الیکشن اور کچھ منفرد لوگ

پہلے الیکشن ہو نہیں رہے تھے اور اب ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت لینے کا دعویٰ کرنے والوں کو سادہ اکثریت بھی نہیں ملی۔ جو پابندیوں کی زد میں تھے‘ ان کو نشستیں تو بہت ملیں لیکن مبینہ طور پر بہت سی سیٹیں دھاندلی کی نذر ہو گئیں۔ ووٹرز ٹرن آوٹ بھی مناسب رہا اور لوگوں نے بڑی تعداد میں ووٹ دیا۔ پولنگ ڈے مجموعی طور پر پُرامن تھا اور لوگ اپنے ووٹ سے ملک کی تقدیر بدلنا چاہتے تھے‘ اس لیے آٹھ فروری کو وہ اپنے گھروں سے نکلے اور اپنے ووٹ کے حق کا استعمال کیا۔ تاہم عوام کی شکایت ہے کہ ان کے مینڈیٹ کی توہین کی گئی ہے اور جیتے ہوئے امیدواروں کو ہرا دیا گیا ہے۔ فارم 45 کے مطابق جو لوگ جیت رہے تھے‘ ان میں سے بہت سوں کے فارم 47 میں فرق پایا گیا ہے۔ ہر روز کوئی نیا انکشاف ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب تک حکومت قائم نہیں ہو پائی۔ اگر دھاندلی کے مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو یہ مستقل دردِ سر بنا رہے گا اور کبھی حل نہیں ہو گا۔ عوام اب ایک بار پھر عدالتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ لوگ اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ معاملات کو اتنی غیر سنجیدگی سے کیوں چلایا جا رہا ہے۔ اس الیکشن میں جہاں امیدواروں کی گرفتاریاں ہوئیں‘ احتجاج ہوئے‘ نتائج تبدیل کیے گئے‘ وہاں کچھ ایسا بھی ہوا جوجمہوری کلچر میں پہلے نہیں دیکھا گیا تھا۔ بہت عرصے بعد‘ یہ کچھ مثبت دیکھنے کو ملا۔
بلور خاندان خیبر پختونخوا کا مشہور سیاسی خاندان ہے‘ اس خاندان سے تعلق رکھنے والی ثمر بلور جو شہید ہارون بلور کی بیوہ ہیں‘ وہ بھی اس الیکشن میں بطور امیدوار حصہ لے رہی تھیں؛ تاہم وہ اپنے مدمقابل امیدوار سے ہار گئیں۔ انہوں نے اپنی شکست کو نہ صرف کھلے دل سے قبول کیا بلکہ مخالف امیدوار کے گھر جاکر اسے مبارکباد دی۔ سب نے اس عمل کو بہت سراہا۔ ثمر بلور نے 2018ء کے الیکشن میں اے این پی کی صوبائی نشست پر انتخاب لڑا اور تب وہ یہ نشست جیت گئی تھیں۔ وہ بہت متحرک ہیں‘ سماجی خدمات اور سیاست کے ساتھ ٹویٹر پر بھی فعال نظر آتی ہیں۔ مجھے افسوس ہوا کہ وہ اس بار اپنی نشست ہار گئیں۔ خواتین کو عملی سیاست کا حصہ ہونا چاہیے‘ وہ آبادی کا نصف حصہ ہیں‘ ان کی شمولیت ہر شعبے میں بہت ضروری ہے۔ جنرل نشستوں پر ان کے مدمقابل خواتین ہی کو ہونا چاہیے۔ جب ثمر بلور کے شوہر ہارون بلور شہید ہوئے تو مجھے یاد ہے کہ شہید ارشد شریف اُس وقت بہت رنجیدہ تھے۔ ہارون بلور کو 2018ء کے الیکشن سے قبل انتخابی مہم میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ اُس خودکش حملے میں ان کے علاوہ بیس کارکنان بھی شہید ہوئے تھے۔ ثمر بلور نے حالات کا مقابلہ بہت بہادری سے کیا۔ وہ اس وقت اے این پی کی صوبائی سیکرٹری برائے انفارمیشن ہیں۔ اپنی نشست ہارنے کے بعد وہ اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے مدمقابل تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار مینا خان کے گھر پھول لے کر گئیں اور ان کو مبارکباد دی۔ اسی طرح ایک اور مثبت مثال جو ان الیکشنز میں قائم ہوئی وہ یہ کہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے اپنی صوبائی اسمبلی کی جیتی ہوئی سیٹ واپس کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ایس 129 کی جیتی نشست میں واپس کرتا ہوں کیونکہ میرے مدمقابل پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار نے فارم 45 کے مطابق زیادہ ووٹ لیے‘ اس لیے اس نشست پر اس کا حق ہے۔ یہ بہت حیران کن منظر تھا۔ بیشتر لوگ اس فیصلے سے دنگ رہ گئے۔ عام طور پر انتخابی عمل میں سیاستدان نشستوں اور اقتدار کیلئے ہی لڑ رہے ہوتے ہیں اور جس ملک کی سیاست میں نفرت عام ہو‘ وہاں ضمیر کی آواز پر نشست چھوڑ دینا بہت بڑی بات ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے درست نتائج جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ یہ دو مثالیں ہماری جمہوریت اور الیکشن کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ایک امیدوار کا اپنے مدمقابل کو شکست کے بعد جیت کی مبارک دینا اور دوسرے کا اپنی جیتی ہوئی نشست سے دستبردار ہو جانا۔ اسی طرح کچھ دیگر سیاستدانوں نے بھی اپنی ہار کو کھلے دل سے قبول کیا اور اپنے سیاسی حریفوں کو مبارک دی جن میں خواجہ سعد رفیق‘ امیر حیدر خان ہوتی‘ جبران ناصر اور مفتی کفایت اللہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
اس الیکشن میں ایک اور مثال یہ قائم ہوئی کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے الیکشن میں شکست کے بعد اپنی جماعت کی امارت سے استعفیٰ دے دیا؛ اگرچہ جماعت نے غور و خوض کے بعد اس استعفیٰ کو منظور نہیں کیا؛ تاہم امیر جماعت اسلامی نے اپنے استعفیٰ میں یہ تسلیم کیا کہ وہ کوشش اور محنت کے باوجود اپنی جماعت کو کامیابی نہیں دلا سکے اس لیے وہ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہو رہے ہیں۔ تاہم کچھ دن بعد جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے امیر جماعت اسلامی کا استعفیٰ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ان کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ مجلس شوریٰ نے یہ بھی کہا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی جس کی وجہ سے جماعت اسلامی جیت نہیں سکی‘ اس کی وجہ امیر جماعت نہیں ہیں۔
یہ کچھ مثالیں ہیں جو جمہوریت کا حسن ہیں۔ اگر تمام سیاست دان اس طرح کا رویہ اور اخلاق اپنا لیں تو کیا ہی بات ہے‘ مگر فی الحال مجھے دور دور تک ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ اب سیاست نظریاتی اختلاف کے بجائے لڑائی جھگڑے اور ذاتی دشمنی کی طرح بنا دی گئی ہے اور سیاسی حریف دشمنوں کی طرح ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے ہیں۔ گویا سیاست کو ایک جنگ سمجھ لیا گیا ہے۔ نفرت آمیز تقاریر‘ اخلاق باختہ ٹرینڈز اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت سے بھری پریس کانفرنسز عام ہوتی جا رہی ہیں۔ جن لوگوں کو اقتدار دو سے تین بار مل چکا ہے وہ اب پھر اتنی بے چینی کا شکار کیوں ہیں؟ یہ لوگ حقدار تک اس کا حق پہنچنے میں رکاوٹ کیوں بن رہے ہیں؟ ایسی نشست پر کیوں بیٹھ رہے ہیں جو عوام نے ان کو دی ہی نہیں؟ عوامی مینڈیٹ کی توہین مت کریں اور جمہوریت اور الیکشن کے نام پر یہ کھلواڑ بند کریں۔ ایک دوسرے کی چلتی حکومتیں گرا دینا‘ ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملے کرنا‘ خواتین کی کردار کشی کرنا‘ یہ ہرگز جمہوریت اور جمہوری رویہ نہیں ہے۔
جمہوریت عوام‘ ووٹ‘ سیاست‘ حقوق اور آزادیٔ رائے کے ساتھ مل کر بنتی ہے؛ تاہم ہمارے ہاں جمہوریت بس کچھ ہی خاندانوں کو قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ باریاں لیتے رہتے ہیں اور عوام تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ اصل جمہوریت سے عوام کو دور رکھا جاتا ہے حالانکہ جمہوریت کی بنیاد ہی عوام ہیں۔ اگر چند لوگ ہی باریاں لیتے رہیں گے تو نظام میں جمود آ جائے گا۔ اس نظام کو نئے چہروں کو ضرورت ہے جو عوامی ہوں‘ جو عوام کا دکھ درد سمجھتے ہوں۔ جب تک سیاستدان مل کر نہیں بیٹھیں گے‘ جمہوری نظام درست نہیں ہو سکتا۔ جب تک وہ ایک دوسرے کا مینڈیٹ نہیں مانیں گے‘ حالات ایسے ہی رہیں گے۔ اب جو الیکشن ہوئے ہیں ان میں بھی دھاندلی کے الزامات کا شور ہے ۔ اگر سیاستدانوں کی طرح باقی بھی اپنے رویوں میں لچک لائیں تو پاکستان کی جمہوریت بھی چل پڑے گی اور پاکستان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ اس نفرت‘ کشمکش‘ انتقام‘ اَنا اور غرور و تکبر نے ہر شعبے کو نقصان پہنچایا ہے‘ اس لیے اُن لوگوں کو آگے آنا چاہیے جن کا اخلاق اچھا ہو تاکہ ملک میں سیاسی رواداری قائم ہو سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں