مزدور اور صحافی

مئی کی یکم تاریخ کو مزدوروں کا عالمی دن اور تین تاریخ کو آزادیٔ صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ عالمی دن منانے والوں نے بہت سوچ سمجھ کر یومِ مزدور اور یومِ صحافت آگے پیچھے منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے پیچھے ایک وجہ یہ ہے کہ صحافیوں اور مزدورں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں کی زندگی ایک جیسی ہی کٹھن ہے۔ مزدور سارا دن گھر سے باہر رہتا ہے‘ محنت کرتا ہے‘ پسینہ بہاتا ہے تب کہیں جاکر چند سو روپے کما پاتا ہے جس سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ وہ خود روٹی پانی کے ساتھ بھگو کر کھالیتا ہے تاکہ اس کے بچے روٹی کے ساتھ ترکاری کھا سکیں۔ سردی ہو یاگرمی‘ مزدور محنت اور مشقت کرتا ہے تو ہی کچھ کما پاتا ہے۔ کبھی وہ پتھر توڑتا ہے کبھی اینٹیں پیٹھ پر لاد کر لے کر جاتا ہے۔ اس کے ہاتھ اور پاؤں سخت اور کھردرے ہوتے ہیں۔ وہ اس معاشرے میں سب سے زیادہ محنت کرتا ہے اور اس معاشرے کو تشکیل دیتا ہے مگر پھر بھی اس کو وہ مقام نہیں ملتا جو اس کو ملنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں صرف امیر لوگوں کی عزت کی جاتی ہے‘ خواہ وہ کرپٹ ہی کیوں نہ ہوں۔ غریب محنت کشوں کو عزت و احترام نہیں دیا جاتا۔ ان کے کوئی حقوق نہیں ہیں۔ ان کی آمدنی کم ہے‘ ان کے حقوق غصب اور سلب کرلیے جاتے ہیں۔ آج کے اس دور میں بھی اینٹوں کے بھٹوں پر مزدوروں کو قید کرلیا جاتا ہے، ان سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے اور ان کے خاندان زندگی بھر غلامی کرتے رہتے ہیں۔ بہت سے محنت کشوں کو نوکر‘غلام اور ہاری بناکر قید کرلیا جاتا ہے۔ کئی وڈیروں اور بااثر افراد نے اپنی نجی جیلیں بنا رکھی ہیں جہاں ان افراد کو قید کر دیا جاتا ہے۔ اگر وہ فرار ہونے کی کوشش کریں تو ان کو قتل تک کردیا جاتا ہے۔ نہ صرف ان سے بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں سے بھی کام کرایا جاتا ہے، بعض کیسز میں ان کی خواتین سے زیادتی بھی کی جاتی ہے۔
ہمارا دین تو ہمیں کہتا ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کر دو مگر ہمارے اردگرد ایسا کچھ نہیں ہے۔ اپنے طور پر ہر کوئی ان کمزور مزدوروں کا استحصال ہی کرتا ہے۔ کام کرنے والی گھریلو ملازمہ کو گلاس توڑنے پر مارا جاتا ہے، چوری چھپے کھانا کھانے پر مار کر نالے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ بچہ یا بچی گھریلو ملازم ہو تو اس کو پائپوں اور ڈنڈوں سے مارا جاتا ہے، اس کو آگ اور کھولتے تیل سے جلا دیا جاتا ہے۔ گلی محلوں میں ریڑھی بانوں‘ سگنلز پر غبارے بیچنے والوں‘ اخبار بیچنے والوں‘ بوٹ پالش کرنے والوں اور گاڑیاں ٹھیک کرنے والے ''چھوٹوں‘‘ کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ ''چھوٹے‘‘ دراصل اپنے گھروں کے بڑے ہوتے ہیں۔ کاش کہ اس معاشرے میں محنت کش کی عزت ہو۔
اسی طرح صحافیوں کی زندگی بھی پُرخطر ہے اور یہ شعبہ بھی بہت محنت طلب ہے۔ صحافی جان ہتھیلی پر لیے گھومتا ہے، اس کو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ وہ سچ کی تلاش میں نہ جائے اور کرپشن کا پردہ چاک نہ کرے۔ اسی مشن میں بہت سے صحافیوں نے اپنی جان تک دے دی مگر حق کی راہ نہیں چھوڑی۔ ان میں صلاح الدین، سلیم شہزاد، حیات اللہ خان، ولی خان بابر اور ارشد شریف شہید کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ وہ دنیا سے چلے گئے مگر اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔ بہت سے صحافی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ صحافی ہونا آسان کام نہیں! کچھ لوگ انقلابی اور جنونی ہوتے ہیں۔ وہ سر پر کفن باندھ کر کام کرتے ہیں۔ صحافیوں پر صرف قتل‘ اغوا یا مارپیٹ کی تلوار ہی نہیں لٹک رہی۔ ان پر معاشی تلوار بھی لٹک رہی ہے۔ ان کی نوکریاں ختم ہوجاتی ہیں، اکثر کے پاس لائف انشورنس اور صحت کی سہولتیں نہیں ہوتیں۔ صحافی بس مشین کی طرح کام کرتے ہیں اور ان کو وہ حقوق بھی نہیں ملتے جو اُن دیگر ملازمین کو ملتے ہیں جو دفاتر میں کام کرتے ہیں۔ کاش ایسا ہو کہ ہر سال تنخواہ میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ ہو، سبھی ملازمت پیشہ افراد کو عید پر بونس ملے، چھٹیاں ملیں۔ ان کی جان و مال کا تحفظ کیا جائے۔
اس وقت صحافی جانی و مالی طورعدم تحفظ کا شکار ہیں۔ پہلے وہ صرف آن گرائونڈ ہراساں ہوتے تھے مگر اب سوشل میڈیا پر بھی ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں۔ مرد صحافیوں کو 'لفافہ‘ کہا جاتا ہے اور خواتین صحافیوں کی کردار کشی کی جاتی ہے، انہیں اخلاق باختہ القابات دیے جاتے ہیں، مسلسل تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کچھ تو یہاں تک مجبور ہوجاتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر اپنا کام نہ شیئر کریں۔ سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں اور اینکرز کو ریپ اور تیزاب گردی کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ ان کی تصاویر فوٹوشاپ کی جاتی ہیں، ان کے فون نمبر، گھر کا ایڈریس اور نجی معلومات سوشل میڈیا پر پھیلا دی جاتی ہے۔ ان کے خلاف ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں۔ اب صحافت کرنا‘ صحافی ہونا اور فیلڈ میں کام کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان میں صحافت کرنا آسان نہیں ہے۔ پہلے صرف اخبارات ہوتے تھے یا ایک سرکاری چینل‘ پی ٹی وی ہوتا تھا۔ اس کے بعد الیکٹرانک میڈیا میں بوم آیا اور نئے چینلز آئے تو صحافت کی ہیئت ہی بدل گئی۔ مزید نئے میڈیا ذرائع سے صحافیوں کا قلم مزید آزاد ہوگیا اور سوشل میڈیا آنے سے ان کے پاس بولنے اور لکھنے کی آزادی بڑھ گئی۔ جو بات وہ اپنے ادارے میں نہیں بول پاتے‘ وہ سوشل میڈیا پر بول دیتے اور لکھ دیتے ہیں۔ بلاگ اور وی لاگ کرکے سٹوریز عوام کے سامنے لاتے ہیں۔اس کے ساتھ فیس بک اور ٹویٹر کا بھی خوب استعمال ہوتا ہے۔خبروں کی نشرواشاعت کے لیے سماجی رابطے کی ویب سائٹس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر ان فورمز پر صحافی زیادہ ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے خلاف منظم مہم شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طاقتور شخصیات، ادارے اور سیاسی جماعتیں الگ سے صحافیوں کو دھمکاتی ہیں۔
اگر ہم ماضی قریب کا جائزہ لیں تو یہ صورتحال سب کے سامنے عیاں ہوگی کہ سنسرشپ اب پہلے کی نسبت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ صحافیوں پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران صحافیوں پر حملوں میں تقریباً دو تہائی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اب ہمارے ملک کا شمار عالمی سطح پر صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ فریڈم نیٹ ورک کی عالمی یومِ آزادیٔ صحافت کی مناسبت سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پچھلے بارہ ماہ میں صحافیوں کے خلاف حملوں اور دھمکیوں کے140 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جو اس سے پچھلے سال کی نسبت63 فیصد زیادہ ہیں۔ ان حالات میں صحافیوں کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ بہرصورت غیرجانبدار رہیں اور کسی بھی ادارے اور پارٹی کا آلۂ کار نہ بنیں۔صحافیوں کا کام صحافت کرنا ہے‘ خبر دینا ہے‘ تجزیہ کرنا ہے۔ سیاست اور ایکٹوازم کرنا ان کا کام نہیں ہے۔
بسا اوقات خبر کی نشر و اشاعت میں صحافی خود خبر بن جاتے ہیں۔یہاں حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ انسانی حقوق اور صحافتی حقوق کے مسلمہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق صحافیوں کو حقوق دے، ان کو تحفظ فراہم کرے، ان پر ہونے والے ظلم و تشدد کی جامع تحقیقات کرائے اور مجرمان کو کڑی سے کڑی سزا دے۔اس کے ساتھ ساتھ صحافیوں کی حفاظت کے لیے بل بھی پاس ہونا چاہیے تاکہ ان کو لائف انشورنس ملے۔ ان کو دیگر مراعات بھی ملنی چاہئیں۔ صحافیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں ایوارڈز بھی ملنے چاہئیں، ان کے کام کو سراہا جانا چاہیے؛ تاہم سب سے اولین چیز جانی اور مالی تحفظ ہے جس سے فی الحال پاکستانی صحافی محروم ہیں۔ اس حوالے سے ایک اور چیز جو مجھے تکلیف دیتی ہے وہ یہ کہ سانحات اور حادثات بھی صحافیوں کو اپنے حقوق کے لیے متحد نہیں کرسکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں