورت نسلِ انسانی کو آگے لے کر چلتی ہے۔ ان کو اچھی خوارک‘ صاف پانی اور صحت کی مکمل سہولتیں ملنی چاہئیں۔ وراثت میں حصہ اور مرضی کی شادی کا حق ملنا چاہیے۔ انہیں مساوی مواقع ملنے چاہئیں کہ وہ اپنے خیالات و افکار کو دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔ عورت جذبات‘ احساسات اور محبت و وفا کی پیکر ہے۔ کسی شخص کو بھی اس کے احساسات اور جذبات سے نہیں کھیلنا چاہیے۔ عمومی طور پر کچھ مرد عورتوں سے شاد ی کا وعدہ کرکے بعد میں ان کو چھوڑ دیتے ہیں‘ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ عورت کا دل توڑنا بھی کارِ گناہ ہے۔ کچھ شقی القلب ان کو مارتے‘ ان پر تیزاب پھینک دیتے یا ان کو قتل تک کردیتے ہیں۔ یہ مردانگی نہیں‘ سراسر بزدلی ہے۔ ہر حال میں خواتین کا احترام کرنا چاہیے‘ یہی مردانگی کا تقاضا ہے۔
عورت اگر ماں ہے تو اس کی رول ماڈل حضرت ہاجرہؓ‘ حضرت آسیہؓ اور حضرت مریمؓ ہیں۔ اگر بیٹی ہے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا‘ اگر بیوی ہے تو حضرت عائشہؓ اور حضرت خدیجہؓ رول ماڈل ہیں۔ اگر بہن ہے تو حضرت زینبؓ۔ جنگ کے محاذ پر دیکھنا ہے تو حضرت ام عمارہؓ کو دیکھیں۔ دین کی خاطر جان کی قربانی دیتے ہوئے دیکھنا ہے تو حضرت سمیہؓ کی مثال ہمارے سامنے ہیں۔ حدیث و فقہ کی ترویج و تدوین میں حضرت عائشہؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت جویریہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت ام سلمہؓ اور حضرت فاطمہؓ کے نام ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔ اللہ تعالی ہمیں بھی ان نیکوکاروں اور ان کے پیروکاروں میں شامل کرلے تاکہ ہماری بھی دنیا اور آخرت سنور جائے۔ عورت قدرت کی شاہکار تخیلق ہے‘ وہ سراپا محبت اور ایثار ہے۔ وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ۔