آخر یہ کام کون کرے گا؟

عید الاضحی پر کام بہت بڑھ جاتا ہے۔ قربانی کے ساتھ ساتھ آلائشیں بھی سمیٹنا ہوتی ہیں۔ زیادہ تر لوگ قربانی اپنے گھر پر کرتے ہیں‘ سو خون‘ آنتیں اور دیگر غیر ضروری چیزوں کو تلف کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح کھالیں بھی فوری طور پر محفوظ نہ بنائی جائیں تو خراب ہو جاتی ہیں۔ کچھ سال قبل میں نے سوشل میڈیا پر اپنی گلی کی ایک تصویر اَپ لوڈ کی اور پوچھا: کیا آپ کو لگ رہا ہے کہ اس گلی میں قربانی ہوئی ہے؟ تصویر میں گلی بالکل صاف اور خشک تھی۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ شاید یہاں قربانی نہیں ہوئی یا لوگوں نے قربانی کہیں اور کی ہے‘ یہاں گھروں میں گوشت بن کر آیا ہے۔ میں نے ان کو بتایا کہ قربانی تو ہر گھر میں ہوئی ہے لیکن صفائی اس لیے ہے کہ لوگوں نے آلائشیں کھلے عام نہیں پھینکیں۔ خون سڑک پر نہیں بہایا، نکاسیٔ آب کا اچھا نظام موجود ہے۔ دوسرا سی ڈی اے کا سینی ٹیشن ڈپارٹمنٹ عید پر بھی کام کررہا ہوتا ہے‘ وہ کچرا گھروں سے لے جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ گلی‘ محلوں اور بازاروں کی صفائی بھی کررہاہوتا ہے۔
میں نے خود سینی ٹیشن ورکرز کو عید پر بھی کام کرتے دیکھا ہے اور ایسے تمام لوگ یقینا داد کے مستحق ہیں جو عید کے دن بھی کام کرکے شہر کو صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ کچھ عوام کی اپنی صفائی پسند ہونے کی عادت اور کچھ انتظامیہ کی محنت‘ یہ دونوں مل کر شہر کو صاف رکھ سکتے ہیں۔ اسلام آباد کے اکثر علاقے عید کے بعد صاف ہوجاتے ہیں لیکن مضافاتی علاقوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ انتظامیہ کو وہاں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اکثر علاقوں میں بلاناغہ کچرا جلایا جاتا ہے‘ بہت سے خالی پلاٹ اور خالی جگہیں کچرا کنڈی کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ جس طرح پوش علاقوں کو صاف رکھا جاتا ہے‘ اسی طرح کچی بستیوں اور سڑکوں کو بھی صاف رکھا جائے۔ اگر کسی ایک جگہ پر بھی کچرا جمع ہوجائے تو شدید بدبو اور تعفن تو پھیلتا ہی ہے‘ ساتھ بہت سی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ ملک کے دیگر شہروں میں اسلام آباد کی نسبت صفائی کا انتظام ٹھیک نہیں۔ کراچی لاہور خاص طور پر مؤثرانتظامات کے منتظر ہیں۔ آلائشیں سڑکوں پر پڑی ہوتی ہیں‘ خون ہر طرف بکھرا ہوتا ہے۔ اوپر سے نکاسیٔ آب کا نظام بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ جن کے ذمے کچرے کو ٹھکانے لگانا ہوتا ہے‘ وہ موقع پر سے غائب ہوتے ہیں۔ شہری بھی ہر اس جگہ پر کچرا پھینک دیتے ہیں جو خالی ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے! بڑے شہروں میں بھی ویسے ہی انتظامات ہونے چاہئیں جیسے وفاقی دارالحکومت میں ہوتے ہیں۔ انتظامیہ جگہ جگہ بڑے کوڑے کے ڈرم رکھے اور شہریوں کو تلقین کرے کہ وہ کچرا ان کے اندر پھینک کر جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کانچ؍ شیشے کی چیزوں کے لیے الگ‘ کھانے پینے والی اشیا کے لیے الگ اور پلاسٹک کے کچرے کے لیے الگ کچرا دان ہونے چاہئیں۔ اگر بڑے شہروں میں ورکرز خود گھروں سے کچرا لے کر جائیں اور اس کچرے کو مقررہ جگہ پر ہی تلف کیا جائے تو ماحول بہت حد تک صاف ہوسکتا ہے۔ مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگ جاتے ہیں جس سے پورے شہر کی فضا میں ناگوار بدبو پھیل جاتی ہے اور بیماریاں الگ سے پھیلتی ہیں۔ ایسے میں ماحول میں سانس لینا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔
بہت سے لوگ نالوں میں کچرا پھینک دیتے ہیں۔ بہت سی بستیاں‘ جو غیر قانونی طور پر بن گئی ہیں‘ انہوں نے برساتی اور سیوریج نالوں کی جگہوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ماضی قریب میں اسلام آباد میں یہ ہوچکا ہے کہ مون سون میں سیلابی بارشوں کا پانی جب اپنے پرانے روٹ پر واپس آیا تو وہاں گھر بن چکے تھے اور پھر پانی گھروں میں داخل ہو گیا۔ اس سے بہت نقصان ہوا۔ بعد میں پتا چلا کہ برساتی پانی کے روٹ پر پلاٹنگ کی گئی تھی اور نالوں پر ناجائز تجاوزات قائم کی گئی تھیں۔سیکٹر ای الیون میں بارشوں سے ہونے والی تباہی زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ اب پھر مون سون سر پر ہے۔ کیا ملک بھر میں شہری انتظامیہ مون سون بارشوں کے لیے تیار ہے ؟ اہم سوال یہ ہے کہ کیا تمام انتظامات کرلیے گئے ہیں کہ خود کو سیلاب سے کیسے بچانا ہے اور بارش کی وجہ سے اربن فلڈنگ سے خود کو کیسے محفوظ کرنا ہے؟ مجھے کبھی نہیں بھولے گا کہ سمندری طوفان بائپرجوائے کراچی اور ساحلی علاقوں پر منڈلا رہا تھا اور صوبائی حکومت بلدیاتی الیکشن میں کرسی ہتھیانے میں مصروف تھی۔ سیلاب‘ بارشیں اور طوفان پرانے وقتوں میں نافرمان قوموں کو عذاب دینے کے لیے بھی اترتے رہے ہیں اس لیے ان سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ اب شاید انسان دنیاوی چیزوں میں اتنے مگن ہو گئے ہیں کہ وہ خدا کی پکڑ کے بارے میں سوچ ہی نہیں رہے۔
مون سون کی بارشیں شروع ہوچکی ہیں‘ کیا ہمارے ندی نالے صاف ہیں؟ میرا یہ سوال تمام صوبائی حکومتوں اور ضلعی و شہری انتظامیہ سے ہے۔ کیا بارش اور سیلاب کے ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرلیے گئے ہیں؟ جن علاقوں میں سیلاب یا تیز بارشوں کا امکان ہے‘ کیا وہ خالی کرا لیے گئے ہیں؟ اس وقت ندی‘ نالے کچرے اور آلائشوں سے بھرے پڑے ہیں‘ ان کی صفائی کب ہو گی؟ اگر سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ سے فرصت مل جائے تو اس طرف بھی کچھ دھیان دیاجائے۔ ہم قدرتی آفات کو روک نہیں سکتے لیکن بروقت اقدامات اور انتظامات کرکے ان سے ہونے والے نقصانات کو کم ضرور کرسکتے ہیں۔ ایسے نشیبی مقامات‘ جہاں طغیانی کاخدشہ ہے‘ وہاں فوری طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مون سون کی بارشوں سے پہلے ہی ندی‘ نالوں اور گٹروں کی صفائی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح برقی تاروں کی مرمت اور بڑے بل بورڈز کو ہٹانا بھی لازمی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام ایمرجنسی سروسز متحرک رہیں اور شہریوں کو کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں فوری مدد فراہم کریں۔ آج کل لاہور میں موسلادھار بارش ہورہی ہے‘ مون سون کے پہلے سپیل کی پہلی بارش سے ہی پورا شہر ڈوب گیا۔ سات سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے۔ شہریوں کو یہ وارننگ جاری کی گئی ہے کہ اربن فلڈنگ کا خطرہ ہے‘ بنا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں۔ حکومتیں اور سرکاری محکمے وارننگ جاری کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں مگر انہیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ نجی شعبے میں کام کرنے والوں کو چھٹی نہیں ملتی۔ ان کو باہر نکلنا ہی پڑتا ہے‘ اگر وہ کام نہیں کریں گے تو کمائیں گے کہاں سے‘ کھائیں گے کہاں سے؟ اس لیے عوام موسم کی سختی کے باوجود گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں‘ جب شدید طوفان کی پیش گوئی ہو‘ عام چھٹی کا اعلان کر دینا چاہیے۔
اب پھر شدید بارشیں ہو رہی ہیں‘ اللہ کرے کہ اب بارشوں سے مزید کوئی نقصان نہ ہو۔ گزشتہ برس کلائوڈ برسٹ ہوا‘ گلیشیرز پگھلے یا شدید بارشیں ہوئیں‘ جو بھی ہوا‘ ان کے سبب ایسا سیلاب آیا کہ ابھی تک متاثرین کی آبادی کاری نہیں ہوسکی۔ اس لیے ہم مزید کسی نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ملک بھر میں مون سون کا آغاز ہو چکا ہے اور اب ستمبر کے وسط تک بارشوں کی توقع ہے۔ محکمہ موسمیات نے اس سال پنجاب، کے پی اور جی بی میں معمول سے قدرے زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کی ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان میں کم بارشیں ہوں گی مگر وہ بھی خطرے سے باہر نہیں ہیں۔ بارشوں سے جب ڈیم بھر جاتے ہیں تو اضافی پانی خارج کر دیا جاتا ہے جو نشیبی علاقوں کی طرف جاتا ہے جس سے کچھ علاقوں میں سیلاب بھی آ جاتا ہے‘ اس لیے پانی کے نئے ذخائر کی تعمیر بھی بہت ضروری ہے۔ ان بارشوں میں اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف رکھیں۔ کچرا ندی‘ نالوں میں مت پھینکیں۔ بارش میں برقی آلات اور کھمبوں سے دور رہیں۔ جس وقت پانی میں طغیانی ہو‘ اس وقت تیراکی نہ کریں‘ نہ ہی واٹر سپورٹس کریں۔ اگر پانی زیریں منزل میں داخل ہوجائے تو بالائی منزل پر چلے جائیں۔ فرنیچر یا چیزوں سے زیادہ قیمتی انسانی جان ہے‘ سب سے پہلے اسے محفوظ بنائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں