جمہوری تماشا

پرانے زمانے میں جب کوئی میلہ‘ تماشا‘ دنگل یا سرکس لگتا تھا تو اس کا اعلان سائیکل رکشے یا گدھا گاڑی پر کیا جاتا تھا۔ مقامی فنکاروں اور موسیقی کے ذریعے اس کی تشہیر کی جاتی تھی۔مائیک اور لائوڈ سپیکر پر ''آگیا‘ آگیا‘‘ کے اعلان ہوتے تھے۔ اس وقت تفریح وغیرہ کے زیادہ ذرائع نہ تھے لہٰذا لوگ جوق در جوق ان میلوں‘ تماشوں میں شرکت کرتے تھے اور ان سے لطف اٹھاتے تھے۔ کبھی تاروں پر سائیکل چلاتی لڑکی آتی‘ کبھی شیر کے ساتھ کوئی لڑکا کرتب دکھاتا‘ کبھی مداری منہ سے آگ نکال کر عوام کو دنگ کر دیتا۔ چھوٹے چھوٹے قد کے بونے ایسی ایسی شرارتیں کرتے کہ دیکھنے والے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ جانور‘ پرندے‘ انسان‘ سبھی اس تماشے کا حصہ ہوتے تھے۔ ان تماشوں کے ساتھ ایک طرف پتلی تماشا بھی ہوتا تھا۔ اس میں بہت سی پتلیاں رقص کرتی نظر آتی تھیں جن کی ڈوریں ان کے مالکوں کے ہاتھ میں ہوتی تھیں۔ وہ بے جان پتلیاں تمام کردار ادا کرنے کے لیے اپنے مالکان کی محتاج ہوتی تھیں۔ ان کی مرضی کے بغیر وہ حرکت تک نہیں کر سکتی تھیں۔ ان کا ہنسنا‘ رونا‘ بولنا سب کچھ چند ڈوریوں سے بندھا ہوتا تھا۔ جب پردہ گرتا تھا تو بہت سے لوگ تالیاں بجا رہے ہوتے تھے۔
پھر کچھ پتلیاں جمہوری تماشے میں بھی شامل ہو گئیں۔ دنیا کے بیشتر معاشروں میں جمہوریت رائج ہے‘ کہنے کی حد تک ہمارے یہاں بھی جمہوری نظام ہے مگر یہاں صرف نام کی جمہوریت ہے۔ اس جمہوری تماشے میں صرف کٹھ پتلیوں کو اجازت ہے۔اس تماشے میں صرف اس کو سامنے آنے دیا جاتا ہے جو اشاروں پر چلے ۔ ہمارے ملک میں گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے سے یہ تماشا جاری ہے اور اب عوام اس تماشے سے اکتا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب نئی نسل بولتی بھی ہے اور کچھ کہنے سے ڈرتی بھی نہیں۔ گزشتہ ایک سال سے ملک کے دو صوبوں میں نگران حکومتیں قائم تھیں اور الیکشن التوا کا شکار تھے۔ خدا خدا کر کے الیکشن ہوئے تو عوام کی بڑی تعداد باہر نکل آئی اور اپنے ووٹ کے حق کا استعمال کیا۔ عوام سیاسی کشمکش اور ہیجان سے تنگ آ چکے ہیں‘ وہ مہنگائی اور بیروزگاری کے ستائے ہوئے ہیں۔ وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ سیاست دان تو اس ملک میں بہت امیر ہیں مگر عوام اتنے بدحال کیوں ہیں؟ اشرافیہ کے کاروبار خلیج‘ یورپ اور امریکہ تک پھیلے ہوئے ہیں مگر ملکی معیشت روز بروز تنزل کا شکار ہے اور ہم بجٹ بنانے کے لیے بھی آئی ایم ایف کے محتاج ہو چکے ہیں۔ اس ایٹمی ریاست کے ہاتھ میں کشکول کس نے پکڑایا ہے؟ اس کا جواب کٹھ پتلیاں اور ان کی ڈور ہلانے والے ہی دے سکتے ہیں۔ یہ پچیس کروڑ عوام کا ملک ہے‘ وہ بار بار سوال کرتے ہیں‘ کروڑوں لوگوں کو چپ نہیں کرایا جا سکتا۔الیکشن کے بعد سے عوام مسلسل سوال کر رہے ہیں کہ ہمارا ووٹ کہاں گیا؟ ہمارے نمائندے کیوں نہیں منتخب ہوئے؟ الیکشن کے بعد ایسا کیا ہوا کہ آٹھ فروری کا تمام مینڈیٹ بدل کر رکھ دیا گیا؟ جس سحر کی امید لے کر ہم ووٹ ڈالنے نکلے تھے‘ یہ وہ سحر تو نہیں ہے۔ یہ وہ نمائندے نہیں ہیں جنہیں ہم نے ووٹ دیے تھے۔
بے شمار امیدوار انتخابی نتائج کو چیلنج کر چکے ہیں۔ پورے ملک میں دھاندلی کا شور مچا ہوا ہے۔ کئی شہروں میں انتخابات میں دھاندلی کے خلاف دھرنے دیے جا رہے ہیں۔ بہت سے امیدوار ایسے ہیں جو اپنے فارم 45 لے کر پھر رہے ہیں مگر ان کو کوئی سننے کے لیے تیار نہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ ان حالات میں ملک کا نظام کیسے چلے گا؟ کوئی بھی نظام عوامی رائے اور عوامی مینڈیٹ کو مسترد کر کے نہیں چل سکتا۔ ایسے تجربے پہلے بھی ہو چکے اور ان کے نتائج پہلے بھی مثبت نہیں نکلے تھے‘ آگے بھی کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کا امکان نظر نہیں آتا۔ اب ایک امید جاگی ہے کہ کوئی تو ان الجھی ہوئی ڈوروں کو سلجھائے گا اور کٹھ پتلیوں کو آزاد کرے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے اُن لوگوں کو وہ نشستیں واپس کی جائیں جو امیدواروں نے ووٹ کی طاقت سے جیتی ہیں۔
بچپن میں کچھ ایسے ضدی بچے ہوتے تھے جو لڈو میں ہار کے وقت پوری گیم الٹا دیا کرتے تھے یا کرکٹ میں آئوٹ ہو جانے پر بلا لے کر بھاگ جاتے تھے‘ ایسا لگتا ہے کہ یہ نظام بھی ایسے ہی ضدی بچوں کے ہاتھ میں ہے جو کسی دوسرے کی جیت اور شراکت داری پسند نہیں کرتے‘ وہ اپنی انا اور تسکین کے علاوہ کسی دوسرے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم ایک جمہوری معاشرے میں رہتے ہیں‘ کسی مطلق العنانیت یا بادشاہت میں نہیں‘ اس لیے عوامی رائے کو مقدم رکھنا ہو گا اور عوام کے اصل نمائندوں کو ان کا حق دینا ہو گا۔ ایک بار پھر پی ڈی ایم ٹو کو عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ عوامی مینڈیٹ کی کھلی توہین ہے۔ پہلے بھی ان کو محلاتی سازشوں کے ذریعے مسندِ حکومت پر بٹھایا گیا تھا اور اب یہ باتیں کھل کر سامنے آ چکی ہیں۔ اب پھر عوام کے ووٹ کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور دوبارہ انہی لوگوں کو لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اگر اس نظام کو کٹھ پتلیاں ہی چاہئیں تو اربوں روپے لگا کر الیکشن کرانے کا کیا فائدہ ہے؟ یہ تو ٹیکس پیئرز کی کمائی ہوا میں اڑانے اور ووٹرز کے ووٹ کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہے۔ اگر کوئی سوچتا ہے کہ اپنی مرضی کے افراد مقرر کر کے یہ نظام چلایا جا سکتا ہے تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ ایسی کوششیں پہلے بھی ہو چکیں جو بری طرح ناکام ہوئیں۔ سب سے وعدے کرنے کے بعد‘ تمام فریقین کو کچھ نہ کچھ دینے کے وعدے پورے نہیں ہو پاتے اور کوئی نہ کوئی فریق ناراض ہو ہی جاتا ہے اور پھر سسٹم سے فائدہ اٹھانے کے باوجود اس کے خلاف بول پڑتا ہے‘ تمام سازشوں اور رازوں سے پردہ اٹھا دیتا ہے۔ گزشتہ روز ہم دیکھ چکے کہ ایک سیاستدان‘ جو گزشتہ چالیس سال سے کسی نہ کسی طور اقتدار کا حصہ رہے ہیں‘ اس بار وعدے پورے نہ ہونے پر ایسے ناراض ہوئے کہ سب کچھ کھول کر رکھ دیا کہ اپریل 2022ء میں حکومت کیسے تبدیل ہوئی تھی۔ مزید لوگ ناراض ہوں گے تو مزید حقائق سامنے آئیں گے۔ پھر کیا ہوگا؟ کٹھ پتلیوں کی ڈور جن ہاتھوں میں ہے‘ انہی ہاتھوں میں ڈوریاں الجھ جائیں گی اور ہاتھ چھڑانا تک مشکل ہو جائے گا۔
اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ اقتدار حقیقی عوامی نمائندوں کے حوالے کیا جائے اور جمہوریت کے نام پر جاری یہ پتلی تماشا بند کیا جائے۔ آج کے ٹیکنالوجی‘ انٹرنیٹ‘ اے آئی اور سوشل میڈیا کے دور میں ویسے بھی یہ تماشا زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ جن لوگوں کو زبردستی ہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ سارے ثبوت عالمی میڈیا کے سامنے رکھ چکے ہیں۔ کیا جیتنے والے بھی اپنے شواہد سامنے لائیں گے؟ جب تک سیاستدانوں کی سیاست دوسروں کے مرہونِ منت رہے گی‘ وہ دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے کی کوشش کریں گے‘ تب تک اس ملک میں جمہوریت نہیں پنپ سکتی۔ ہم ان کھیل تماشوں کی وجہ سے پہلے ہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔ اگر اب بھی ان تماشوں کو روکا نہ گیا تو انجامِ گلستان کیا ہو گا‘ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ خدارا! جمہوریت کو چلنے دیں اور عوامی نمائندوں کو ان کا حق دیں۔ جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں گی تو عوام کا سسٹم پر اعتماد بحال ہو گا اور پھر معیشت اور سیاست سمیت ہر شعبے اور ہر معاملے میں بہتری آتی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں