بجلی کے بل اور عوام

آج کل جب لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو پہلا سوال جو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں‘ وہ یہی ہے کہ تمہارا بجلی کا بل کتنا آیا۔ بجلی کے بلوں نے لوگوں کو شدید اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔ عوام سخت پریشانی کا شکار ہیں کہ وہ بل دیں گے کیسے کیونکہ ان کے ذرائع آمدن نہیں بڑھے‘ ان کی آمدنی تو اتنی ہی ہے بلکہ کم ہوئی ہے لیکن ہر چیز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ الٹا بیروزگاری‘ مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام نے ان کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ہروقت یہ تلوار سر پر لٹکتی رہتی ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے ،بس کسی طرح آج کا دن خیر خیریت سے گزرجائے۔ ڈالر‘ پٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے ہر چیز کو مہنگا کردیا ہے۔ ملک بہت عرصے سے ایک ایسے نظام پر چل رہا ہے کہ جس میں لگتا ہے حکومت نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ عوام درد سے بلک رہے ہیں لیکن ان کی کوئی شنوائی ہی نہیں۔ روٹی مہنگی، ادویات مہنگی ، علاج مہنگا، تعلیم مہنگی ، بل استطاعت سے باہر۔ بے شمار ایسی اشیائے ضروریہ ہیں جو اب عوام کی دسترس سے نکل گئی ہیں جن میں دودھ‘ گوشت اور پھل وغیرہ شامل ہیں۔ لوگ فاقے کرکے اپنے گھروں کے کرائے بھر رہے ہیں، رہی سہی کسر بجلی کے بلوں نے پوری کردی ہے۔ عوام یہ سوال کررہے کہ اتنا زیادہ بل کیوں ؟ اب چونکہ حکومت سے سوال کرنے پر بھی پکڑ دھکڑ شروع ہو جاتی ہے‘ اسی لیے لوگوں نے اپنے چھوٹے بچے میدان اتار دیے ہیں۔ بچے پلے کارڈز پکڑ کر احتجاج کررہے ہیں۔ وہ بتا رہے ہیں کہ ان کے والدین گھر کی اشیا بیچنے پر مجبور ہیں۔ کوئی بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے موٹرسائیکل بیچ رہا ہے تو کوئی سونے کی بالیاں بیچ کر بل دے رہا ہے۔ بچے اس دور کے بہت سیانے ہو گئے ہیں‘ وہ بھی معاملات کی نزاکت کو سمجھتے ہیں‘ اس لیے ان مسائل پر بہت آواز اٹھا رہے ہیں۔
چند شہروں سے یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ غربت کے ہاتھوں مجبور لوگوں نے مہنگے بجلی کے بلوں کی وجہ سے خودکشی کرلی۔ یہ سب دیکھ کر اور سن کر مجھے مزید دکھ ہوا۔ ہمارے ملک کو کس کی نظر کھا گئی ہے؟ ہر طرف بس مسائل ہی مسائل نظر آ رہے ہیں‘ کہیں سے کوئی خوشی کی خبر نہیں آتی ۔ جو بھی خبر آتی ہے‘ اوسان خطا کرنے کیلئے آتی ہے۔ بجلی کے حوالے سے صرف بل زیادہ نہیں آرہے اور بھی پاور سیکٹر کے بہت سے مسائل ہیں جن میں لوڈشیڈنگ، بجلی کی فراہمی میں تعطل، بجلی چوری، لائن لاسز، ٹرانسفارمرز اور تاروں کا جل جانا وغیرہ سرفہرست ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے بارش میں لوگوں کو بجلی کے کھمبوں سے کرنٹ لگ جاتا ہے۔ ہر سال گردشی قرضوں کا پہاڑ بھی بڑھتا جاتا ہے اور اب عوام اپنے بلوں میں اس گردشی قرضے کا سرچارج بھی ادا کر رہے ہیں۔ امرا کے بلوں کی ادائیگیاں بھی ہوجاتی ہیں مگر عوام کو کوئی رعایت نہیں ملتی۔
آئی ایم ایف کے قرضے حکمران اپنی عیاشیوں کے لیے لیتے ہیں مگر سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیتے ہیں۔ اس بار بل جو اتنے زیادہ آئے ہیں‘ اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ ان میں فی یونٹ قیمت میں اضافہ تو ہوا ہی ہے لیکن بہت سارے ٹیکسز بھی بجلی کے بلوں میں شامل کیے گئے ہیں، جن میں بجلی پر ڈیوٹی، ٹی وی فیس، جنرل سیلز ٹیکس،انکم ٹیکس، ایف سی چارج، ٹیرف، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز، کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ چارجرز، فنانشل کاسٹ چارجرز، میٹر رینٹ، ایڈجسٹمنٹ چارجز پر ڈیوٹی، ایکسٹرا چارجز اور متفرق ٹیکسز شامل ہیں۔ جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں ان کو بھی انکم ٹیکس بلوں میں لگ کر آجاتا ہے کیونکہ اکثر لوگ کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں یا میٹر ان کے نام پر نہیں ہوتا۔عوام بجلی کی انتہائی زیادہ قیمت کے ساتھ ساتھ اتنے سارے ٹیکسز ادا کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ بہت سے لوگ اب یہ سوال کررہے ہیں کہ بجلی کے بل پر انکم ٹیکس اور ٹی وی ٹیکس مضحکہ خیز ہیں۔ جب اور کچھ نہیں ملا تو فاضل ٹیکس اور مزید ٹیکس کے نام پر بھیانک مذاق بھی بل میں شامل کردیا گیا۔ لوگ یہ سب دیکھ کر توبہ توبہ کررہے ہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جو حالات جا رہے ہیں‘ ایسا لگتا ہے کہ جلد ہی ہمارے آبائو اجداد کی استعمال کی گئی بجلی کا ٹیکس بھی ہم سے ہی لیں گے۔ایک بجلی کے بل میں 12 سے 14 ٹیکسز‘ غریب انسان جائے تو کہاں جائے؟ لوگ اس وقت بل نہیں ادا کررہے‘ سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اپنے بل جلا دیے ہیں۔ ان کی رہی سہی جمع پونجی ختم ہوچکی ہے‘ اب جب کچھ بھی بیچنے کو نہیں ہے اور پیسے بھی نہیں ہیں تو وہ بل کیسے ادا کریں گے؟ ایسے میں خودکشی کی خبریں آئیں تو دل دہل گیا کہ ملک میں غربت کتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں، عوام کا مگر کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ لوگ مشکل سے مشکل حالات کا مقابلہ بھی اپنے دم پر کرتے رہتے ہیں مگر اب ان کی ہمت بالکل جواب دے گئی ہے۔
اس وقت بہت سے لوگ یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ جس طرح عوام سے کبھی کوئی رعایت نہیں برتی جاتی‘ ان کی سبسڈیز بھی ختم کر دی جاتی ہیں بلکہ ہر شے پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس بھی وصول کیا جاتا ہے، اس طرح ملک کی اشرافیہ سے بھی تمام مراعات واپس لی جائیں تاکہ انہیں علم ہو سکے کہ عوام کو کس قسم کے حالات کا سامنا ہے۔ یہاں اشرافیہ مفت بجلی اور پٹرول عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر انجوائے کررہی ہے۔ اتنی مراعات دینے کے باوجود ان سے کچھ نہیں ہورہا اور ملک روز بروز تنزلی کا شکار ہے۔ عوام یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم بلز اور ٹیکس دے رہے ہیں تو اس طبقے کو بھی دینا ہوگا جو ایک مدت سے مراعات کے مزے لوٹ رہا ہے۔ اگر ملک پر مشکل وقت ہے تو صرف عوام کیوں قربانی دیں؟ اشرافیہ کو بھی اپنی عیاشیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ ان کے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے سرکاری فیول پر چلنی والی گاڑی میں اے سی آن ہوتا ہے۔ یہ گھر‘ دفتر میں موجود ہوں یا نہ ہوں‘ اے سی چل رہے ہوتے ہیں۔ گھروں میں سینکڑوں بلب روشن ہوتے ہیں۔ اگلے روز سینیٹر مشتاق احمد نے قوم کو آگاہ کیا کہ سرکاری ملازمین نے ایک سال میں 34 کروڑ 46 لاکھ یونٹس بجلی مفت استعمال کی‘پی ڈی ایم حکومت کے سولہ ماہ میں 500 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی۔ سینیٹر مشتاق حال ہی میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کرکے آئے ہیں اور ان کی رہائی کی کوشش کررہے ہیں۔ ایوانِ بالا میں وہ پاکستانی عوام کی مؤثر آواز ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پی ڈی ایم دور میں بجلی کی تقسیم سے وابستہ اداروں نے ایک سال کے دوران 122.59ارب کا نقصان کیا۔ پہلے سکیل سے چوتھے سکیل تک سو یونٹس اور گریڈ اکیس اور بائیس کے ملازمین کو ماہانہ 1300 یونٹس تک بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مفت بجلی دینے کا سلسلہ فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔
بجلی کے بھاری بلوں کے بعد سوشل میڈیا پر اس بحث کا آغاز ہوگیا ہے کہ پاکستان میں مراعات یافتہ طبقہ پاکستانی ٹیکس پیئرز پر بوجھ ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ غریب عوام بلز بھی دیں‘ ٹیکس بھی دیں اور خود پر مسلط اشرافیہ کو بھی پالیں۔ ایسے لوگ قومی خزانے کے لیے سفید ہاتھی کی مانند ہیں۔ پاکستان کے امرا اپنے مہنگے لباس‘ مہنگی سواریوں‘ قیمتی گھروں اور مہنگے گالف کلبوں اور شاپنگ مالز میں مصروف ہیں جبکہ دوسری طرف عوام یہ سوچ رہے ہیں کھانا کھائیں‘ بل دیں یا خودکشی کرلیں۔ سفید پوش طبقہ بھی اب غربت کی لکیر سے نیچے جا چکا ہے۔ ان کو اپنی عزتِ نفس عزیز ہے‘ اسی لیے وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ نگران وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ میرا اے سی بند کردو۔ یہ اس بحران کا حل نہیں ہے۔ جب تک اس ملک سے کرپشن اور اقربا پروری ختم نہیں ہوگی‘ کڑا احتساب نہیں ہو گا، مسائل ختم نہیں ہو سکتے۔ عوام کے اوپر اتنے ظلم نہ کریں کہ ان کے ہاتھ بددعائوں کے لیے اٹھنے لگیں۔ ان کو ریلیف دینے کی کچھ تو صورت نکالیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں