یہ سلسلہ کہاں جا کر ختم ہو گا؟

پاکستان میں کوئی نہ کوئی زیرِ عتاب رہتا ہے۔ کبھی سیاسی شخصیات‘ کبھی سیاسی کارکنان‘ کبھی پوری پوری سیاسی جماعت کڑے وقت کا سامنا کرتی ہے۔ کبھی کسی قومیت کو نشانے پر رکھ لیا جاتا ہے اور کبھی کسی فرقے کوجبر کا زمانہ دیکھنا پڑتا ہے۔ جب میں یورپ کی طرف دیکھتی ہوں تو سوچنے لگتی ہوں کہ وہاں صدیوں کی جنگوں کے بعد اب کتنا سکون و اطمینان ہے‘ انہوں نے شاید سیکھ لیا کہ جنگ و جدل سے تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ وہاں سرحدی تنازعات نہیں ہیں‘ بارڈر پر کوئی جنگ نہیں ہے‘ اندرونِ ملک کوئی خانہ جنگی نہیں ہے۔ سیاحت‘ بزنس‘ ثقافتی و سماجی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ عوام خوشحال ہیں اور جمہوری نظام رائج ہے۔ ان تمام ممالک کی ترقی کے پیچھے جمہوریت ہی کارفرما نظر آتی ہے۔ جہاں آمریت اور مطلق العنانیت ہو‘ وہ معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ جہاں کرپشن ہو‘ وہ قوم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ پاکستان میں کمزور اور ڈگمگاتی جمہوریت نے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہم بہت سے محاذوں پر دنیا اور اپنے حریف ممالک سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ جب میں علاقائی ممالک کی ترقی اور سفارتی کامیابیاں دیکھتی ہوں تو اپنے ملک کے پیچھے رہ جانے کا افسوس دامن گیر ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ قانون و آئین پر عملدرآمد نہ کرناہے۔ یہاں امیر کیلئے علیحدہ قانون ہے اور غریب کیلئے علیحدہ۔ کرپشن عام ہے مگر کسی قصور وار کو سزا نہیں ملتی۔ انصاف کا کال ہے اور ان سب پر مستزاد مہنگائی‘ جس نے عوام کی کمرتوڑ کررکھ دی ہے۔پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں صرف سیاستدانوں کا احتساب کیا جاتا ہے‘ صرف انہیں ہی نشانے پر رکھا جاتا ہے۔ باقی تمام طبقات احتساب سے صاف بچ جاتے ہیں۔ یہاں وزرائے اعظم کو عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ہے‘ ان کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دیے جاتے۔ محلاتی سازشوں اور جمہوریت کا کمزور ہونا پاکستان کو معاشی طور پر بدحال کرگیا ہے۔ حکومتیں پانچ سال پورے نہیں کرپاتیں‘ ان کی پالیسوں کا اطلاق ٹھیک طرح سے نہیں ہو پاتا‘ یکایک وزیراعظم کے پیروں تلے سے زمین اور سر سے آسمان چھین لیاجاتا ہے۔ اس کے خلاف کیسز کا انبار لگ جاتا ہے۔ جو کسی قدر خوش نصیب ہوتا ہے‘ وہ ڈیل کرکے بیرونِ ملک چلا جاتا ہے اور جو بدقسمت ہوتا ہے‘ وہ جیلوں کا مکین بن جاتا ہے۔ ہر چند سال بعد ایک ہی طرح کا تماشا دیکھنے کو ملتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف سیاستدان ہی گناہگار ہیں؟ کیا اس ملک کی تمام تر خرابیوں کے ذمہ دار صرف وہی ہیں؟ ایسا نہیں ہے! مگر ہر دور میں صرف سیاستدانوں اور سیاسی کارکنان ہی کو زیرِعتاب لایا جاتا ہے اور اب بھی یہی کچھ کیا جارہا ہے۔ پہلے یہ سب کچھ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا، پھر مسلم لیگ (ن) اس کا نشانہ بنی اور اب پی ٹی آئی کی باری ہے۔ یقینا اس سے پہلے بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہوگا لیکن چونکہ موجودہ ادوار کی میں چشم دید گواہ ہوں‘ لہٰذا گزرے ادوار کے قصے کو فی الحال چھیڑنا نہیں چاہتی۔ جو کچھ ماضی قریب میں ہوا‘ اس کے تو ہم سب گواہ ہیں۔
سب سے پہلے سیاسی کارکنان کو دہشت گرد، تخریب کار یا غدار کہنے کا سلسلہ بندکرنا چاہیے۔ اختلافِ رائے ہر کوئی رکھ سکتا ہے لیکن اس سے کوئی غدارِ وطن نہیں ہوجاتا۔ سیاسی انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بھی بہت سالوں سے چل رہاہے لیکن جو کچھ اپریل 2022ء کے بعد سے دیکھنے کو ملا‘ ماضی میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پہلے کبھی ایسے نہیں ہوا کہ کسی سیاسی رہنما پر ایک‘ ڈیڑھ سال کے عرصے میں دو سو سے زائد مقدمے درج کرا دیے جائیں‘ سیاسی کارکنان بالخصوص خواتین کو جیلوں میں ٹھونسا جائے‘ اگر ان کی ضمانت منظور ہو تو کوئی نیا مقدمہ درج کر کے ان کو گرفتار کر لیا جائے یا امنِ عامہ کا بہانہ بنا کر لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے۔ ہزاروں سیاسی کارکنان اور سینکڑوں رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا۔ جس طرح سے یہ سب کیا گیا‘ وہ کہیں زیادہ افسوسناک ہے۔ لوگوں کے گھروں میں پولیس دیواریں پھلانگ کر داخل ہوئی‘ ان کے سامان کو توڑا گیا‘ ان کے اہلِ خانہ کو ہراساں کیا گیا۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اگر کسی کو گرفتار ہی کرنا ہے تو رات کے وقت دیواریں پھلانگ کر شہریوں کو خوف زدہ اور ہراساں کیوں کیا جاتا ہے؟ دن کے وقت بھی یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ بالخصوص بچے‘ عورتیں اور بزرگ اس عمل سے بہت خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔
لوگوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی۔ قیمتی فرنیچر اور الیکٹرانک سامان کو توڑا گیا یہاں تک کہ مائوں‘ بہنوں کو دھمکیاں دی گئیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کی گاڑی کے شیشے توڑنے اور عثمان ڈار کی والدہ کو گھر میں گھس کر دھمکیاں دینے کے مناظر سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ یہ خواتین ہماری دادی‘ نانی کی عمر کی ہیں۔ کیا ہمارے معاشرے میں بزرگوں اور خواتین کا احترام بالکل ختم ہوگیا ہے؟ اس کے ساتھ کتنے ہی لوگوں کے اُن اہلِ خانہ کو بھی تھانے‘ کچہری‘ حوالات اور جیل میں جانا پڑا جن کا کسی بھی معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پنجاب میں ایسی صورتِ حال پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی کہ سیاسی کارکنان پر یوں کریک ڈائون کیا جائے۔ اگرچہ بلوچستان، کے پی اور کراچی سے ایسے واقعات سامنے آتے رہے لیکن پنجاب میں یہ سب کچھ ہونا حیران کن تھا۔ اس تمام صورتِ حال میں جو لوگ معتوب سیاسی پارٹی کو سپورٹ کر رہے تھے‘ اس کے ساتھ کھڑے تھے‘وہ مفاہمت اور مصلحت کی وجہ سے خاموش ہوگئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دل سے اب بھی اسی کیساتھ ہیں۔ نو مئی کے افسوسناک واقعات کے بعد کریک ڈائون کا سلسلہ مزید دراز ہو گیا مگر یہ بھی دیکھا کہ جو سیاسی وابستگی بدل لیتا‘ اس کے گناہ معاف ہوجاتے۔
جب سے الیکشن کا اعلان ہوا ہے‘ ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی الیکشن میں حصہ نہ لے پائے، پہلے اس کے امیدوار توڑے گئے‘ جو ہمت کرکے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے پہنچے‘ ان کے ساتھ بھی عجیب سلوک ہوا۔ کسی سے کاغذ چھین لیے گئے‘ کسی کو آر او کے دفتر میں داخل ہونے سے روکا گیا‘ کسی کو ہراساں کیا گیا تو کسی کو گرفتار کر لیا گیا۔ معاملہ یہیں تک نہیں رہا‘ جو تجویزکنندہ اور تائید کنندہ تھے‘ ان کو بھی تنگ کیا گیا۔ تمام رکاوٹیں عبور کرنے کے بعد بھی جو کاغذات جمع کرانے میں کامیاب ہو گئے‘ ان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے۔ یہ سب صرف ایک سیاسی جماعت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کو اس بار بھرپور لیول پلیئنگ فیلڈ میسر ہے لیکن وہ پھر بھی عوام میں جانے سے کترا رہی ہیں اور اپنی انتخابی مہم صرف پارٹی اجلاسوں یا سوشل میڈیا کی حد تک محدود کیے ہوئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تمام تر حربوں کے باوجود پی ٹی آئی ووٹ بینک رکھتی ہے اور اگر انتخابات صاف‘ شفاف ہوئے تو اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گا۔ جو کچھ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے مرحلے میں دیکھ چکے‘ اس کے بعد یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ الیکشن شفاف ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک طبقہ اب بھی شاید الیکشن کے حق میں نہیں۔ یہ ملک کیلئے ہرگز اچھا نہیں ہوگا۔ اگر مینڈیٹ عوام کے حقیقی نمائندوں کو نہ ملا تو سیاسی استحکام کا آنا ناممکن ہے‘ اس سے معاملات مزید گمبھیر ہو جائیں گے۔ آج ایک جماعت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ کل کسی اور کی باری ہو گی‘ اس سلسلے کو یہیں روکنا ہو گا۔ سیاسی انتقام عوام میں مایوسی‘ بددلی اور خوف پھیلا رہا ہے۔ یہ جمہوریت کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں‘ وزرائے اعظم اور سیاسی جماعتوں کو پانچ سال مکمل کرنے دیں۔ بھارت محض جمہوریت کے سبب معاشی طور پر ہم سے کتنا آگے نکل گیا ہے۔ جمہوریت ہی کی وجہ سے وہ سفارتی طور پر بھی آگے ہے۔ ہم سفارتی تنہائی کا شکار ہیں‘ امداد کے طلبگار ہیں‘ یہ صورتِ احوال قابلِ افسوس ہے۔ سیاسی جماعتوں سے دہشت گردوں والا سلوک مت کریں، ان کو الیکشن کیلئے یکساں ماحول دیں‘ عوام کو ووٹ کے ذریعے فیصلہ کرنے دیں‘ پھر دیکھیں کہ حالات کیسے تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں