پنجاب میں ایک محاورہ بولا جاتا ہے کہ ''دھیاں سانجھیاں ہوندیاں نیں‘‘۔ مطلب سب کی بیٹیاں ہماری بیٹیوں کی طرح ہیں‘ تمام بیٹیاں ہمارے لیے قابلِ احترام ہیں۔ پہلے ایسا لگتا تھا کہ یہ سچ ہے۔ مرد خواتین کو بہت احترام دیتے تھے، بس میں اپنی نشست اس خاتون کو دے دیتے تھے جو کھڑی ہوتی تھی۔ کوئی خاتون گاڑی کی خرابی یا ٹائر پنکچر ہونے کی وجہ سے پریشان ہوتی تو چند انجان مرد خود ہی اپنی اس بہن کی مدد کرنے آ جاتے۔ طویل لائن میں مرد خواتین کو پہلے جگہ دیتے۔ جہاں سے خواتین گزرتیں‘ مرد نگاہیں نیچی کرلیتے۔ اب بھی بہت سے مرد ایسے ہیں جو خواتین کا بہت احترام کرتے ہیں مگر کچھ مرد و خواتین انتقام کی آگ میں اندھے ہوچکے ہیں۔ ان کے انتقام کے زد میں آ کر معاشرتی اقدار بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔
کچھ لوگوں کی نفرت اور انتقام کی آگ ہماری سماجی و سیاسی روایات کو جھلسا رہی ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی ہوتی ہے اور بات گھر کی خواتین تک آجاتی ہے۔ گھریلو خواتین کی عزت کی پامالی ہوتی ہے۔ جو خواتین سیاست، صحافت اور پروفیشنل لائف سے منسلک ہیں‘ ان کو تو ویسے ہی پبلک پراپرٹی سمجھ کر تنگ کیا جاتا ہے۔ کسی کے بھی ساتھ‘ کوئی بھی جعلی خبر منسوب کردی جاتی ہے اور اس کے بعد اس کی کردار کشی کی منظم مہم شروع ہوجاتی ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید عید یا رمضان المبارک میں یہ سلسلہ رک جائے گا لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا۔
رمضان المبارک میں بھی ایسے ایسے الزامات‘ ایسے ٹرینڈز اور ایسی آڈیو‘ وڈیوز لیکس آئیں جن سے ایک دوسرے کے گھروں میں موجود خواتین کی کردارکشی کی گئی۔ ایک جعلی وڈیو پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی ایک سابق رکن اسمبلی سے منسوب کرکے پھیلائی گئی۔ ان پر اس غلیظ مہم سے کیا بیتی ہوگی‘ یہ کوئی نہیں جان سکتا۔ وہ اس ملک کی بیٹی ہیں‘ انتہائی قابلِ احترام ہیں۔ لندن سے انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے لیکن ان کے کچھ مخالفین چونکہ ان کی سیاسی اور قانونی جدوجہد سے متفق نہیں ہیں‘ لہٰذا ان کے خلاف کردار کشی کی گھٹیا مہم شروع کردی گئی۔ ہم خواتین کے پاس ایسی آڈیو‘ وڈیوز لیکس نہیں آتیں کیونکہ ہم اصول سے چلنے والے لوگ ہیں‘ کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ ہمیں مخرب الاخلاق چیزیں بھیجے لیکن سوشل میڈیا پر یہ چیزیں کھلے عام اَپ لوڈ کردی جاتی ہیں لہٰذا اب نہ چاہتے ہوئے بھی ان پر نظر پڑ جاتی ہے۔ میری سوشل میڈیا صارفین سے گزارش ہے کہ ایسا کوئی بھی مواد دیکھیں تو اس کو رپورٹ کرکے ریموو کرائیں۔ سوشل میڈیا فورمز کسی کے بھی خلاف منفی مہم کو رپورٹ کرنے کا آپشن دیتے ہیں۔ ایسی چیزوں کو آگے پھیلا کر گناہ میں شریک ہونے کے بجائے انہیں رپورٹ کریں اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔
عید کے روز پاکستان کی ایک بیٹی کے خلاف غلیظ مہم چلتی رہی‘ کسی نے سوچا کہ اس پر کیا گزری ہوگی؟ عید تو مسرت بھرا دن ہوتا ہے‘ رمضان المبارک کے بعد یہ دن ہمیں انعام میں ملتا ہے مگر مذکورہ سیاسی خاتون کے لیے یہ عید بہت مشکل رہی ہوگی۔ وہ بہت بہادر خاتون ہیں۔ جیسے ہی عید کی چھٹیاں ختم ہوئیں‘ میں نے ان کو کورٹ میں ایک مقدمے کی پیروی میں پیش ہوتے ہوئے دیکھا۔ وہ پورے وقار کے ساتھ کام کررہی تھیں۔ یہ دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا۔ خوشی اس لیے ہوئی کہ منفی مہم کے باوجود وہ پوری طاقت اور ہمت کے ساتھ اپنے کام پر واپس آئیں۔ دکھ اس لیے ہوا کہ ملک و قوم کی ایک بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ؟ دھی رانیاں تے سانجھیاں ہوندیاں سی‘ پھر اب کیا ہوگیا ہے؟ کیوں بیٹیوں کی عزت تار تار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟
عید کی چھٹیوں میں مجھے ایک اور صدمہ لگا۔ اب میرا دل بہت حساس ہوگیا ہے۔ ہر بات سیدھی دل پر جا کر لگتی ہے۔ مجھے بے اختیاررونا آگیا جب دیکھا کہ پولیس پنجاب میں بزرگ سیاست دان چودھری پرویز الٰہی کے گھر کا گیٹ توڑ رہی تھی اور نہتی خواتین کو گرفتار کیا جا رہا تھا۔ وہ مناظر دیکھ کر بہت رنج ہوا جب ایک خاتون نے روتے ہوئے دہائی دی اور دوسری شرمندگی سے اپنی چادر ٹھیک کررہی تھی۔ وہ پوچھ رہی تھیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، ہمیں پولیس نے کیوں گرفتار کیا ہے، ہم تو گھر کی چار دیواری میں بیٹھی تھیں۔ پچھلے سال رمضان المبارک میں ہمارے ساتھ بھی یہ ہوا تھا۔ ہمارے گھر میں کچھ لوگ گھسنے کو کوشش کر رہے تھے جو ارشد شریف کو گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ارشد نے مجھے کہا کہ خاموش رہنا، سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کچھ مت کہنا، میں اپنے معاملات کورٹ کے ذریعے حل کروا لوں گا۔ ارشد کا کہنا تھا کہ اگر تم نے سوشل میڈیا پر ایسی چیزیں لگا دیں تو ملک کی بدنامی ہوگی کہ کس طرح یہاں صحافیوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ میں نے کہا: اس بات کی فکر ان کو کیوں نہیں ہے جو یہ سب حرکتیں کر رہے ہیں اور صحافیوں کے گھروں میں گھسنے کی کوشش کررہے ہیں؟ ارشد نے کہا: یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، ہمیں عدالت سے ضرور انصاف ملے گا۔ ارشد قانون کی بہت پاسداری کرتے تھے اور کبھی رات کو بھی انہوں نے سگنل نہیں توڑا تھا۔ وہ ملک سے باہر بھی نہیں جانا چاہتے تھے مگر درجنوں مقدمے درج کر کے ان کو تنگ کیا گیا اور یہاں سے باہر بھیجا گیا تاکہ ان کو آسانی سے ٹارگٹ کیا جاسکے۔
ارشد کو خوش فہمی تھی کہ ملک میں کچھ ہی عرصے میں سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ چنگاری اب ایک الائو بن چکی ہے۔ آج بھی گھروں کے گیٹ توڑے جارہے ہیں، خواتین کی کردار کشی ہورہی ہے، سازشیں عروج پر ہیں، نفرتیں بڑھ رہی ہیں، ہر روز آڈیو‘ وڈیو لیکس آ رہی ہیں۔ لوگوں کی نجی زندگی میں مداخلت کو صحافت اور سیاست بتایا جارہا ہے۔ یہ چیزیں لیک اور ان کو شیئر کرنے والے‘ یہ سب اخلاقیات کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ اب یہ سوچ کر ہی ڈر لگتا ہے کہ نجانے کب‘ کون آپ کی عزت کو پامال کردے۔ مڈل کلاس کے پاس عزت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ شاید طاقت کے ایوانوں میں براجمان لوگوں کو اقتدار کے علاوہ کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی، لیکن مڈل کلاس پاکستانی کے لیے اس کی عزت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ اس لیے جب کوئی ان کی بیٹی‘ بہو‘ بہن‘ بیوی اور ماں سمیت گھر کی خواتین پر کیچڑ اچھالتا ہے تو وہ زندہ درگور ہوجاتا ہے۔ مت کریں یہ سب‘ رک جائیے! اس سلسلے پر ایک فل سٹاپ لگادیں۔ عورت چاہے گھر کی چار دیواری میں ہو یا پروفیشنل زندگی میں‘ اس کی عزت کریں۔ کچھ دردمند لوگوں کو ان سب چیزوں پر مل کر بیٹھنا چاہیے اور گزارش کرنی چاہیے کہ یہ سلسلہ بند کر دیں۔ اس سے معاشرہ تباہی کی طرف جارہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے خلاف دشمنی میں اس حد تک جا رہے ہیں کہ اب بہنیں‘ بیٹیاں بھی محفوظ نہیں۔
میرا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کو تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے نمائندوں کو ساتھ بٹھا کر یہ بتانا چاہیے کہ بہتان تراشی کی دین میں کیا سزا ہے‘ آڈیو‘ وڈیو لیکس کس قدر عظیم گناہ ہیں۔ کسی کی چھپ کر ریکارڈنگ کرنا یا جعلی وڈیو‘ آڈیو کو اس سے منسوب کرنے کی کیا سزا ہے۔ اسلام نے خواتین کو کیا حقوق دیے ہیں اور ان کا تحفظ کرنے میں معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری کیا ہے۔ جماعت اسلامی کو چاہیے کہ وہ ان تمام (سیاسی) لوگوں کو اپنے ساتھ بٹھائے جو روز سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف گند اچھال کر پورے پاکستانی معاشرے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اگر اس سلسلے کو روکا نہیں گیا تو اس کے نہایت بھیانک اثرات سامنے آئیں گے اور کسی کی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔