''کیا پہلے بھی کبھی ایسا ہوا ہے؟‘‘۔ آج کل یہ سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال ہے جو نئی نسل کے ذہنوں پر سوار ہو چکا ہے۔ کیا پہلے بھی کبھی وطنِ عزیز اتنے بحرانوں سے گزرا ہے؟ کیا پہلے بھی قوم ایسے نازک دور سے گزری ہے؟ کیا پہلے بھی ایسا ہوا کہ ہرطرف جمود چھا جائے‘ سب کچھ رک سا جائے؟ ممکن ہے کہ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوا ہو لیکن ہماری نسل نے ایسا کبھی نہیں دیکھا‘ کبھی ایسا نہیں لگا کہ پورا نظام رک سا گیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ کوئی نظام سرے سے ہے ہی نہیں‘ نہ ہی عوام کی کوئی شنوائی ہو رہی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ سارا معاملہ اپریل 2022ء میں شروع ہوا تھا۔ ایک منتخب وزیراعظم کو برطرف کر کے پی ڈی ایم نے جب وفاق میں اقتدار حاصل کرلیا تو پھر تختِ پنجاب کی دوڑ شروع ہو گئی۔ پنجاب میں ہم نے ایک نجی ہوٹل میں وزیراعلیٰ کو منتخب ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ یہ بہت حیران کن منظر تھا کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ اسمبلی کے ایوان کے بجائے ایک ہوٹل میں چنا جا رہا تھا۔ قبل ازیں تحریک انصاف نے ایک ایسے شخص کو وزیراعلیٰ بنا رکھا تھا جو صوبے کو سنبھال نہیں سکا تھا، پارلیمانی معاملات پر بھی موصوف کی گرفت خاصی کمزور تھی اس وجہ سے پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ پی ڈی ایم نمبر گیم میں تو شاید ٹھیک جا رہی تھی مگر اس اہم مرحلے پر پرویز الٰہی کا ڈٹ جانا ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیشہ قائدانہ صلاحیتوں کے حامل سیاستدانوں ہی کو قیادت ملنی چاہیے۔ جن کا کوئی وژن نہ ہو‘ وہ کسی میدان میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔ 2022ء میں پنجاب میں ایسے ایسے تماشے ہوئے کہ یقین نہیں آتا تھا۔ لوگوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ چوبیس گھنٹے کی کابینہ نے بھی حلف اٹھایا۔ لوگ حیران بھی تھے اور جمہوریت کے ساتھ ہونے والے اس مذاق پر ششدر بھی۔ سوچتی ہوں کہ مطالعہ پاکستان پڑھنے والے طالبعلموں کو یہ تاریخیں یاد کرنے میں کتنی مشکل پیش آئے گی اور یہ تمام نام اور واقعات یاد رکھنا کتنا کٹھن ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ملکی سیاست اور آئین و قانون کے ساتھ ایک کھلا مذاق اور جمہوریت کی بھد اڑانے کے مترادف تھا۔ سیاستدانوں نے خود ہی جمہوریت کو نقصان پہنچایا اور ان کی تمام کارگزاریوں سے جمہوریت مزید کمزور ہوتی چلی گئی۔ جیسے تیسے کر کے گزشتہ سال جنوری میں پنجاب اور کے پی کی حکومتیں تحلیل ہوئیں تو امید تھی کہ اب انتخابات سے ایک ایسی حکومت وجود میں آئے گی جو واضح مینڈیٹ رکھتی ہو گی اور اس سے پارلیمانی سازشوں کا قلع قمع ہو گا مگر جو انتخابات تین ماہ میں ہونے تھے‘ وہ ایک سال بعد تک بھی نہیں ہو سکے ہیں۔ تب سے پنجاب اور کے پی پر نگران حکومتیں مسلط ہیں جو اپنی آئینی مدت چار‘ چار بار پوری کرچکی ہیں۔ اس دوران جو کچھ ہوا‘ وہ پہلے کسی نگران حکومت میں نہیں دیکھا گیا۔ نگران حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر جانبدار رہے مگر ایک سیاسی جماعت کو سبق سکھانے کے لیے پولیس سیاسی لیڈروں اور کارکنان کے گھروں میں گھس گئی‘ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ خواتین کو گرفتار کیا گیا‘ حتیٰ کہ بچوں کو بھی ہراساں کیا گیا۔ لوگ شدید خوف و ہراس کا شکار ہوئے لیکن اب بھی اپنی سیاسی وابستگیوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یوں تو بہت سے دلخراش واقعات اس سارے عرصے میں دیکھنے کو ملے مگر شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی بہو‘ جو خود ایک ریٹائرڈ جسٹس ہیں‘ ان کے گھر کا گیٹ توڑنا‘ ان کے ساتھ بدتمیزی کرنا ایک ایسا سانحہ ہے جو تاریخ میں ہمیشہ سیاہ باب میں یاد رکھا جائے گا۔جو سیاسی کارکنان پابندِ سلاسل ہوئے ضمانتیں ملنے کے بعد ان کو کسی دوسرے کیس میں اٹھا لینا‘ یہ ایسا سیاہ دھبہ ہے جو دھوئے نہیں دھل سکتا۔ اس طرح کے کیسز سے ہزاروں خاندان رُل کر رہ گئے۔ خاص طور پر جو خواتین اس وقت جیلوں میں ہیں‘ ان کے بچے اور فیملی والے سخت اذیت اٹھارہے ہیں۔ اگر اربوں کی کرپشن کرنے والے سیاستدانوں کو جیل میں اے اور بی کلاس مل سکتی ہے‘ انہیں معافی اور این آر او مل جاتا ہے تو ان افراد کا کیا قصور ہے؟ یقینا سب کے سب‘ بالخصوص خواتین تو جلائو گھیرائو کا حصہ نہیں ہوں گی‘ کچھ افراد صرف نعرے بازی ہی کر رہے ہوں گے‘ ریاست کو ان کو معاف کردینا چاہیے جو صرف احتجاج کے لیے باہر نکلے تھے۔
اسی طرح اسلام آباد میں کئی ہفتوں سے بلوچ خواتین کا دھرنا چل رہا ہے۔ وہ اپنے پیاروں کی تلاش میں ہیں۔ کسی کا بھائی گم ہے‘ کسی کا بیٹا نہیں مل رہا اور کسی کا والد لاپتا ہے۔ دل پھٹ جاتا ہے غم کی یہ داستانیں سن کر مگر ان کی بھی کوئی شنوائی نہیں۔ ان کو کالعدم تنظیموں سے نتھی کرکے بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا۔ مسائل گمبھیر ہو رہے ہیں‘ ان سے بات کریں‘ ان کے دکھوں کا مداوا کریں۔ بھارت پہلے ہی بلوچستان پر میلی نظریں جمائے بیٹھا ہے‘ اس طرح مسائل کو نظر انداز کرنا مسائل کو بڑھاوا دینے کا سبب بنے گا۔ جو لوگ دھرنا کیمپوں میں بیٹھے ہوئے ہیں‘ وہ تو دکھوں کے مارے ہوئے ہیں‘ اگر ان کے آنسو پونچھ لیں گے تو شاید حالات میں کافی سدھار آ جائے مگر ریاست ان سے بھی نظریں کترا رہی ہے اور اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی۔
میرے مرحوم شوہر ارشد شریف نے اپنی زندگی میں ایک درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی تھی کہ ان کی جان کو خطرہ ہے‘ ان پر ہونے والی تمام ایف آئی آرز کو ایک جگہ یکجا کیا جائے اور بے بنیاد کیسز کو ختم کیا جائے مگر ان کو بروقت انصاف نہیں مل سکا۔ ان کی جان کی حفاظت نہیں کی گئی اور دیارِ غیر میں ان کا سفاکانہ قتل ہوگیا۔ اب ان کے قتل کے ایک سال اور تین ماہ بعد ان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج نے سرکاری وکیل کی سرزنش کی کہ کیسے اتنی زیادہ ایف آئی آرز درج ہوگئیں، ریاست نے عدالت کے سامنے اپنے جرم کو تسلیم کیا، عدالت نے ان مقدمات کے اندراج کو مذاق قرار دیا۔ اگر یہ سب کچھ ان کی زندگی ہی میں ہو جاتا تو شاید وہ آج زندہ ہوتے اور اتنی تکالیف اور مصائب کا سامنا نہ کرتے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے اور اب الیکشن چار ہفتے سے بھی کم دوری پر ہیں مگر اس کے باوجود قیاس آرائیاں اور چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ پورا نظام ایک جمود کا شکار ہے ۔ کھل کر بات کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ پتا نہیں کیا ہو جائے۔ کیا آج کے دور میں اتنی گھٹن اور خوف کے ساتھ ملک ترقی کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں! ترقی کے لیے آزادانہ ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جو کم از کم اس وقت ہمارے ملک میں میسر نہیں۔ اتنا بڑا ملک‘ وسائل سے مالا مال‘ دو تہائی نوجوان آبادی‘ اس کے باوجود ملک ان حالات تک کیسے پہنچ گیا؟ اس کا ایک ہی جواب ہے :کرپشن، اشرافیہ کی اَنا اور جمہوری طرزِ عمل سے دوری۔ جس ملک میں ایک بھی وزیراعظم پانچ سال کی اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکے اس ملک میں جمہوریت کتنی مضبوط ہو گی‘ اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ اسی سبب ہم معاشی طور پر بھی تباہ ہوئے اور سفارتی تنہائی کا بھی شکار ہیں۔سیاح ایسے ممالک میں آنے سے کتراتے ہیں جہاں سیاسی عدم استحکام ہو‘ جہاں کارکنان کو جیل میں بند کیا گیا ہو‘ جہاں الیکشن کرانے کے بجائے ملک نگران حکومتوں کے سپرد کر کے عوام کو فراموش کر دیا جائے۔ نگران حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری الیکشن کرانا ہے مگر اب تک الیکشن کرانے کے بجائے انہوں نے ہر کام کیا ہے۔ اس وقت بھی سیاسی اُفق پر غیر یقینی صورتحال واضح نظر آ رہی ہے کہ شاید الیکشن ہی نہ ہوں۔ نہ ہی وہ انتخابی تیاری نظر آرہی ہے نہ ہی وہ سیاسی مہمات اور جلسے جلوس نظر آرہے ہیں جو انتخابات کا خاصہ ہوا کرتے ہیں۔ ہر طرف ایک جمود ہے۔ ٹی وی مباحثوں یا سوشل میڈیا پر کچھ سیاسی گرما گرمی ضرور ہے لیکن میدان میں اوس چھائی ہوئی ہے۔ جب تک سیاسی جماعتیں چور دروازوں سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہیں گی‘ جمہوریت کمزور رہے گی۔ جب تک سیاسی جماعتیں موروثی سیاست کو لے کر چلیں گی‘ نئے چہروں کو آگے نہیں آنے دیں گی‘ نظام جمود کا شکار رہے گا اور بہتری کے کوئی امکانات نہیں۔