جنگوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں

گزشتہ چند ہفتوں‘ بالخصوص چند دنوں سے جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ شاید انسانی تاریخ کا سب سے تکلیف دہ باب ہے۔ غزہ میں پانی نہیں ہے، انٹرنیٹ بند ہے، بجلی نہیں ہے، خوراک کی قلت ہے، ادویات تک کم پڑ گئی ہیں اور اوپر سے اسرائیل کی طرف سے برستی موت، غزہ پر ہر سیکنڈ بعد داغے جانے والے میزائل اور بم پلک جھپکتے میں ہنستے بستے خاندانوں کو نگل رہے ہیں۔ بلند و بالا عمارتیں اور رہائشی فلیٹس بنانے میں سالوں کا وقت لگتا ہے لیکن میزائل ایک پل میں سب کچھ زمین بوس کر دیتے ہیں۔ ان میں رہنے والے بیسیوں‘ سینکڑوں مکین چند لمحوں میں اپنی جان سے چلے جاتے ہیں۔ جو بچ جاتے ہیں‘ ملبے میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں جن کو ریسکیو کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اسرائیل جان بوجھ کر انسانی بستیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ سراسر نسل کشی کے مترادف ہے۔ اسرائیل کا مقصد صرف ان علاقوں پر قبضہ کرنا نہیں ہے بلکہ وہ یہاں بسنے والے فلسطینیوں کی نسل کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔ نہ فلسطینی ہوں گے نہ مزاحمت کریں گے، نہ ہی اپنے علاقے پر صہیونیوں کے ناجائز تسلط کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ اسرائیل نے اس بار ظلم کی تمام حدود کو پار کر لیا ہے۔ بزرگوں، بچوں اور خواتین کے ساتھ ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک غیرملکی نشریاتی ادارے نے خبر شائع کی کہ حماس نے ہسپتالوں کے نیچے بھی سرنگیں بنا رکھی ہیں‘ اس کے بعد 24 گھنٹے کے اندر اسرائیل نے ہسپتال پر بھی بمباری شروع کر دی۔ یہ ایسا مرحلہ تھا کہ دردمند دل رکھنے والا ہر انسان دہل کر رہ گیا کہ یہ کیا ہوا ہے، کیونکہ جنگوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ جنگ ان اصولوں کے ساتھ ہی لڑی جاتی ہے کہ جنگ کے دوران مریضوں اور ہسپتالوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا، سویلینز کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا، صحافیوں اور ریلیف ورکرز کو ٹارگٹ نہیں کیا جائے گا، درختوں اور فصلوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا مگر اسرائیل کے لیے نہ تو کوئی جنگی ضابطہ باقی رہ گیا ہے نہ ہی کوئی اصول اور قانون۔ ہسپتال پر ہوئے حملے میں چار سو سے زائد لوگ شہید ہوگئے جو زیادہ تر مریض تھے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل شاید انسانیت پر ہی یقین نہیں رکھتا۔ جنگ کے اصول شاید اب صرف کتابوں تک ہی محدود ہو کر گئے ہیں۔ ناجائز صہیونی ریاست نے وحشیانہ طریقے سے فلسطین پر آگ و بارود کی بارش شروع کر رکھی ہے اور اب تک ہزاروں فلسطینی بچوں، خواتین، بزرگوں اور مردوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ دنیا اس سب پر چپ ہے اور خاموشی سے غزہ اور فلسطینیوں کی تباہی کو دیکھ رہی ہے۔ زیادہ تر مغربی ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسے اپنی مکمل حمایت کا یقین دلا چکے ہیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ یہ ممالک بھی فلسطینیوں کی اس نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔ فلسطین کے بچوں اور نوجوانوں کا قتل ایک بھیانک جنگی جرم ہے۔ پہلے ان کے علاقوں پر قبضہ کیا گیا، ان کو وہاں سے بیدخل کیا گیا، اس کے بعد ظلم و ستم کے پہاڑ ان پر توڑ ڈالے گئے اور اب جینے کا بھی حق ان سے چھینا جا رہا ہے۔ اگر گزشتہ دو‘ تین دن کا جائزہ لیں تو غزہ کا رابطہ دنیا بھر سے منقطع ہے۔ وہاں نہ بجلی ہے، نہ انٹرنیٹ ہے جبکہ خوارک کی بھی شدید قلت ہے۔ مساجد سے مسلسل اعلانات ہو رہے ہیں، یہ اتنے دردناک اعلانات ہیں کہ شاید کسی کا بھی دل پھٹ جائے۔ اہلِ غزہ امتِ مسلمہ کو پکار رہے ہیں، وہ کرب میں مبتلا ہیں، ظلم و جبر کا شکار ہیں۔ کیا امتِ مسلمہ کچھ عرصہ تک اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم نہیں کر سکتی؟ کیا اس کی اشیا کا متحد ہو کر بائیکاٹ نہیں کیا جا سکتا؟ کیا اس کو تیل کی ترسیل نہیں روکی جا سکتی؟ اس کے ساتھ دفاعی و معاشی معاہدے ختم نہیں کیے جا سکتے تا کہ وہ غزہ باسیوں کی نسل کشی کا سلسلہ ختم کرے اور یہ جنگ روکے۔ مگر شاید سب کو اپنا اپنا مفاد عزیز ہے۔ اس لیے کسی کو بھی فلسطینیوں پر ہونے والا ظلم نظر نہیں آ رہا۔
وہ امتِ مسلمہ کہاں گئی جو ایک دوسرے کی تکلیف میں ساتھ کھڑی ہوا کرتی تھی؟ جو ایک دوسرے کے کام آیا کرتی تھی؟ اس ضمن ترکیہ اور سعودی عرب اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ سفارتی دبائو استعمال کرکے پہلے جنگ بندی کرائیں تاکہ غزہ تک امداد پہنچائی جا سکے، پھر اس مسئلے کے کسی مستقل حل کی طرف بڑھیں۔ غزہ جل رہا ہے لیکن انسانیت خاموش ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور بھارت کھل کر اسرائیل کی سپورٹ کر رہے ہیں۔ عالمی امدادی اداروں کو غزہ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ میڈیا اور امدادی کارکنان کو بھی چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حالانکہ جنگوں میں کبھی بھی میڈیا اور عالمی امدادی تنظیموں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا مگر اسرائیل کو تو ہر طرح کے ظلم کی چھوٹ حاصل ہے۔ دوسری طرف بچوں کی عالمی تنظیم نے بتایا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے مرنے والوں میں لگ بھگ نصف بچے ہیں۔ اسرائیل نے حماس کے مزاحمت کاروں کی جانب سے اسرائیلی بچوں کو نشانہ بنانے اور کچھ بچوں کے مرنے کا دعویٰ کیا تھا جس کو وہ سچ ثابت نہیں کر سکا؛ تاہم غزہ میں اب تک 3457 بچے شہید ہو چکے ہیں اس پر دنیا کو کوئی تاسف نہیں، اس پر کوئی شور نہیں مچ رہا، کوئی اس صریح نسل کشی پر احتجاج نہیں کر رہا۔ اہلِ غزہ کی نسل کشی پر پوری دنیا کی خاموشی یقینا ایک مجرمانہ فعل ہے۔
فلسطینیوں تک اس وقت صاف پانی، ادویات، خوراک اور ایندھن پہنچنا بہت ضروری ہے۔ مگر اس سے پہلے ان کو جنگ اور بارود سے پاک ماحول دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے نزدیک ایک پٹاخہ بھی چل جائے تو دل دہل جاتا ہے‘ سوچیں ذرا کہ جن پر ہر منٹ کے حساب سے بمباری ہو رہی ہے، ادھر انسانوں کا کیا حال ہو رہا ہو گا۔ مگر ان پر رحم کرنے کو کوئی تیار ہی نہیں۔ گھر تباہ ہو گئے تو لوگ نے سکولوں، ہسپتالوں اور میدانوں میں پناہ لی مگر صہیونی فوج نے وہاں بھی ان کو نشانہ بنایا۔ اس وقت غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے بلکہ جیل سے بھی بدتر ہے کہ جیل میں انسانوں کو پینے کو پانی اور جیسا تیسا کھانا تو مل جاتا ہے، اہلِ غزہ کو تو وہ بھی میسر نہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی ان پر ہر طرح کا ظلم ڈھا رہے ہیں؛ تاہم اس صورتِ حال میں بھی فلسطینیوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ ہر طرح کی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ حماس نے جس طرح اسرائیل کو اس کے گھر میں گھس کر مارا، وہ ساری دنیا کے لیے حیران کن تھا۔ اسی طرح جو عام فلسطینی شہری ہیں، وہ بھی صہیونی مظالم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
اسرائیل جتنا بھی اسلحہ جمع کر لے، وہ فلسطینیوں کے جذبۂ ایمانی کو شکست نہیں دے سکتا۔ ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اگر انسان آگے نہیں بڑھے تو یقینا قدرت کا قانون حرکت میں آئے گا۔ ظلم کا دور طویل ضرور ہوتا ہے لیکن بالآخر مٹ جاتا ہے۔ اس وقت اسرائیل غزہ پر بارہ ہزار ٹن بارود برسا چکا ہے جبکہ امریکہ نے ہیروشیما پر تیرہ ہزار ٹن بارود گرایا تھا۔ یہ دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ عالمی میڈیا اور رپورٹرز نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل غزہ پر فاسفورس بم بھی برسا رہا ہے جوعالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس بم میں شامل کیمیکل انسان کے نظامِ تنفس پر حملہ کرتا ہے اور انسانی اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اسرائیل کھلے عام ممنوعہ جنگی ہتھیاروں کا استعمال کر رہا ہے۔ غزہ میں اب تک اقوام متحدہ کے 63 کارکنان بھی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ صہیونی فوج مغربی کنارے پر بھی فلسطینی آبادیوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ کتنے ہی فلسطینیوں کے گھر مسمار کر دیے گئے ہیں اور کتنے ہی بے دخل اور شہید ہو گئے ہیں۔ اس سب معاملے کا ایک ہی حل ہے کہ یہاں سیز فائر ہو، امدادی کارروائیاں کرکے ان لوگوں کوبچایا جائے جو اس جنگ کی وجہ سے محصور ہیں۔ سکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر (وزیراعظم) حمزہ یوسف کے سسر اور خوشدامن بھی اس وقت غزہ میں محصور ہیں۔ ان کی اہلیہ فلسطین سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی خوشدامن نے اپنی آخری وڈیو میں بتایا تھا کہ وہ جنگ زدہ علاقوں میں پھنس گئے ہیں۔ ان کے پاس اشیائے ضروریہ ختم ہو گئی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شاید ان کی یہ آخری وڈیو ہو۔ اس جنگ کو اب ختم ہونا چاہیے۔ 1948ء میں قیامِ اسرائیل سے اب تک اس خطے میں بہت نقصان ہو چکا ہے، اب اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں