سارہ شریف کیس vs ارشد شریف کیس

جب بھی کوئی شخص قتل ہوتا ہے تو اس کے قتل کو بجا طور پر پوری انسانیت کا قتل قرار دیا جاتا ہے۔ کسی بھی انسان کے پاس سب سے قیمتی چیز اس کی زندگی ہی ہوتی ہے اور کسی دوسرے انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی انسان کو قتل کر کے اس سے جینے کا حق چھین لے۔ مگر تاریخِ انسانی کی ابتدا‘ ہابیل قابیل کے زمانے سے یہ قبیح و سنگین جرم معاشرے میں چلا آ رہا ہے۔ قتل‘ دشمنی‘ فسادات اور جنگیں آج تک نہیں رک سکیں۔ انسان ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں‘ ان کے خلاف سازشیں کرتے ہیں‘ ان سے مخاصمت پر اتر آتے ہیں اور پھر بات اپنے مدمقابل کو قتل کرنے پر آ جاتی ہے۔ لازم نہیں کہ سامنے والا جانی دشمن ہی ہو‘ اکثر کسی مظلوم کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔ خونِ ناحق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چھپ نہیں سکتا۔ ایسا ہی ایک دالخراش واقعہ گزشتہ دنوں برطانیہ میں پیش آیا جب ایک دس سالہ سارہ شریف نامی بچی اپنے گھر میں مردہ پائی گئی۔
سارہ شریف کے والد پاکستانی اور والدہ پولش ہیں۔ ان کی شادی 2009ء میں ہوئی تھی اور ان کے دو بچے تھے، جن میں سارہ چھوٹی یعنی دوسرے نمبر پر تھی۔ یہ شادی زیادہ عرصہ نہیں چل نہیں سکی اور اختتام پذیر ہو گئی۔ دونوں بچوں کو باپ عرفان شریف کی تحویل میں دے دیا گیا۔ 2019ء سے بچے باپ کی تحویل میں تھے۔ عرفان شریف نے دوبارہ شادی کر لی اور اس بیوی سے ان کے مزید بچے پیدا ہوئے۔شاید گھر کا ماحول وہی روایتی طرز کا ہو گا اور سگے‘ سوتیلے کی بحث رہتی ہو گی‘ بے گناہ سارہ جس کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ان کے محلہ دار کہتے ہیں کہ وہ بچی بہت خاموش طبع تھی اور اس کو سکول سے بھی اٹھا لیا گیا تھا۔ وہ گھر پر ہی ہوتی تھی اور اپنے چھوٹے بہن‘ بھائیوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ اکثر اس کو چوٹ اور زخموں کے ساتھ بھی دیکھا گیا۔ اس کو سکول سے اٹھا کر گھریلو کام کاج پر لگا لیا گیا تھا۔ اتنا چھوٹا بچہ اپنے آپ پر ہونے والے مظالم کو برداشت کرتا رہتا ہے اور آواز اٹھانے کی سکت تک نہیں رکھتا۔ ایک دن مار پیٹ کی وجہ سے سارہ دم توڑ گئی، اس پر اس کے والد عرفان شریف، سوتیلی ماں اور چچا دیگر پانچ بچوں کے ہمراہ فوری طور پر برطانیہ سے پاکستان چلے آئے۔ اگلے روز پاکستان سے برطانیہ کے ایمرجنسی نمبر پر کال کرکے عرفان شریف نے پولیس کو سارہ بارے اطلاع دی جس کے بعد پولیس اہلکار عرفان شریف کے گھر گئے جہاں انہیں سارہ کی لاش ملی۔ جب اس بچی کی حقیقی والدہ اولگا نے اپنی بیٹی کو سردخانے میں دیکھا تو جسم پر تشدد اور زخموں کے جابجا نشانات تھے۔ سارہ کا چہرہ اور پورا جسم نیلے نشانات سے بھرا ہوا تھا۔ دس سالہ بچی پر گھریلو تشدد صاف نظر آ رہا تھا۔ پولیس نے موت کی وجہ کا پتا لگانے کے لیے لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا جبکہ اس خبر سے پورے شہر میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ان کی کمیونٹی کے تمام لوگوں میں خوف پھیل گیا۔ اس کے بعد سب لوگ اکٹھے ہوئے اور سارہ کے گھر کے باہر پھولوں اور کھلونوں کا ڈھیر لگا دیا جبکہ وہ سارہ کے لیے انصاف کا مطالبہ بھی کرنے لگے۔
10 اگست کو پولیس کو سارہ شریف سے متعلق فون پر اطلاع ملی تھی جبکہ9 اگست کو عرفان اپنی بیوی‘ بھائی اور پانچ بچوں سمیت برطانیہ سے پاکستان روانہ ہو گیا تھا۔ برطانیہ نے فوری طور پر پاکستانی حکام سے بات کی اور ملزمان کی تلاش شروع کر دی گئی۔ عرفان شریف‘ ان کا بھائی اور بیوی پہلے مفرور تھے مگر پھر پولیس نے ان کے بچوں کو بازیاب کروا کے سرکاری تحویل میں لے لیا۔ اس کے بعد سارہ کے والد، سوتیلی والدہ اور چچا کی تلاش شروع ہو گئی۔ 13 ستمبر کو یہ تینوں افراد برطانیہ روانہ ہو گئے جہاں ایئر پورٹ پر پہنچتے ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا اور اب ان پر قتل کا مقدمہ چل رہا ہے۔ یعنی قتل کے بعد ملک سے فرار ہونے والے مبینہ مجرم ایک ماہ کے عرصے میں ہی گرفتار ہوگئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس لیے کہ برطانیہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے وہ اپنے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کو لے کر بہت حساس ہے۔ سارہ کے والد پاکستانی اور والدہ پولش نژاد ہیں مگر چونکہ وہ خود برطانیہ میں پیدا ہوئی تھی‘ اس لیے حکومت برطانیہ نے اس کو انصاف دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔
دوسری طرف ارشد شریف شہید کا کیس ہے جس میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ارشد شریف پاکستان کے معروف اینکر اور تحقیقاتی صحافی تھے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہر دل عزیز۔ پاکستان کا بیٹا ارشد شریف گزشتہ برس اس وقت ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا جب اس پر سولہ کے قریب جھوٹے مقدمے بنا دیے گئے۔ وہ اپنی دھرتی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا مگر اسے مجبور کر دیا گیا۔ ارشد موت سے نہیں ڈرتا تھا لیکن اس سلوک سے ضرور خائف تھا جو اس وقت کے اسیران کے ساتھ ہو رہا تھا۔ وہ متحدہ عرب امارات گئے لیکن انہیں وہاں سے بھی نکلوا دیا گیا۔ ارشد کے پاس اس وقت کسی ملک کا ویزا نہیں تھا‘ اس لیے انہیں کینیا جیسے غیر محفوظ ملک میں جانا پڑا کیونکہ وہاں پر پاکستانیوں کو آرائیول پر ویزا مل جاتا ہے مگر اب تمام حالات کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ایک سازش کے تحت ان کو مقتل گاہ میں لے جایا گیا تھا۔ جو کام پاکستان میں نہیں ہو سکتا تھا‘ وہ غیر ملک میں کروایا گیا۔
اب عالم یہ ہے کہ جس کسی سے بھی انصاف کے لیے کہو وہ یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتا ہے کہ قتل تو کینیا میں ہوا ہے‘ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ سارہ شریف کا قتل بھی برطانیہ میں ہوا تھا اور قاتل پاکستان آ گئے تھے مگر برطانیہ ان کو پاکستان میں گرفتار کرانے اور واپس لے جا کر کیس چلانے میں کامیاب ہو گیا تاکہ ان کو سزا دی جا سکے۔ ان کے کیس کی کارروائی ایک ماہ میں ہی شروع ہوگئی ہے اور سارہ کے مبینہ قاتل اس وقت جیل میں ہیں جبکہ ارشد شریف کا قتل گزشتہ برس اکتوبر میں ہوا تھا اور ان کا کوئی قاتل نہ تو پاکستان اور نہ ہی کینیا میں گرفتار ہوا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ پی ڈی ایم کی حکومت کی اس کیس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے ارشد شریف اور ان کے اہلِ خانہ کو انصاف دلانے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ خطوط لکھنے کے باوجود نہ صدرِ پاکستان اور نہ ہی کینیا کے صدر نے مجھے کوئی جواب دیا۔ کیا ایک ایٹمی ملک کینیا سے ان لوگوں کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کر سکتا جو پاکستان کے نامور اینکر پرسن کے قتل میں ملوث ہیں؟ مجھے اس خبر سے بہت رنج پہنچا کہ ان پانچ پولیس والوں کو نوکری پر ترقی کے ساتھ بحال کر دیا گیا ہے جو ارشد کے قتل میں ملوث ہیں۔ ان پر کوئی انکوائری نہیں ہوئی‘ ان کو کوئی سزا نہیں ملی۔ پاکستان اپنے شہری کے انصاف کے لیے آواز کیوں نہیں بلند کرتا؟ حکومت اب تک کیوں چپ ہے؟ آخر ایسی کیا مجبوری ہے؟ کینیا کوئی سپرپاور تو ہے نہیں یا کوئی عالمی مالیاتی ادارہ‘ جس کے خلاف کوئی بیان دینے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے۔ ارشد شریف کوئی عام انسان نہیں تھا، وہ اس ملک کا معروف صحافی اور نامور اینکر تھا۔ اگر برطانیہ اپنی دس سالہ بچی کے قاتلوں کو پاکستان سے گرفتار کروا سکتا ہے تو پاکستان کینیا میں اپنے ایک معزز شہری‘ جو ایک معروف صحافی تھا‘ کے قاتلوں کو گرفتار کیوں نہیں کرا سکتا؟ پاکستان کو یہ مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں لے کر جانا چاہیے تھا مگر افسوس! ایسا کچھ نہیں ہوا۔ آج بھی میں پاکستان اور کینیا‘ دونوں جگہوں پر انصاف کی منتظر ہوں۔ اب کینیا میں بھی میں نے وکیل اور قانونی معاونت کا اہتمام کر لیا ہے۔ جو کام حکومت کو کرنا چاہیے تھا‘ وہ مجھ بیوہ کو خود کرنا پڑ رہا ہے۔ قانونی لڑائی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ مجھے نظام انصاف نے بہت مایوس کیا ہے۔ کاش کہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ہو، ان کو فوری طور پر انصاف ملے۔ گو کہ دور دور تک اس کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ ارشد شریف کے پاس کسی اور ملک میں جائیداد، اثاثے اور شہریت نہیں تھی۔ وہ صرف پاکستان کی آواز تھا۔ کیا اسے انصاف دلانے کے لیے پاکستان اس کی آواز بنے گا؟ اگر ارشد کو انصاف نہ ملا تو یہ سلسلہ یہاں رکے گا نہیں اور قاتل صاف بچ کر نکل جائیں گے کیونکہ پہلے بھی کسی مقتول کو انصاف نہیں ملا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں