حوادثِ زمانہ اور عید ِ رفتہ

جب کسی ملک و معاشرے میں سیاسی اور معاشی استحکام نہ ہو تو حالات عوام کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتے جاتے ہیں۔ امرا کے لیے کچھ تبدیل نہیں ہوتا‘ وہ پہلے بھی آرام دہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اوربعد میں بھی سہولت سے زندگی گزارتے ہیں۔ مگر حکومتوں کے آنے جانے میں عوام پس کر رہ جاتے ہیں۔ وہ تہوار اور خوشیاں منانے سے بھی قاصر ہو جاتے ہیں۔ اب مہنگائی اتنی ہو گئی ہے کہ لوگ عید پر بھی نئے کپڑے اور جوتے نہیں خرید پاتے‘ سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی نہیں کر پاتے۔ کچھ لوگ سب کچھ ہونے کے باوجود اپنے غموں کی وجہ سے عید منانے سے قاصر ہیں۔ اس سال ایک اچھا بکرا چالیس‘ پچاس ہزار سے کم نہیں تھا اور اجتماعی قربانی میں حصہ بیس سے پچیس ہزار روپے تھا۔ 20 ہزار ماہوار کمانے والا شخص یہ فریضہ کیسے سرانجام دے؟ خواہش کے باوجود کئی متوسط افراد بھی قربانی نہیں کر سکے۔ اکثر امرا قربانی کر کے اچھا گوشت خود رکھ لیتے ہیں اور غریبوں کو صرف چھچھڑے دیتے ہیں۔ غریب عیدِ قرباں پر بھی گوشت سے محروم رہ جاتا ہے۔ اب لوگ کہاں اس طرح عید منا سکتے ہیں جیسے پہلے ہوتی تھی۔ دودھ اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ عید‘ تہوار پر بھی فیرنی نہیں بن سکتی۔ پہلے بڑے بزرگ جب کھیر بناتے تھے تو اس پر سونے اور چاندی کے ورق لگایا کرتے تھے‘ میوہ جات ڈالے جاتے تھے۔ اب ایک عام گھرانہ بھی ایسی عیاشیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس دور میں تو جینا ہی کمال اور اصل ہنر ہے۔ سونا‘ چاندی اتنے مہنگے ہیں کہ غریب اور متوسط طبقات ان کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کے تو ورق بھی ان کی پہنچ سے باہر ہیں۔
اب عید ویسے نہیں ہوتی جیسے پہلے یا کم از کم ہمارے بچپن میں ہوتی تھی۔ اب غریب عوام روٹی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ پہلے طرح طرح کے لوازمات دسترخوان پر چُنے جاتے تھے مگر اب تو غریب عوام صرف اس سوچ میں غلطاں رہتے ہیں کہ بل کیسے دینا ہے‘ بچوں کے سکول کی فیس کیسے دینی ہے۔ اگلے وقت کا کھانا کیسے کھائیں گے۔ اس سوچ نے سبھی خوشیوں کو نگل لیا ہے۔ ہر دورِ حکومت میں حکمران اشرافیہ قرضے لیتی ہے اور اس کا بوجھ عوام پر آن پڑتا ہے۔ ان پر نئے ٹیکسز لگا دیے جاتے ہیں۔ آمدنی ان کی بڑھ نہیں رہی‘ قوتِ خرید مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے مگر نئے ٹیکسز لگا دیے جاتے ہیں۔ وسائل اُتنے ہی ہیں لیکن خرچے بڑھتے جا رہے ہیں۔ عوام اب غربت کی چکی کے دونوں پاٹوں میں پِس رہے ہیں؛ ایک طرف قوتِ خرید کم ہوتی جا رہی ہے اور دوسری طرف نئے ٹیکسز لگا کر چیزیں مزید مہنگی بنائی جا رہی ہیں۔ مہنگائی کے سبب خودکشیوں کی شرح کافی زیادہ ہو گئی ہے۔ لوگ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، عوام ہر طرح کے ستم کی زد میں ہیں لیکن کسی کو کوئی پروا ہی نہیں ہے۔
عید پر پاکستان کے سیاستدان ایک دوسرے کو آئی ایم ایف کے قرضے کی نئی قسط منظور ہونے کی مبارکباد دے رہے تھے۔ مجھے اس بات پر حیرت ہو رہی تھی کہ قرضہ ملنے پر کون خوش ہوتا ہے؟ تکنیکی طور پر ہم ایک امیر ملک ہیں‘ ایک زرعی ملک ہیں‘ قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں‘ ہمارے پاس معدنیات کے لاتعداد ذخائر ہیں‘ قدرتی نظاروں سے بھرپور سیاحتی مقامات ہیں‘ دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ہیں‘ پھر بھی ہم غریب کیوں ہیں؟ ہم اس لیے غریب ہیں کہ ہمارے ملک میں امیروں کو این آر او مل جاتا ہے اور غریبوں کو ناکردہ جرائم پر بھی سزا ہو جاتی ہے۔ امیروں کی اربوں کی کرپشن معاف ہو جاتی ہے لیکن غریب کو روٹی چوری کرنے پر بھی جیل ہو جاتی ہے۔ اس لیے ملک کے حالات یہ ہیں کہ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود یہ پوری دنیا میں قرضہ مانگتا پھر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت کا وزیراعظم امریکہ گیا اور کامیاب دورہ کیا۔ بھارت کے سرمایہ کار بھی وزیراعظم کیساتھ گئے۔ وہاں دنیا کے بڑے کارباری اداروں سے ان کی میٹنگز ہوئیں۔ امکان ہے کہ اب مزید سرمایہ کاری بھارت آئے گی۔ ہمارے ملک میں امرا اپنا پیسہ بھی ملک کے بجائے باہر رکھنا پسند کرتے ہیں‘ یہاں تک کہ ہمارے حکمرانوں کی اولادیں بھی ملک سے باہر ہیں‘ تو ان کو کیسے اس ملک کا درد ہو گا؟ یہاں یہ لوگ صرف حکمرانی کے لیے آتے ہیں اور حکومت کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔ اسی لیے حکمرانی کرنے والے خوشحال اور عوام بدحال ہیں۔
عوام کو سہولت دینے کے بجائے ان کو میسر سہولتیں بھی واپس لی جا رہی ہے۔ صحت کارڈ بھی ایک ایسی سہولت ہے جس سے مریضوں کو بہت فائدہ ہوا۔ اب خبر یہ سامنے آئی ہے کہ انشورنش کمپنی اس کارڈ پر ادائیگی نہیں کرے گی۔ اس کارڈ کی وجہ سے دل کے مریضوں سمیت متعدد سنگین بیماریوں اور حاملہ خواتین کے آپریشنز مفت ہو جاتے تھے۔ اب اچانک ایسا کیا ہوا ہے کہ یہ کارڈ قابلِ قبول نہیں رہا اور انشورنس کمپنی بھی پیچھے ہٹ رہی ہے۔ کیا پنجاب کی نگران حکومت کو یہ سہولت بھی ٹھیک نہیں لگ رہی؟ نگران حکومت کا موقف ہے کہ کارڈ بند نہیں ہوا‘ نیا معاہدہ ہو رہا ہے۔ جب تک یہ معاملات طے نہیں ہوتے‘ مریض کہاں جائیں گے؟ میرے اپنے والد بیمار ہوئے تو میں ان کے آپریشن کے لیے تین ہسپتالوں سے رابطے میں تھی۔ دو نجی ہسپتال آپریشن کے لیے سات لاکھ روپے مانگ رہے تھے جبکہ سرکاری ہسپتال پمز کے ڈاکٹرز نے بتایا کہ سابقہ دورِ حکومت کے صحت کارڈ پر یہ آپریشن مفت میں ہو جائے گا لیکن آپ کو دو ماہ بعد کا وقت ملے گا کیونکہ ہسپتالوں پر مریضوں کا لوڈ بہت زیادہ ہے‘ اس لیے تاریخ کم از کم دو ماہ بعد ہی کی مل سکتی ہے۔ مجھے اس پر شدید حیرت ہوئی کہ ایک آپریشن جس کیلئے نجی ہسپتال سات لاکھ مانگ رہے ہیں‘ وہ صحت کارڈ کی وجہ سے ایک سرکاری ہسپتال میں مفت ہو جائے گا لیکن چونکہ سرکاری ہسپتالوں پر لوڈ بہت زیادہ ہے‘ وسائل کم ہیں تو تاریخ دور کی مل رہی تھی۔ مرض کی سنگینی کی وجہ سے ہم نے نجی ہسپتال کا رخ کیا وگرنہ پمز ہسپتال پر مجھے پورا بھروسہ ہے۔ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں مَیں پمز ہی میں جاتی ہوں۔ میرے والد کا آپریشن نجی ہسپتال میں ہوا‘ ڈاکٹرعادل اور ڈاکٹر فیصل نے ان کا بہت خیال رکھا۔ قارئین سے گزارش ہے کہ میرے والد حافظ محمد صدیق کی صحت کے لیے دعا کریں۔ اپنے لاڈلے داماد کے جانے کے بعد سے وہ بہت علیل ہو گئے ہیں۔
ہسپتالوں کی ایک الگ دنیا ہے۔ سرکاری ہسپتال میں مریض صحت کارڈ کے ختم ہونے پر افسوس کر رہے ہیں۔ غریب عوام دل کے آپریشن اور زچگی کے چارجز اب خود ادا کریں گے۔ اس کارڈ کی سہولت کو ختم کرنا غریب عوام کیساتھ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ نئے حکمران‘ جو اب ایک سال پرانے ہو چکے ہیں‘ بھلے اس کارڈ پر اپنا نام اور اپنے خانوادے کی تصویر لگوا لیں لیکن اس سہولت کو بند نہ کریں۔ اس کارڈ میں شوگر، سرطان، ہیپا ٹائٹس اور فالج کے علاج کی سہولت کو بھی شامل کر دیں۔ یہ بیماریاں اب وبا کی طرح پھیل رہی ہیں۔ غریب عوام علاج کی سکت نہیں رکھتے‘ وہ کیا کریں؟ بہت سے لوگ مہلک بیماریوں میں بھی پیراسٹامول سے کام چلاتے ہیں کیونکہ اس سے زیادہ وہ اپنے علاج پر خرچ نہیں سکتے۔ اس لیے ایسی سہولتیں ختم نہ کی جائیں۔ امرا اپنے خرچے کم کریں‘ سرکار ویسے ہی قرضے پر چل رہی ہے‘ اس کے خزانے پر اتنا بوجھ نہ ڈالیں۔
اس وقت نئی نسل شدید مایوسی کا شکار ہو رہی ہے۔ ان کے لیڈرز خود دو‘ دو لاکھ کے جوتے پہنتے ہیں اور عوام کو بیس ہزار والی نوکری نہیں مل رہی۔ شہرِ اقتدار میں ایک الگ ہی دنیا آباد ہے۔ امرا مارگلہ روڈ پر اپنے کتوں کے ساتھ واک کر رہے ہوتے ہیں۔ کچھ میل کے فاصلے پر مہر آبادی کی طرف جائیں تو ننگے بچے مٹی میں کھیلتے نظر آئیں گے۔ ایک ہی شہر میں اتنا طبقاتی تفاوت شاید ہی کسی کو نظر آتا ہو کیونکہ ہماری اشرافیہ اور حکمران شاید کچے علاقوں کا رخ ہی نہیں کرتے۔ ڈی چوک سے مارگلہ کے پہاڑ اور بلیو ایریا پر بڑی عمارتیں نظر آتی ہوں گی تو انہیں سب اچھا لگتا ہوگا‘ ان کے پیچھے چھپے عام عوام شاید حکومت کی نظر سے اوجھل ہیں‘ جن کے پاس پانی‘ بجلی‘ تعلیم‘ صحت کی سہولتیں اور سر چھپانے کی جگہ تک موجود نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں