ارشد شریف‘ ہم اور یہ ایک سال

ارشد شریف کا قتل ہم سب کو توڑ گیا۔ وہ نہ صرف ایک اچھے شوہر تھے بلکہ ایک سعادت مند بیٹے، ایک معاون کولیگ، ایک شفیق باپ اور ایک شاندار صحافی بھی تھے۔ ارشد بھی عام انسانوں کی طرح بہت سے رشتوں کی لڑی میں پروئے ہوئے تھے اور ہر روپ میں وہ منفرد تھے۔ ان کی دھیمی مسکراہٹ، ان کی وضع داری اور ان کی فراخ دلی مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ پھول اور پرفیوم کا تحفہ دینا ان کو سب سے زیادہ پسند تھا۔ ایسے افراد‘ جو مالی طور پر مستحکم نہ تھے، ارشد خاموشی سے ان کی مالی مدد کیا کرتے تھے۔ اگر کبھی وہ کسی کو کچھ قرض دیتے تو کبھی اس سے واپسی کا تقاضا نہیں کرتے تھے۔ عاجزی اور انکساری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ بہت درویش صفت انسان تھے۔
کل ملا کر اپنی ذات پر ارشد کاخرچہ صرف کتابیں خریدنا اور دوستوں کو کھانے کھلانا ہوتا تھا۔ کبھی دوستوں کی دعوتیں گھر پر ہوتیں اور کبھی باہر ریستوران میں۔ مجھے بھی وہ ہدایت دیتے کہ مہمانوں کو تحفہ بھی دینا ہے۔ ہر کسی کی سالگرہ کو خصوصی طور پر یاد رکھتے اور مجھے تاکید کرتے کہ تحفہ لازمی بھیج دوں۔ ہم دونوں سماجی تقریبات میں کم ہی شرکت کرتے تھے لیکن ان کی یہ کوشش ہوتی کہ تحفہ ضرور ارسال کیا جائے۔ ارشد کی دریا دلی اکثر مجھے حیران کر دیتی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنے سے پہلے دوسروں کا سوچتے تھے۔ ایسے افراد معاشرے میں کم ہی ہوتے ہیں جو اپنے سے پہلے دوسروں کا سوچیں۔ بطور شوہر انہوں نے میرا بہت خیال رکھا اور دنیا کی ہر آسائش مجھے فراہم کی۔ ہماری کوئی اولاد نہیں تھی لیکن انہوں نے مجھے کبھی اس بات کا طعنہ نہیں دیا۔ وہ ہمیشہ میری دلجوئی کرتے اور کہتے کہ اللہ نے تمہیں کسی بڑے مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ وہ سب سے بہت شفقت سے پیش آتے اور اسی لیے ہر محفل کی جان سمجھے جاتے۔
میرے میکے والوں سے بھی ان کا سلوک بہت اچھا تھا اور میرے والدین کی وہ بہت عزت کیا کرتے تھے بلکہ حقیقی معنوں میں انہوں نے داماد کے بجائے بیٹا بن کر دکھایا۔ پورے خاندان میں سب ان کو بہت پسند کرتے تھے۔ دوسروں کا احساس کرنے والے‘ وہ ایسے ہی تھے: درویش منش‘ اپنی فطرت میں آزاد۔ ارشد سے کوئی بھی بات زبردستی سے نہیں منوائی جاسکتی تھی۔ وہ اپنی دھن کے پکے تھے۔ جس بات پر ڈٹ جاتے‘ کوئی بھی ان کو اس سے نہیں ہلا سکتا تھا۔ جتنی ان کی طبیعت میں نرمی تھی‘ اتنا ہی جلال بھی تھا مگر یہ جلال عام لوگوں کے لیے نہیں تھا۔ وہ کرپشن سے سخت نفرت کرتے تھے۔ ان کی بس یہ آرزو تھی کہ یہ ملک ترقی کرے اور اس کے تمام عوام کی زندگی میں آسودگی آئے، یہاں ایسا نہ ہو کہ چند خاندان یا اشرافیہ کی نسلیں ہی ساری سہولتوں سے لطف اندوز ہوتی رہیں، عوام کو بھی اپنی زندگی میں راحت ملنی چاہیے۔ بس اسی وجہ سے ان کی آواز کو خاموش کرا دیا گیا۔
ارشد کا قتل ہماری زندگیوں کو مکمل طور پر تباہ کرگیا۔ میرے سر سے سائبان چلا گیا۔ اس سے قبل میں نے زندگی میں کبھی اتنی مشکلات نہیں دیکھی تھیں۔ ارشد کے جانے کے بعد مصائب کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا مگر سب سے بڑا دکھ ارشد سے جدائی کا ہے جس پر صبر نہیں آ تا اور اب تک نہیں آ سکا۔ ہر روز وہ یاد آتے ہیں اور دل کرتا ہے کہ بس کسی بھی طرح وہ واپس آجائیں۔ جب بھی کسی گاڑی کا ہارن بجتا ہے تو مجھے لگتا ہے وہ واپس آگئے ہیں۔ ان کے بعد گھر میں بھی قبرستان کی سی خاموشی ہے۔ اندھیرا ہے‘ مایوسی ہے‘ مجھے مستقبل میں بھی کچھ بہتر ہوتا نظر نہیں آتا۔ دوسری جانب مجھے اس ملک کے نظام انصاف نے مکمل مایوس کیا ہے۔ ہمیں تو اپنا کیس لڑنے کے لیے وکیل تک نہیں مل رہے تھے۔ مجھے عمران بھائی اور میاں علی اشفاق بھائی کے توسط سے سعد بٹر کی سپریم کورٹ میں نمائندگی مل گی لیکن میری ساس‘ ارشد کی والدہ رفعت آرا کا کیس لینے کو کوئی تیار نہیں تھا۔ میں نے سوشل میڈیا پر اپیل کی تو جسٹس (ر) شوکت صدیقی نے اس کیس میں ان کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب وکلا مل گئے تو کیس کے سنوائی میں تاخیر ہونے لگی۔ تین ماہ ہوگئے ہیں مگر اس کیس کی تاریخ ہی نہیں آ رہی۔
انصاف کابروقت نہ ہونا انسان کو اندر سے توڑ جاتا ہے۔ ہم بھی اب ٹوٹ گئے ہیں مگر پھر بھی انصاف کے لیے اپنے ملک کے اداروں اور انصاف کے ایوانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اب ارشد نے تو واپس نہیں آنا مگر کم از کم ہمیں انصاف ہی مل جائے۔ میں نے ہمیشہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے آواز بلند کی ہے اور اب بھی کررہی ہوں مگر حالت یہ ہے کہ مجھے خود بھی انصاف نہیں مل رہا۔
مجھے سب نے مشورہ دیا کہ یہ ملک چھوڑ دو لیکن میں نے سختی سے منع کردیا کیونکہ میرا دنیا میں بس یہی ایک ملک ہے، نہ میرے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت ہے، اور نہ ہی ارشد شریف کے پاس تھی۔ ہمارا جینا مرنا‘ سب کچھ یہیں ہے۔ مجھے اس ملک سے بھی انصاف چاہیے اور کینیا سے بھی انصاف چاہیے۔ اکیلے انصاف کی جنگ لڑنا آسان کام نہ تھا مگر جس کی امید خدا پر ہو‘ اسے لڑنے کا حوصلہ مل جاتا ہے۔ پانچ ماہ کی محنت کے بعد میں کینیا میں بھی پٹیشن فائل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہوں۔
یہ سفر بہت کٹھن تھا۔ میں روز روتی رہتی تھی اور ساتھ ساتھ روٹین کا کام بھی کرتی رہتی تھی۔کالم لکھتی، آرٹیکل لکھتی، کیونکہ اب یہی میرا ذریعہ معاش ہے۔ ارشد کے ہوتے ہوئے تو کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوئی تھی لیکن اب ارشد کی کمی ہی چین نہیں لینے دیتی۔ اگر میرے بس میں ہو تو میں یہ سب چھوڑ چھاڑ کر‘ دور کسی پہاڑ میں بسیرا کرلوں، کسی سے ملوں نہ ہی کسی بات کروں۔ باقی کی زندگی گمنامی میں‘ چپ کرکے بسر کردوں مگر ارشد کے لیے انصاف بھی تو لینا ہے۔ اس کی آواز بننا ہے۔ اس کی آواز اس ملک کے عوام ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین اور عالمی صحافتی ادارے اب میری آواز بن گئے ہیں۔ جب ارشد کے دوست بھی اس کا اور ہمارا ساتھ چھوڑ گئے تو ہمارے ساتھ پاکستان کے عوام کھڑے ہوگئے۔ ہم ان کے ممنون بھی ہیں اور ان کی محبتوں پر شکر گزار بھی ہیں۔
ایک سال ہو گیا ہے مگر آج بھی ارشد کی قبر پر پھول تازہ ہیں۔ لوگ اسلام آباد آئیں تو ارشد سے ملنے قبرستان ضرور جاتے ہیں، جو بھی اس قبرستان جاتا ہے‘ ارشد کی قبر پر حاضری ضرور دیتا ہے، یہ لوگوں کی اس سے محبت نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ محبت ہی ہمیں حوصلہ دیتی ہے کھڑے رہنے کا اور ارشد کے لیے انصاف کی جنگ لڑنے کا۔
ارشد کو زندگی میں بھی محبت ملی اور شہید ہوکر بھی وہ امر ہوگیا۔وہ اب لوگوں کے لیے جرأت کا استعارہ ہیں۔ ارشد جیسے بیٹے صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جو اپنی زندگی عوام کے لیے‘ اپنے وطنوں کے لیے نچھاور کر جاتے ہیں۔ ارشد شریف کے مجرموں کے حصے میں صرف رسوائی آئی۔ ان کے قاتل گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوجائیں گے مگر ارشد ہر روز نئے سورج کے ساتھ چمکے گا کیونکہ سچ کبھی مٹ نہیں سکتا۔
ارشد شریف نے مفاد کے بجائے حق کے راستے کا انتخاب کیا اور اسی راہ میں اپنی جان تک دے دی۔ ان شاء اللہ اب وہ اگلے جہان میں بہت اچھی جگہ پر ہیں۔ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صبر اور حوصلہ عطا فرمائے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں